خاتون جنت ,حضرت فاطمتہ الزہرا !
رمضان المبارک میں جنت سجائ جاتی ہے,اسکی آرائش و زیبائش کی جاتی ہے_جنت کا
ذکر ہو تو اہل _جنت کا ذکر بھی ضروری ہے جن کی مدارات کے لئے یہ سارے
اہتمام ,اللہ رب العزت کے حکم سے کئے جاتے ہیں _حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
,جنت کی شہزادی اور جنتی خواتین کی سردار ہیں ,آپ کی سیرت ,کردار اور
اخلاقی خوبیاں ہمارے لئے آج بھی مشعل _راہ ہیں _ہمارے لئے آپ کے مقدس نقش
_پا کی پیروی میں ہی راہ نجات ہے !
آپ کا نام فاطمہ تھا ,اس کے معنی پاک ,بابرکت ,پاکیزہ کے ہیں _علامہ
قسطلانی نے "مواہب لدنیہ "میں اسکے معانی یوں بیان کئے ہیں کہ فاطمہ لوگوں
کودوزخ کی آگ سے روکنے والی ہیں -جبکہ القاب سیدہ النسا ,طاہرہ ,زہرا
,مطہرہ ,بتول ,ام ابیھا (اپنے والد کی ماں),راضیہ (اللہ اور اسکے رسول کی
رضا میں راضی رہنے والی ) ,کریمتہ الطرفین(یعنی باپ اور ماں دونوں کی نسبت
سے عالی مرتبہ ),بضعتہ الرسول (یعنی جگر گوشہ رسول )کے ہیں _صاحب روضتہ
الواعظین نے لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش سے کافی عرصہ
پہلے ,نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا
تھا کہ مجھے روح الامین (حضرت جبرائیل ع)نے خبر دی ہے کہ بیٹی کی پیدائش
ہوگی اور اسکا نام "فاطمہ "رکھا جاۓ -حضرت فاطمہ نے اپنی والدہ ام المؤمنین
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائ اور ان سے نہایت اعلی
'اخلاق واوصاف سیکھے _ایک بار ننھی فاطمہ نے ان سے پوچھا :"اماں جان ,اللہ
تعالی 'کی قدرتیں تو ہم ہر وقت دیکھتے ہیں ,کیا اللہ تعالی' خود نظر نہیں
آسکتے ؟ "
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :"میری بچی ,اگر ہم دنیا میں اچھے کام
کریں گے اور اللہ کے احکام پر عمل کریں گے تو روز_قیامت ,اللہ تعالی ' کی
خوشنودی کے مستحق ہوں گے اور یہی اللہ تعالی 'کا دیدار ہوگا !"
جب حضرت خدیجہ نے وفات پائ تو ننھی فاطمہ نے اپنے باباکا خیال رکھنے کی ذمہ
داری اٹھالی ,انکا لقب ام ابیھا اسی لئے پڑا کہ وہ ماؤں جیسی شفقت اپنے
بابا پہ لٹاتی تھیں-تبلیغ اسلام کی راہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے بڑی تکالیف اٹھانی پڑتیں ,کبھی وہ راستے میں
کانٹے بچھادیتے ,کبھی طعنہ بازی اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے قلب مبارک کو
تکلیف پہنچاتے _ان کٹھن حالات میں ننھی فاطمہ ,حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو بڑی تسلی دیا کرتیں اور کبھی خود بھی اشکبار ہو جاتیں _
حضرت فاطمتہ الزہرا بہت فرماں بردار بیٹی تھیں اور بابا کی مزاج شناس بھی
تھیں -کہا جاتا ہے کہ اخلاق و عادات ,انداز گفتگو ,چال ڈھال میں وہ رسول
اللہ (ص)سے بہت مشابہت رکھتی تھیں -نبئ مہربان بھی جان_پدر کو بہت عزیز
رکھتے تھے _جب بیٹی اپنے بابا کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے
اور ہاتھ پکڑ کے بیٹی کو پاس بٹھا لیتے ,یہ اکرام _اولاد کی بہترین مثال ہے
_بچیاں کمزور اور حساس طبع ہوتی ہیں اور باپ کی شخصیت سے انھیں تقویت ملتی
ہے -بیٹی کی دلجوئ کا بہترین نمونہ ہمیں اپنے نبئ مہربان سے ملتا ہے _
ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ,حرم _کعبہ میں نماز ادا کر رہے
تھےکہ کفار نے آپ کو اذیت دینے کے لئے اونٹ کی بھاری بھر کم اوجھڑی ,پشت _
مبارک پہ لا کے رکھ دی _رسول اللہ ,حالت _نماز میں ہی رہے ,کسی نے حضرت
فاطمہ کو اطلاع دی تو وہ دوڑتی ہوئ آئیں اور اپنے ہاتھوں سے وہ اوجھڑی ہٹائ
اور پھر کفار کو ڈانٹا ڈپٹا اور کہا "شریرو ,احکم الحاکمین تمہیں ان
شرارتوں کی سزا ضرور دے گا !"
