سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ
نیا نیا تھا جس کی لپیٹ میں آیا ہوا پورا ملک ایک بحرانی کیفیت سے دوچار
تھا۔ میں ان دنوں اسلام آباد میں نووارد تھا۔ اپریل، مئی ۲۷۹۱ءکی کسی
خوشگوار سہ پہر میں پروفیسر نظیر صدیقی مجھے ایک ادبی نشست ”سلسلہ“ میں لے
گئے۔گھر ممتاز شاعرہ ادا جعفری کا تھا جن کے میاں نورالحسن جعفری حکومتِ
پاکستان کے فنانس سکریٹری تھے۔
ان دنوں اسلام آباد اور راولپنڈی میں نامورادیبوں شاعروں کی موجودگی سے
وہاں کی ادبی سرگرمیوں میں اچھا خاصا اضافہ ہو چکا تھا۔ قدرت اللہ شہاب،
ممتاز شیریں، صمد شاہین،سید ضمیر جعفری، احمد فراز، رشید امجد، محمد منشا
یاد، محب عارفی، صادق نسیم، ظہیر فتحپوری، انور مسعود، جمیل ملک، خاقان
خاور، سلطان رشک، جمیلہ شاہین، منیر احمد شیخ، مظہرالاسلام، مظفر علی سید،
جوگی جہلمی، منصور قیصر، ماجدالباقری، منصور عاقل، شعیب بن عزیز، رفعت
سلطان، مشتاق قمر، احسان اکبر، محمد جلیل عالی، اجمل نیازی، نثار ناسک،
رابعہ نہاں، ربیعہ فخری، یونس رمزی،کرم حیدری، شریف کنجاہی، شبنم مناروی،
مہتاب ظفر، بشیر رزمی، انجم گیلانی، رشید نثار، اور بہت سارے دوسرے اہل قلم
نے ایک کہکشاں سی سجا رکھی تھی۔
اُس سہ پہر جن نئے لوگوں سے میرا تعارف ہوا ان میں بیگم اختر جمال اور احسن
علی خاں بھی شامل تھے۔ دونوں کے بارے میں ماہنامہ افکار کراچی کے مدیر صہبا
لکھنوی مجھے پہلے سے بہت کچھ بتا چکے تھے۔ اختر جمال کے افسانے مقتدر اردو
رسائل بالخصوص” نقوش“ لاہور اور” افکار“ کراچی میں تواتر کے ساتھ چھپ رہے
تھے۔ ان افسانوں نے اردو کے قارئین اور ناقدین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
ایک نئی توانا بھرپور آواز جس میں احتجاج بھی تھا، معاشی اور معاشرتی
ناہمواریوں کی جھلکیاں بھی تھیں اور ایک شکستہ روح کی صدائے بازگشت کے ساتھ
کسی نئی دنیا کے خواب کا اشاریہ بھی۔
اختر جمال ۲۲ مئی ۰۳۹۱ء کو بھوپال میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیمی مراحل
بھوپال، علی گڑھ، ناگپور، اور پنجاب میں طے ہوئے۔ پشاور یونیورسیٹی سے
امتیازی حیثیت سے اردومیں ایم اے کیا۔ درس و تدریس سے دلچسپی انہیں ایبٹ
آباد، گجرات، راول پنڈی، اور اسلام آباد کے کالجوں تک لے گئی جہاں انہوں نے
بڑی کامیابی سے اپنے گوناگوں تدریسی فرائض انجام دئے۔
اختر جمال بھوپال میں تھیں کہ ان کی شادی احسن علی خاں کے ساتھ انجام پائی۔
احسن علی خاں بھوپال کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری تھے۔ مشہور شاعر
جاں نثار اختر انجمن کے صدر تھے۔ اختر جمال خود بھی انجمن کی رکن
تھیں۔بھوپال کالج میں صفیہ اختر ان کی چہیتی استاد تھیں ۔ صفیہ اختر،جو آج
بھی اپنے خطوط کے مجموعے ”زیرِ لب“ کے لئے مشہور ہیں، معروف و مقبول شاعر
جاں نثار اختر کی بیگم اور اس دور کے ممتاز شاعر اسرارالحق مجاز کی بہن
تھیں۔
افسانہ نگار کی حیثیت سے اختر جمال پورے بر صغیر کے اردو ادب میں ممتاز
مقام کی حامل ہیں۔ ان کی تصنیفات ”انگلیاں فگار اپنی“، ”زرد پتوں کا بن“،
”خلائی دور کی محبت“، ”سمجھوتہ ایکسپریس“،”ہری گھاس سرخ گلاب“،اور ”پھول
اور بارود“ بیسویں صدی کے نصف آخر کے نثری ادب کا بیش بہا خزینہ ہیں۔
خاکہ نگاری کے میدان میں بھی انہوں نے انوکھے نقوش چھوڑے ہیں۔ افسوس کہ
اختر جمال آٹوا، کینیڈا میں بدھ کے دن۹ فروری ۱۱۰۲ءکی صبح ساڑھے پانچ بجے
رحلت کر گئیں۔ وہ ہفتے بھر پہلے ہسپتال میں داخل ہوئی تھیں۔ موت حرکتِ قلب
بند ہوجانے کے سبب واقع ہوئی۔کلُ من علیہا فان۔ موت سے کس کو رستگاری ہے،
آج وہ کل ہماری باری ہے۔
آخر میں ان کے خاکوں سے دو اقتباسات دیکھیے:
(۱) میرے میاں کہتے ہیں ” تم تو دیوانِ غالب وضو کر کے پڑھتی ہو اس شخص نے
تو ساری زندگی نماز بھی نہیں پڑھی تھی“ اب یہ کیسے سمجھائیں کہ اس شخص نے
تو ساری زندگی فن کو عبادت بنا لیا تھا۔۔۔
غالب کے ساتھ ساتھ امراؤ بیگم سے بھی شدید محبت محسوس ہوتی ہے بیچاری امراؤ
بیگم۔! اتنے بڑے سمندر کا ساحل بننا ان کی قسمت میں تھا۔ سمندر کے ہاتھوں
سارے دکھ ساحل کو تنہا جھیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے سب کنارے اسی لئے کٹے پھٹے
نظر آتے ہیں۔ ہر موج کی چوٹ، ہر طوفان کے ناز اٹھانا ساحل کا مقدر ہے اور
ساحل کی بڑائی اور خوبصورتی یہ ہے کہ وہ چپکے چپکے سب کچھ سہتا رہتا ہے اور
سمندر کو گلے لگائے رکھتا ہے۔ (فیض احمد فیض کی بیگم ایلس فیض پر ایک خاکہ
بعنوان ”شاخِ گل“)
(۲) ”آئینہ“ کی وساطت سے ممتاز شیریں کو دیکھا تھا۔پھر ان کی تصویر دیکھی۔،
اتنی خوبصورت آنکھیں! میں نے اپنی پسند کے سب لکھنے والوں کی آنکھیں بہت
خوبصورت پائیں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ جنت کی حوروں کی اللہ میاں نے جو
اتنی تعریف کی ہے شاید وہ سب بھی اہل قلم ہوں گی۔ (ممتاز شیریں پر خاکہ
بعنوان ”آئینہ“)
کوئی عجب نہیں کہ ممتاز شیریں پاس پڑوس میں اپنی بے حد ذہین، لائق و فائق ،ہم
عصر افسانہ نگار کی آمد پر پھولے نہ سمائی ہوں۔ |