مولانا محمد حیات محمدیؒ ۔۔ایک عہد جو گزر گیا

وہ ایک گاﺅں سے سائیکل پر اپنے ایک حواری کے ہمراہ تبلیغی فرائض کے بعد واپس آرہے تھے کہ کچھ شر پسندوں نے سنگ باری کر دی جس سے وہ زخمی ہو گئے ،آپ سنت رسول سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان شرپسندوں کے حملے کے ردعمل میں انہوں نے کوئی فتوی جاری نہیں کیا اور نہ ہی انہیں کو سا بلکہ انہوں نے ہاتھ اٹھائے رخ مبارک آسمان کی طرف کیا اور کہا کہ ”اللہ تیرا شکر ہے کہ یہ سنت ِ رسول بھی پوری ہوئی “

یہ 16مئی کی صبح تھی ، سحر کا وقت تھا،شدید گرمی کے موسم میں معمول کے برعکس موسم انتہائی خوشگوار تھا، ٹھنڈی ہواچل رہی تھی ، آسمان کو گہرے سیاہ بادلوں نے گھیر رکھا تھا ، سب کچھ غیر معمولی نظرآرہا تھا۔مجھے سوئے میں والدہ نے جگایا اور بتایا کہ مولانا صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور مجھے بلارہے ہیں، مولانا دل اور گردوں کے مرض میں مبتلا تھے ، میں ان کی بیماری سے بخوبی آگاہ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے علاج میں کافی سرگرم تھا ، اس کی ایک وجہ تو مولانا کی سحر انگیز شخصیت اور ان کا مجھ سے خصوصی لگاﺅ تھا تو دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمسائے ہونے کے ناطے مولانا اور ہمارے گھرانے میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا جاتا تھا ، یا یوں کہہ لیجئے مکان تو دو تھے لیکن گھر ایک ہی تھا ،مجھے گھبراہٹ ہونے لگی ، دوڑ لگائی اور اپنے ہمسائے میں مولانا صاحب کے پاس پہنچ گیا ۔گھر پہنچا تو دیکھا مولانا شدید تکلیف میں ہیں ، فوری ایمبولینس بلائی اور ڈسکہ کے نجی ہسپتال لے گئے ، مولانا ایک معروف مذہبی شخصیت تھے ، تمام مسالک کے لوگ ان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے ، اور اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ مسالک کی تبلیغ کی بجائے دین کی تبلیغ کرتے تھے جس وجہ سے وہ ایک غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے ،ہسپتال پہنچے تو عملہ نے فوری فرسٹ ایڈ فراہم کی اور حالات بس سے باہر ہونے کی وجہ سے سیالکوٹ ریفر کر دیا ، اس دوران نماز فجر کا وقت ہو چکا تھا ، مولانا نے فوری ایمبولینس میں بیٹھنے کی بجائے نماز کی ادائیگی کا اسرار کیا ۔ دل کے مریض کے لیے ایک لمحہ بھی بڑا قیمتی ہوتا ہے سینے میں تکلیف کی شدت تھی جس کا اندازہ ان کے چہرے مبارک سے لگایا جا سکتا تھا ، ہم نے سمجھایا کہ وقت کم ہے ، سیالکوٹ پہنچ کر قضا ادا کرلیجئے گالیکن اس حالت میں بھی انہوں نے نماز سے غفلت نہ برتی اور فانی سانسوں پر لافانی فرائض کو ترجیح دی ، نماز سے فراغت ہوئی تو سیالکوٹ کا رخ کیا ، ایمبولینس میں مولانا کے ہمراہ میرے علاوہ ان کے بڑے بیٹے حافظ عبدالرزاق اور عبدالسلام بھی موجودتھے ، آدھ گھنٹے کی مسافت میں مولاناہمیں نماز پڑھنے کی تلقین کرتے رہے ۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا دل میں وسوسے سر اٹھا رہے تھے ، میں کبھی آسمان پر چھائے گہرے بادلوں کی طرف دیکھتا ، اردگرد کے ماحول پر طاری عجیب سا سکوت محسوس کرتا تو کبھی مولانا کی نصیحتوں کو ذہن میں لاتا ۔ انہوں نے تمام زندگی سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی تبلیغ کی ۔ہچکولے کھاتی سوچوں کے اس سمندر میں مجھے مولانا کا ایک واقعہ ذہن میں آگیا ، تحصیل ڈسکہ اور اس کے نواحی علاقوں میں روایت پسند مسلکی قوتوں کا غلبہ تھا ، شدت پسندی کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی اسلام سے منافی روایات کے خلاف حقیقی دینی تصور پیش نہیں کر سکتا تھا، ان حالات میں مولانا نے اس علاقے میں خالص توحید ورسالت کی تبلیغ کا آغاز کیا ۔ وہ ایک گاﺅں سے سائیکل پر اپنے ایک حواری کے ہمراہ تبلیغی فرائض کے بعد واپس آرہے تھے کہ کچھ شر پسندوں نے سنگ باری کر دی جس سے وہ زخمی ہو گئے ،آپ سنت رسول سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان شرپسندوں کے حملے کے ردعمل میں انہوں نے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا اور نہ ہی انہیں کو سا بلکہ انہوں نے ہاتھ اٹھائے رخ مبارک آسمان کی طرف کیا اور کہا کہ ”اللہ تیرا شکر ہے کہ یہ سنت ِ رسول بھی پوری ہوئی “۔ پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ رسول بھی اپنے آخری ایام میں نماز ہی کی تلقین کرتے تھے ۔میرا دل ڈوبنا شروع ہو گیا ۔سیالکوٹ ہسپتال پہنچے تو فوری انہیں آئی سی یو منتقل کر دیا گیا ۔آئی سی یو پہنچتے ہی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز نے دوائیاں منگوائیں، حافظ عبدالرزاق دوائی لینے نکل گئے ، اب آئی سی یومیں ڈاکٹر ، مولانا اور میرے سوا کوئی نہ تھا ،مولانا نے اپنے بڑے بیٹے بارے دریافت کیا تو میں نے جواب دیا کہ وہ دوائی لینے گئے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے انتہائی اطمینان بھرے لہجے وہ الفاظ ادا کیے جو آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ” اب وقت گزر چکا ہے ، اب کیا فائدہ “ ۔ پھر انہوں نے مجھے کندھے دبانے کے لیے کہا تو میں ان کی پشت پر بیٹھا کندھے دبانے لگا ۔کچھ لمحے ہی گزرے کہ میرے داہنے کندھے پر بوجھ بڑھنے لگا ، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مولانا اپنا توازن برقرا ر نہیں رکھ پا رہے ، میں نے غور کیا تو محسوس ہوا مولانا کی آنکھیں بند ہو رہی ہیں اور جیسے وہ نیند کے عالم میں ہوں ، میں گھبرا گیا اور ڈاکٹر جو بیڈ کے پائندے کھڑا میڈیکل فائل ہسٹر ی بنا رہا تھا اسے متوجہ کیا ۔ڈاکٹر فوری حرکت میں آیا اور مولانا کو دیکھنے لگا ، الیکٹرک شاکس لگائے لیکن مولانا ہوش میں نہ آئے ۔پھر وہ درد بھرا لمحہ آیا کہ ڈاکٹر نے کہا”آئی ایم سوری“ ۔ساعتیں رک گئیں، دل تھم گیا ، آنکھیں ساکن ہو گئیں گویا سکتے کا عالم چھا گیا ، گویا ساری دوڑ دھوپ ختم ہو گئی ۔ایک شخص جو ابھی میرے بازوﺅں میں سانسیں لے رہا تھا وہ اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکا تھا۔یہ ساعتیں آج بھی محسوس کر پاتا ہوں ، آج بھی حیران زدہ ہوں کہ نہ کوئی آہ نہ کوئی پکار ، کتنے پرسکون انداز میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی روح قبض کر لی ۔