آپکا دکھ اتنا شدید تھا کہ آپکی یہ بات ,رب العالمین نے حرف بہ حرف پوری
کردکھائ اور یہ سب کافر ,جنگ بدر میں ذلت کے ساتھ مارے گئے -ایک صحابی رضی
اللہ عنہ نے ان سب کافروں کو دیکھا کہ انکے جسموں کو گھوڑے پامال کر رہے
تھے اور پھر انھیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دیا گیا !
بیٹیاں یونہی کھیلتے کھیلتے بڑی ہو جاتی ہیں ,رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی پیاری بیٹی کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا اور بیٹی کو
نصیحت کی :"اے فاطمہ ! تیرا شوہر بہت اچھا ہے !"
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :"اے علی ,پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک
ہو !"
حضرت فاطمتہ الزہرا ,انتہائ صابر و شاکر بیوی اور شفیق ماں تھیں _گھر کے
کام کاج کرتے ہوۓ ,چکی پیستے ,روٹی پکاتے ہوۓ ,کھانا تیار کرتے ہوۓ ہر وقت
تلاوت کرتی رہتیں,شوہر اور بچوں کو کھانا کھلا کے خود آخر میں کھاتیں ,دن
قرآن پاک کی مشغولیت میں گزرتا اور رات کو مصلے پہ عبادت کے لئے کھڑی رہتیں
!!
~ نہ کسی سے کوئ واسطہ ,مجھے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے ,تیری فکر سے ,تیری یاد سے ,تیرے نام سے !
معاشی تنگی کے باوجود کبھی حرف شکایت زبان پہ نہ لاتیں ,نہ کبھی کسی چیز کا
گلہ شکوہ کیا -حضرت علی فرماتے کہ مجھے حضور اکرم (ص)کا یہ فرمان یاد آتا
کہ"فاطمہ ,دنیا کی بہترین عورت ہے !"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا پورا خیال رکھا
اور ایک بار انکی محنت مشقت دیکھتے ہوۓ کہا کہ آپ اپنے بابا سے کوئ غلام
کیوں نہیں طلب کرتیں ؟( اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خاتون خانہ کو ضرورت ہو
تو اس کے لئے ملازم یا ملازمہ رکھنا ,عین اسلام ہے )-حضرت فاطمہ ,اپنے بابا
کے پاس آئیں لیکن جھجک آڑے آئ اور کچھ کہہ نہ سکیں ,حضرت علی نے مدعا پیش
کیا ,اس پہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کیا کہ غلام تو اصحاب صفہ
کی خدمت کے لئے ہیں اور پیاری بیٹی کو سبحان اللہ ,الحمدللہ اور اللہ اکبر
کی تسبیحات بتا کے رخصت کردیا -یہ تسبیح _فاطمہ آج بھی ہمارے لئے بڑا سہارا
ہے اور کاموں میں آسانی لاتی ہے -
حضرت فاطمتہ الزہرا بہت سخی اور دریا دل تھیں ,کبھی کسی فقیر اور سائل کو
اپنے دروازے سے خالی نہ جانے دیتی تھیں _ایک بار حضور نے کسی اعرابی کے
بارے میں حکم دیا کہ کون ہے جو اسکی خوراک کا بندوبست کرے ؟حضرت سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ اس اعرابی کو لے کے حضرت فاطمہ کے دروازے پہ آۓ اور
دروازہ کھٹکھٹا کے التجا کی " اے اللہ کے سچے رسول کی بیٹی ,اس مسکین کی
خوراک کا بندوبست کیجئیے !"
سیدہ نے آبدیدہ ہو کے فرمایا:
"اے سلمان ! اللہ کی قسم ,ہم سب کو آج تیسرا فاقہ ہے ,دونوں بچے بھوکے سوۓ
ہوۓ ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی -جاؤ ,یہ میری چادر شمعون
یہودی کے پاس لے جاؤ اور کہو ,فاطمہ بنت _محمد کی یہ چادر رکھ لو اور اس
غریب انسان کو تھوڑی سی جنس (اناج)دے دو !"
