توکل علی اللہ اور عشق رسول

آپ نے اُس جنگ کا حال تو ضرور سن رکھا ہو گا کہ ایک طرف چھوٹا سا لشکر تھا، چند مرگھلے گھوڑے، چند ٹوٹی تلواریں، اور دوسری طرف ایک لشکر جرّار ‘ ہاتھی گھوڑے‘ تیروسناں اور اسلحہ کا انبار.... ساتھ ناچتی گاتی ‘قومی حمیت کے جذبات ابھارتی میراثنیں بھی تھیں ، مگر ہوا کیا ؟ اس سب کے باوجود شکست بڑے لشکر کا مقدر بنی اور فتح چھوٹے لشکر کو نصیب ہوئی اور حریف کی ساری نفری میدان چھوڑ کر بھاگ نکلی یا نیست ونابود ہو گئی۔

ممکن ہے کبھی آپ نے اس کے اسباب وعلل پر بھی غور کیا ہو....یہ اتنی گہری بات نہیں.... یقیناً چھوٹے لشکر میں زیادہ بے جگری ، جوش وجذبہ ہوگا اور کوئی مثبت مقصد بھی کہ بے مقصد جنگ بجائے خود ایک کمزوری ہے، مگر صرف یہی عوامل وعناصر نہیں ، اس کے سوا بھی اسباب ہوں گے۔ کم تعداد اور بے سروساماں لشکر میں آزمودہ کار‘ ہوش مند اور منصوبہ ساز ہوں گے۔ سپہ سالار سے عام سپاہی تک سب ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں متحد ہوں گے، جوش وجذبہ کے ساتھ تحمل و تدبر کا بھی غیر معمولی مظاہرہ کیا گیا ہو گا۔ سپہ سالار کی جنگ کی بساط پر گہری نظر‘ مہروں کو آگے بڑھانے میں احتیاط، پیش نظر میدانوں سے بہ خوب آگہی‘ بروقت فیصلے، دشمن کی کم زوریوں پر نگاہ‘ اس پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے حربے.... یہ سب اسباب ہوں گے لیکن!....لیکن تاریخ نے ازل سے جاری حق و باطل کی جنگ کے‘ اس سب سے خاص اور فیصلہ کن معرکہ کے ذکر میں ان تمام اسباب کا ذکر بہت سرسری انداز میں کیا ہے اور .... اس سے سِوا اور کچھ اس سے بڑھ کر ایک اور سبب کا ذکر بڑے شدو مد سے کیا ہے اور وہ ہے محبت .... شدید محبت....جی ہاں وہی فاتح عالم محبت ، جو ایک بار کسی دل کو اپنا مسکن بنا لے تو پھر جان تو جاتی ہے لیکن محبت رسوا نہیں ہوتی.... اُن کے رگ وریشے میں بھی اپنے ربّ اور اس کے پیمبر کی محبت کچھ طرح سرایت کر گئی تھی کہ ان کے نحیف و لاغر بدن‘ دشمنوں کے لیے سنگ وآہن کی وہ دیوار بن گئے جسے پار کرنا دشمنوں کے بس کی بات نہ رہی۔

اپنے سپہ سالار سے شدید محبت، اس کے وعدوں پر یقین اور اس کے فرمودہ ارشادات پر پختہ ایمان ہی وہ ہتھیار تھا جس کی وجہ سے کم نفری، کم وسائل لشکر کے اِن فدائی سپاہیوں نے اپنے آخری سپاہی تک جانبازی اور سرفروشی کے وہ لازوال مظاہرے پیش کیے ‘ جو قیامت تک کے لیے اس باب میں ضرب المثل بن گئے۔

مذکورہ بالا ایمان و کفر کے عظیم الشان معرکے کے بعد امت مرحومہ پر پچھلے چودہ سو انتیس برسوں میں کئی آزمائشیں آئیں‘ ایسی ایسی ہولناک آزمائشیں کہ ہم جیسے کم ظرفوں کو آج ان کا تذکرہ پڑھتے ہوئے بھی پسینہ آجائے اور پتّہ پانی ہونے لگے....مثلاً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد جھوٹے نبی کا ظہور ہو یا سبائی منافقوں کی چیرہ دستیاں.... منگولوں کی یلغار ہو یا صلیبی جنگیں....!! ہر ہر آزمائش ایسی ہے کہ امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور پر آتیں تو بلاشبہ آج اس کا روئے زمین پر کوئی نشاں نہ ملتا .... جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ امت اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے ساتھ تمام مصائب و مشکلات کو نہ صرف جھیلتی رہی بلکہ ہر محاذ ،ہر میدان میں دیر سویر فتح کے جھنڈے گاڑتی رہی۔