جسد خاکی بوجھل دل کے ساتھ واپس ڈسکہ لے آئے نماز جنازہ ادا کی گئی ۔یہ جنازہ ڈسکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں نہ صرف تمام مکتبہ فکر کے افراد شریک ہوئے بلکہ غیر مسلموں نے بھی جنازہ میں شرکت کی درخواست کی ۔اس دن یہ راز بھی ہم عیاں ہوا کہ وہ صرف اپنے کنبے ہی کے کفیل نہ تھے بلکہ درجنوں گھرانے ان کی زیر کفالت تھے ۔ان چند لوگوں سے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ مولانا اس معاملے میں بھی سنت رسول سے غافل نہ تھے اور عین اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا نظر آئے ” دائیں ہاتھ سے اس طرح خرچ کروکہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے “۔آج مختلف این جی اوز اور فلاحی تنظیموں پر غور کریں ، نیکی کرنا تو دور نیکی کا ارادہ بھی کر لیں تو گلیوں بازاروں اور سوشل میڈیا پر اشتہارات اور بینرز آویزاں کر دیئے جاتے ہیں گو کہ ان لوگوں کے اقدامات سے چند گھرانوں کو فائدہ تو پہنچ رہا ہے لیکن ریا کاری کا عنصر دینی فریضہ کی ادائیگی پر غالب نظر آتا ہے ۔ ان اداروں اور تنظیموں کا مقصد نیک اعمال میں اضافہ کی بجائے اپنے مال میں اضافہ کرنا ہے ۔شہرت اور دولت کی ہوس کے پجاری ان چند لوگوں نے دین کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ پیدا کر رکھا ہے ۔

مولانامحمد حیات محمدی ؒ کو ہم سے بچھڑے آج پورے 14سال ہوگئے ۔وہ ایک شفیق باپ ، وفادار شوہر ، ذمہ دار ہمسایہ ہونے کےساتھ ساتھ ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے ۔تمام مکاتب فکر کے علماءدینی مسائل کے حوالے سے ان سے راہنمائی لیتے تھے ،مزاح بھی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا وہ سخت سے سخت بات اس خوبصورت انداز میں سمجھا جاتے کہ سننے والوں پر گراں نہ گزرتی ۔ایک دفعہ میں اور مولانا کے بیٹے عبدالسلام شاپنگ کی غرض سے لاہور آنے لگے ، ان دنوں سکن ٹائیٹ جینز کا رواج تھا ۔مولانا نے اپنے بیٹے کو ان کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو مسکراتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے کہ ”بیٹا عبدالسلام کو بولو اس کا باپ اتنا بھی غریب نہیں، اس دفعہ کپڑا ذرا زائد خریدنا تاکہ میرے بیٹے کو شرمندگی نہ ہو “۔ہماری آنکھیں شرم سے جھک گئیں اور بات بھی سمجھ میں آگئی ۔ یوں تو ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے جڑے سینکڑوں واقعات ہیں جن پر کتابیں تحریر ہو سکتی ہیں لیکن اپنے وقت کے ولی اللہ کو الفاظ میں سمیٹا نہیں جا سکتا ۔میرا یقین کامل ہے کہ اللہ نے جس طرح مولانا کو دنیا میں اعلیٰ مقام عطا فرمایا آخرت میں بھی ان کے درجات بلند ہوں گے ۔ وہ آج ہم میں موجود نہیں، ان کی کمی پوری نہیں کی جا سکتی لیکن ان کا وعظ و نصیحت اور طرز زندگی آج بھی ہمیں منور کر رہے ہیں۔اللہ مولانا کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کا نزول کرے اور ان کے درجات مزید بلند فرمائے۔

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.