سبحان اللہ ,حضرت سلمان ,یہ پاکیزہ چادر لے کے اس یہودی کے پاس گئے تو وہ
حیران رہ گیا اور پکار اٹھا : "اے سلمان ,اللہ کی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی
خبر تورات میں دی گئ ہے ,گواہ رہنا کہ میں فاطمہ کے باپ پہ ایمان لایا
!"اسکے بعد کچھ غلہ حضرت سلمان کو دیا اور وہ چادر بھی سیدہ فاطمہ کو واپس
کردی -اس واقعہ کا علم حضور اکرم (ص)کو ہوا تو آپ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف
لاۓ ,انکے سر پہ اپنا دست _شفقت پھیرا ,آسمان کو دیکھا اور دعا کی :"بار
الہا ,فاطمہ تیری کنیز ہے ,اس سےراضی رہنا !"
حضرت فاطمہ ہمیشہ باپردہ رہا کرتیں ,آپ کا فرمان ہے کہ باپردہ خاتون کی
مثال ایسی ہے جیسے سیپ میں موتی !
ایک بار آپ بیمار ہوگئیں ,حضور نے ایک بزرگ صحابی کو ساتھ لیا اور اپنی
لخت_جگر کی عیادت کو تشریف لے گئے -دروازہ پہ پہنچ کے داخلے کی اجازت مانگی
,سیدہ نے عرض کیا ,تشریف لائیے ,حضور نے ان صحابی کا ذکر کیا کہ وہ بھی
میرے ساتھ ہیں ,حضرت فاطمہ کہنے لگیں "ابا جان !میرے پاس ایک عبا کے سوا
کوئ دوسرا کپڑا نہیں کہ پردہ کر لوں "
رسول اللہ نے اپنے شانوں سے چادر مبارک اتار کے بیٹی کو دی کہ بیٹی اس سے
پردہ کر لو اور فرمایا ,اے لخت_جگر ,دنیا کے مصائب سے دل شکستہ نہ ہو ,تم
جنت کی عورتوں کی سردار ہو !"
~ عزائم جن کے اونچے اور اونچے بخت ہوتے ہیں
زمانے میں انھی کے امتحاں بھی سخت ہوتے ہیں !
ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسری شادی کا ارادہ کر لیا (ابو جہل کی
بیٹی سے ) تو حضرت فاطمہ بہت غمزدہ ہوئیں اور اپنے بابا کو بتایا کہ علی
مجھ پہ سوکن لانا چاہتے ہیں !حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پہ سخت
چوٹ لگی ,آپ مسجد میں تشریف لاۓ اور منبر پہ چڑھ کے فرمایا :
"فاطمہ ,میرے جگر کا ٹکڑا ہے ,جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ,جس نے
اسے دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا ,میں حلال کو حرام اور حرام کو
حلال نہیں کرنا چاہتا لیکن اللہ کی قسم !اللہ کے رسول کی بیٹی اور دشمن
_خدا کی بیٹی ,دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں !"
اس خطبہ نے حضرت علی کے دل پہ اثر کیا اور انھوں نے دوسری شادی کا ارادہ
ترک کردیا _(مومن مردوں کے لئے اس میں کافی رہنمائ ہے)-حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کو رب العالمین نے چھ بچوں سے نوازا تھا ,حضرت حسن ,حسین ,محسن ,ام
کلثوم ,رقیہ اور زینب رضوان اللہ علیہم اجمعین .ان میں سے محسن اور رقیہ
بچپن میں انتقال کر گئے تھے اور باقی بچوں نے تاریخ اسلام میں اعلی 'مقام
پایا -حضرت حسن اور حسین کو رسول اللہ ص نے نوجوانان جنت کے سردار قرار دیا
,حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل ,بیٹی سے ہی باقی رہی , انا شانئک ھو
الابتر ! سیدہ فاطمتہ الزھرا نے تقریبا 27 یا 29 سال کی عمر پائ _آپ 3
رمضان کو جنت کے سفر پہ روانہ ہوئیں - ہم سب کے لئے آپ کی زندگی مشعل راہ
ہے -
~ سیدہ ,زاہرہ ,طیبہ ,طاہرہ
جان _احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام !
#فکرونظر
#خاتون_جنت
#چادر_زہرا
#Fatimah
تحریر : عصمت اسامہ
|