دراصل اس امت کا خمیر ہی کچھ ایسی مٹی سے اٹھایا گیا ہے کہ مشقتیں اور سختیاں اس کے حق میں؟؟ بن جاتی ہیں اور آسانیاں اور آسائشیں اس کے لیے سمّ قاتل.... اندلس کی مثال ہمارے سامنے ہے.... آٹھ سو سال کی شان دار حکومت اور یورپ میں مسلمانوں کا قائدانہ کردار لیکن جب مسلمانوں نے گھوڑے کی پشت چھوڑ کر شان دار محلات کو اپنا مسکن بنا لیا تو پھر وہ درگت بنی کہ انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ خود اپنے ہاتھوں اپنے گھر کی چابیاں صلیبیوں کے حوالے کرنی پڑیں۔ لیکن اس کے با نسبت جب مسلمانوں نے دنیاوی جا ہ وحشم جھٹک کر توکل علی اللہ کو اپنا زادِ راہ بنایا اور آخرت کو اپنی منزل قرار دیا تو اللہ جل شانہ نے انہیں کم وسائل کے باوجود ہر محاذ پر فتح یاب کیا۔

دور کیوں جائیں،ہمارے پڑوسی افغانستان کی سرزمین میں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری ”مدعی سپر پاور“ کی درگت اور وہ بھی بوریا نشیں افغانوں کے ہاتھوں قرآن پاک کی آیت ”کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن اللہ“کی شاندار تفسیر نظر آتی ہے۔ شروع کی سطور میں جس جنگ ”غزوہ بدر“ کا نقشہ پیش کیا گیا اس کا پرتو آج ہمیں افغانستان میں نظر آ رہا ہے۔ بے سروساماں طالبان افغانستان کی سر زمین پر اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ 150000غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود افغان انتظامیہ کا کٹھ پتلی سربراہ کابل کے قلب میں زمینی راستے سے سفر نہیں کر سکتا اور امریکی چھتری تلے اس کی حکومت چند صوبوں کے چند اضلاع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔صورت حال ان صلیبیوں کے حق میں اتنی مخدوش ہو چکی ہے کہ پچھلے دنوں قابض غیر ملکی فوج کا سپہ سالار جنرل میک کرسٹل دنیا بھر کے سامنے اپنے گلے میں رسوائی کا طوق ڈالے گھر سدھار گیا۔جب فوج کا سپہ سالار ہمت چھوڑ دے تو فوجیوں کی ذہنی واخلاقی حالت ہوگی ،یہ امریکی فوجیوں میں خودکشی کی شرح میں مسلسل اضافہ سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ تازہ خبر ہے کہ کینیڈا اور اٹلی ایک سال کے اندر اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ کیوں کہ اب جنگ جاری رکھنے کی استعداد ان میں نہیں رہی۔صرف قابض فوجوں کے سرخیل امریکا کی بات لے لیں تو تازہ ترین خبر کے مطابق رواں سال کے دوران امریکا کو ایک کھرب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا ہے۔ دس فیصد سے زیادہ بے روزگاری نے امریکی حکومت کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ پھر امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں میں بھی تیزی کی وجہ سے اسے خود اپنے ہی شہریوں کی تندو تیز تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صورت حال کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں کو اب اپنے ماتھے پر شکست صاف لکھی نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی اب ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ کسی طرح افغانستان سے باعزت واپسی ہو جائے۔ اسی لیے طالبان کے ہاتھوں میدانوں میں مسلسل بدترین ہزیمت اٹھانے کے بعد اب ان کے ساتھ مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ طالبان کمانڈروں کے نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالے جانے کی بات ہو رہی ہے اور ۱۱۰۲ء تک امریکا اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر چکا ہے.... یہ سب قدرت کے تماشے ہیں۔پڑوسی ملک کے خدا ترس بوریا نشینوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر مقصد اعلیٰ اور نیت میں اخلاص ہو ، صفوں میں اتحاد اور ہوش مند ومدبّرسپہ سالار ہو اور سب سے بڑھ کر زادِ راہ توکل علی اللہ اور ہم راہ عشق رسول ہو تو بنی اسرائیل کا فرعون ہو یا آج کا بدمست فرعون ! ایک ضربِ کلیمی انہیں ذلت کے جوہڑوں میں غرق کرنے کے لیے کافی ہے۔
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174788 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More