پورا شہر گہرے اور گھپ اندھیرے
میں ڈوب چکا تھا اور لوگ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے ، اندھیرا اس قدر
گہرا تھا کہ آنکھ کو کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا تھا ، رات کافی بیت چکی تھی
اور شہر کی گلیوں ، سڑکوں پر ہُو کا عالم تھا ایسے میں رات کے اس پچھلے پہر
اچانک موبائل فون کی بج اٹھنے والی گھنٹی نے گویا اس سنگین قسم کی خاموشی
میں شگاف ڈال کے رکھ دیا تھا ۔ جونہی کال اٹینڈ کی تو آنکھوں کے سامنے
آندھیاں سی چلتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ، رات کے اس گہرے سناٹے میں فون کرنے
والے نے مختصر سا پیغام دیا کہ کمانڈو اختر محمود بارڈر ایریا میں دشمن فوج
کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا ہے ۔ یہ مختصر سا پیغام
ملتے ہی خود کو سنبھالنا قدرے مشکل ہو رہا تھا ، بمشکل دیوار کا سہارا لیتے
ہوئے سوئچ بورڈ تک پہنچ پایا اور لائٹ آن کرنے میں کامیاب ہو سکا ۔پیارے
دوست اختر محمود کی شہادت نے میرے جسم کے در و دیوار کو لرزا کر رکھ دیا
تھا ، اس سے وابستہ یادیں ، گزرے روز و شب اور ماضی کے بے شمار حالات و
واقعات کا دفتر آنکھوں کے سامنے کھلتا گیا اور میں یاد ماضی کے اس درد ناک
عذاب میں مبتلا ہو تا چلا گیا ۔ کمانڈو اختر محمود تو بہت ہی جی دار قسم کا
آدمی اور زندہ دلی کا حسین مرقع تھا ۔ ہم نے پچپن اکھٹے ہی گزارا تھا اور
ایک ہی گاﺅں میں پلے بڑے تھے ، وہ بڑا شرارتی قسم کا بچہ تھا اور پھر
شرارتیں بھی ایسی کہ فل رسکی قسم کی ۔ اونچے درختوں ، دیواروں سے بلاخوف و
خطر کود پڑنا ، رسہ پھلانگنا اور دریائے سندھ کی تند و تیز موجوں کے ساتھ
نبر د آزما ہونا اسے بے حد پسند تھا ۔ معلوم نہیں کہ کس نے اس کے ننھے اور
معصوم سے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ میٹرک کے بعد پاکستان آرمی جوائن
کرنی ہے اور ایس ایس جی کمانڈو بننا ہے بس اسی کمانڈو بننے کے خبط نے اسے
خطرناک کھیلوں کے قریب کر دیا تھا ، مجھے یاد ہے کہ جب کارگل محاذ جنگ کے
دوران ایک شہید سپاہی کا جسد خاکی گاﺅں پہنچا تھا تو گاﺅں کے دوسرے لوگوں
کی طرح اختر محمود کا جوش و جذبہ بھی دیدنی تھا ، جس دم شہید کا جسد خاکی
گا ڑی سے اتار کر جنازہ گاہ کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو ایسے میں ایک
نوجوان بڑی پھرتی اور جو ش و جذبے سے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور اس کے
ساتھ ہی فضاءاللہ اکبر اور الجہاد و الجہاد کے مسحور کن نعروں سے گونج اٹھی
تھی ۔یہ خوبصورت نوجوان اختر محمود ہی تھا جو اپنے جذبات کا اظہار کرتے
ہوئے اس شہید ناز کو خراج عقیدت پیش کر رہا تھا ۔ میں نے نوٹ کیا کہ بس پھر
اس دن کے بعد اختر محمود کا دل گاﺅں میں کبھی نہیں لگا اور وہ ہر وقت
کمانڈو بننے کی فکر اور جستجو میں مگن رہنے لگا پھر اس کی امید اس وقت بر
آئی جب وہ فوج میں بھرتی ہوگیا اس دن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اختر محمود
کو گوہر نایاب ہاتھ آگیا ہو ، پاک فوج میں شمولیت کے دو سال بعد میری اس سے
ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ یکسر بدل چکا تھا اور گول مٹول ننھے سے
اختر محمود نے ایک مضبوط فوجی جوان کا روپ دھا ر لیا تھا ۔ میں نے کہا سناﺅ
کیسی لگی یہ لائف ؟ کہنے لگا بھائی بس دعا کریں میں جلد ایس ایس جی میں
سلیکٹ ہو جاﺅں ، میں نے حیران وششدر ہوتے ہوئے اس سے پوچھا کیا کہہ رہے ہو
بھائی ؟ کیا ابھی تیری منزل نہیں آئی ؟ کہنے لگا نہیں بھائی میں اپنے شوق
میں انتہاء تک جانا چاہتا ہوں اور اپنی دلی مراد پانا چاہتا ہوں ۔پھر میں
نے دیکھا کہ اللہ نے اس کی یہ خواہش اور شوق بھی پورا کر دیا اور وہ اپنے
سچے جذبے ، خلوص اور لگن کے بل بوتے پر پاکستان آرمی کے مایہ ناز کمانڈ و
گروپ ایس ایس جی کے تربیتی کیمپ میں جا پہنچا ۔ میں اس کی سخت سپاہیانہ
زندگی کے بارے میں سوچتا رہتا اور مشاہدہ کرتا رہتا کہ یہ کیسا نوجوان ہے
جس نے اس کچی سی عمر میں اپنے لیے پھولوں کی سیج کے بجائے خطرنا ک ترین
راستے کا انتخاب کر ڈالا ہے ۔ بس پھر کیا تھا؟ اس کی زندگی اور بھی سختیوں
اور جانفشانیوں سے عبارت ہوتی چلی گئی اور میں دیکھتا چلا گیا ۔۔۔وہ محض
اپنے شوق ،حقیقی جذبے اور خلوص نیت کی بناء پر اس چھوٹی سی عمر میں ایک سخت
جان کمانڈو بن چکا تھا ۔ کمانڈو کورس سے واپسی پر وہ ملا تو عسکری تربیت کے
حالات و مشاہدات اور تفصیلات جان کر اسے داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔ پھر جب
سے وہ کمانڈو بنا ہما ری اور اس کی منزلیں جدا ہی ہوتی گئیں اوروہ ہم سے
دور ہوتا گیا اور اس سے ملاقاتوں میں کمی آتی گئی لیکن وہ جب کبھی چھٹی آتا
تو گاﺅں میں بہاریں لوٹ آتی تھیں ، لوگوں کا دل جیت لینے کی خوبی اس میں
بلا کی تھی ، فولاد کی سی قوت حاصل کرنے کے بعد بھی اس کے لہجے کا نرو م
نازک انداز بدستور وہی رہا ، اس کی دلچسپ اور محبت بھری گفتگو سے ہر ایک
محظوظ ہوتا تھا ۔ وہ بچوں ، بڑوں اور نوجوانوں غرض ہر ایک کا دلدادہ تھا ۔
ایس ایس جی کورس نے اس میں شیر کی سی بہادری اور چیتے جیسی پھرتی کوٹ کوٹ
کر بھر دی تھی ۔ جب میں اس کی خوبصورت جوانی، سچے جذبے اور اپنی مٹی سے
جنون کی حد تک محبت اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی جنگی مہارت اور چٹانو ں سے
بھی زیادہ مضبوط عزائم کو دیکھتا تو سوچتا کہ ہندو بنیا اور عالمی استعماری
طاقتیں اس ارض وطن کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں اور اپنا شیطانی جال بننے میں
دن رات مصروف عمل ہیں لیکن شاید یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ
اس ارض وطن پر کمانڈو اختر محمود جیسے جانثار اور نڈر سپوت بھی بستے ہیں جو
اسلام اور اس دھرتی ماں کا تحفظ کرنا بخوبی جانتے ہیں ، جو فولادی چٹانوں
سے ٹکرانوں کا عزم مصمم کیے ہوئے ہیں ۔پھر جوں جوں دن گزرتے گئے اس کی
وفاداریاں اور خداداد صلاحیتیں ملک و ملت کے لیے وقف ہوتی گئیں ۔بعض لوگ
اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیا کرتے ہیں بے شک یہ بہادر کمانڈو جتنے دن
بھی جیا اپنے لیے نہیں لیے ملک و قوم کے لیے جیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ
اس نے ملت سے کیا گیا وعدہ کیسے ایفاء کیا ۔اس کے ساتھی مجھے بتا رہے تھے
کہ وہ انڈین آرمی کے بلیک کیٹ کمانڈو ز اور بارڈر پولیس کے ساتھ بڑی ہی بے
جگری کے ساتھ لڑا تھا ، اس کی گن آگ اگل رہی تھی اوردھرتی اس کی گولیوں کی
تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی تھی اور دشمن سپاہ اس کی تاب نہ لا کر بالآخر راہ
فرار اختیار کر چکی تھی ۔اسی کامیاب و کامران معرکے میں پاکستانی قوم کا یہ
بہادر فرزند اور دلیر کمانڈو اپنی زندگی کی بازی ہار گیا اور اپنے سرخ لہو
سے اپنی مٹی کا قرض چکا کرتاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے |