رات جب بیٹی نے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کا
واقعہ سناتے ہوئے یہ کہا کہ کس طرح ایک رات ان کا گزر ایک ایسے گھرانے پر
ہوا، جہاں کھانے کو کچھ بھی میسر نہ تھا۔ خاتون خانہ نے اپنی معصوم بچوں کو
بہلانے کی خاطرخالی ہانڈی چولہے پر چڑھائی ہوئی تھی۔ تاکہ بچوں کی آس ٹوٹنے
نہ پائے اور انتظار کرتے کرتے وہ نیند کی آغوش میں چلے جائے۔ خلیفہ ثانی کو
جب اصل حقیقت کا پتہ چلا تو وہ بیت المال تشریف لے آئے۔ وہاں سے راشن لے کر
دوبارہ وہیں پہنچ گئے۔ اپنے سامنے کھانا تیار کراکے اس وقت واپس لوٹے جب
معصوم بچوں نے سیر ہوکر کھایا۔
سوچ رہا ہوں کہ آخر تھے تو وہ بھی انسان ۔ لیکن حب رسول ﷺ اور خوف اﷲ نے
اسے حکمران ہوتے ہوئے بھی چین سے سونے نہ دیا۔ وہ ہر وقت اسی مشن میں
سرگرداں رہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، ان کی حکمرانی میں رعایاکے ضروریاتِ زندگی
پوری ہو۔ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اہلیہ نے آواز دی کہ میاں! آٹا
ختم ہوچکا ہے لہٰذا کل تک اٹا آجانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ تم بے فکر ہوکے
سو جاؤ، کل کی کل دیکھی جائے گی۔
رات کے پچھلے پہر جب میں گہری نیند سورہا ۔ دروازہ زور سے بجنے لگا۔ چونکہ
رات خلیفہ ثانی کا واقعہ ابھی ذہن میں تھا۔ لہٰذا میں نے دل ہی دل میں کہا
، ہو نہ ہو ’’خلیفہ ثالث ‘‘ راشن اٹھائے تشریف لے آئے ہیں ۔ ابھی میں اٹھنے
ہی والا تھا کہ شیطان مردودنے میر ا مزاق اڑاتے ہوئے کہا کہ شکل دیکھی ہے
تم نے اپنی کہ اب راشن تمہارے دروازے پرپہنچ جایا کرے گا۔ میں نے اس پر
لعنت بھیجتے ہوئے کہا کہ ہمارے دین میں مایوسی اور ناامیدی کی کوئی گنجائش
نہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ خان صاحب نے ریاست مدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے
رعایہ کے داد رسی کی شروعات مجھ سے کی ہو۔ میں خوشی خوشی دروازے پر پہنچا
اور نظر اٹھائے بغیر ہی پکار اٹھا۔ اہلاً وسہلاً یا امیرالمومنین! سامنے سے
جواب آیا کہ دماغ نے کام کرنا چھوڑدیا ہے کیا؟ کیا امیرالمومنین، مومنین
لگا رکھا ہے۔ نظریں اٹھا کے دیکھا تو ایک خوب صورت باریش جوان سامنے
کھڑاتھا۔ میں کہا گستاخی معاف ۔ کیا آپ کو ’’امیرالمومنین‘‘ عمران خان نے
میری داد رسی کے لیے بھیجا ہے۔ سامنے سے جواب ملا کہ مجھے کسی امیر شمیر نے
نہیں بھیجا ۔میں ضمیر ہوں۔ سوچا تھا ، تم کچھ سدھر گئے ہوگے اسی لیے واپس
آیا۔ میں کہا ضمیر صاحب میں نے آپ کو پہچانا نہیں؟ سینے پر زرو سے مکا
مارتے ہوئے اس نے کہا میں تمہارا ضمیر ہوں سمجھے؟۔ میرا ضمیر۔ میں نے خود
کو ٹٹولتے ہوکہا کہ بھئی ضمیر تو انسان کے اندر کے کسی چیز کا نام ہے۔ پھر
تم کہاں سے ٹپک پڑے ۔اس نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہولیکن جو انسان ہماری نہیں
سنتا اور ہمیں سلانے کی کوشش کرتا ہے ، ہم اس سے نکل جاتے ہے۔میں بھی
تمہارا ساتھ چھوڑ کے جاچکا تھا، دوبارہ اس امید پہ آیا تھا کہ شائد تمہارے
اندر کچھ سدھار آچکا ہو گالیکن یہاں آکے معلوم ہو کہ تم تو پاگل ہوچکے ہو۔
میں نے کہا کہ آپ کا کہنا درست نہیں میں ذہنی طور پر مکمل فٹ ہو ں اور
’’ریاست مدینہ‘‘ کا ایک ذمہ دار شہری ہوں، لہٰذا تم پھر سے میرے اندر سما
جاؤ تاکہ روشن ضمیر کے ساتھ اس ’’فلاحی‘‘ ریاست میں رہنے کا لطف اٹھا سکوں۔
اس نے کہا کہ کس فلاحی ریاست کی بات کررہے ہو۔جس ریاست کے اہم محکموں کے
سربراہان عالمی استعماری قوتوں کے منظور نظر ہو، اسے تم اسلامی فلاحی ریاست
کہتے ہو؟۔ میں نے کہا! ابھی آغاز ہے۔ا ٓہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس
نے کہاجہاں حکمرانوں اور عوام کے معیارِ زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہو،
اسے اسلامک سٹیٹ ماننا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ مثلاً ! میں نے کہا۔ اس
کہا کہ پچھلے دنوں اپنی بڑی بیٹی کو اسپتال کیوں لے کر گئے تھے اور ڈاکٹر
نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا ظاہر ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس
لیے۔ڈاکٹر نے ٹیسٹ وغیرہ کراکے کہا تھا کہ بچی کو خون کی شدید کمی ہے۔ ایک
ہفتہ دوا استعمال کرکے پھر دکھا دینا ، فرق نا پڑا تو خون چڑھانا پڑے گا۔
اس نے کہا کیا دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں اب الحمداﷲ
بیٹی ٹھیک ہے اس لیے ضرورت نہیں پڑی۔ اس نے کہا۔ جھوٹ بولنا کوئی تم سے
سیکھے۔جب جیب میں تمہارا ایک دھیلہ بھی نہیں تو بیٹی کو کیا خاک اسپتال لے
کر جاؤگے،اور ہاں مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ڈاکٹر نے بیٹی کو اچھی خوراک
کھلانے کا کہا تھا۔ لیکن گھر آکراچھی خوراک کا انتظام توتم نے نا کیا لیکن
گندم کی روٹی اور اس کی افادیت پر اتنی روشنی ضرور ڈالی ،کہ پھر میں نے
تمہارے ساتھ رہنا مناسب نا سمجھا اور تمہیں چھوڑ کر چلاآیا۔چھوڑ اچھا یہ
بتا کہ تمہارے ذمے بچوں کے کتنے مہینوں کی فیس باقی ہے مدرسے کی ؟میں نے
کہا ضمیر صاحب ۔ آپ اب خالص میری نجی زندگی میں مداخلت پر اتر آئے ہو ، جو
کہ مجھے کسی طور بھی قبول نہیں۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر
حکمرانوں میں سے کسی کا بچہ بیمار ہوجائے تو وہ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا
ظاہر ہے یورپ لے کر جائیں گے علاج کرانے۔ حضرت ِ ضمیر نے کہا ، کہ کیا اس
ملک میں اسپتال نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ باالکل ہیں لیکن بات یہ ہے کہ ،
اہل یورپ چونکہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ یوں
بیماریاں ان سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر ہمارے حکمران اور بیوروکریٹ
وغیرہ وہاں سے علاج نا کرائے تو کیا ان کے اسپتالوں میں چوہے سپورٹس
فیسٹیول کا انعقاد کریں گے؟ ضمیر نے مجھے گھورتے ہوئے کہا تم سمجھوگے نہیں،
جبھی تو اس عمر میں بال شال ایسے سفید کرا بیٹھے ہو کہ ستر سال کے لگنے لگے
ہو۔ جبکہ تمہارا امیرالمومنین ستر کے قریب پہنچ کر بھی پیتیس سال کا خوبرو
نوجوان لگ رہا ہے۔ پھر یہ کہ تمہاری بیگم بیچاری اتنی کم عمری میں بی اماں
جیسی دیکھائی دے اور خاتون اول بوڑھی ہوکر بھی آسمان کا چمکتا ستارہ۔ تو
سمجھو کہ دال میں کچھ کالا نہیں ، بہت کچھ کالا ہے۔ میں نے کہا کیا مطلب؟
اس نے سرگوشی میں کہا کہ ۔ جو سہولیا ت انہیں میسر ہے، تم ان کے بارے میں
سوچ بھی نہیں سکتے۔ تمہارا سال بھر کا خرچہ ان کے ایک دن کے لیے بھی ناکافی
ہے۔ میں کہا ضمیرمیاں تم بھی عجیب بات کرتے ہو، وہ حکمران ہیں اور ہم رعایا۔
ہم میں اور ان میں فرق تو ہوگانا! اور دوسری بات یہ کہ ہم خلافت راشدہ میں
تو نہیں جی رہے، یہ عہد نبوتﷺ کے قریباً ساڑھے چودہ سو سال بعد کا زمانہ ہے۔
لہٰذا آجکل کے کے زمانے میں ’’ایک ہی صف میں کھڑے رہے محمود و آیاز‘‘ یہ
ممکن نہیں۔ ضمیرنے کہا کہ اگر ممکن نہیں تو پھر چوبیس پچیس سال قبل ملا عمرؒ
اور ان کے ساتھیوں نے کیسے طبقاتی نظام کو ختم کردیا تھااورہاں تمہیں معلوم
ہو یا نا ہو، سچ یہ بھی ہے کہ اس وقت حکمرانوں کے ذاتی خرچے عوام سے کم تھے۔
بھائی ضمیر ! آپ ’’ آتنک وادیوں‘‘ کی مثال تو نا دیا کروں ، آخر کو ہم ایک
جمہوری معاشرہ ہے ہمارے اپنے اقدار ہے۔۔۔۔۔ میری بات کاٹتے ہوئے ضمیر نے
کہا کہ میں ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتا ہوں اور ایسی ریاست مدینہ کو جوتے
کے نوک پر رکھتا ہوں ، جہاں دو وقت کی روٹی کے لیے بیٹیاں عزتیں بیچنے پر
مجبور ہو، جہاں گردے برائے فروخت ہو، جہاں بھوک و افلاس کی وجہ سے خوکشیاں
عام ہو ۔جہاں عافیہ صدیقی کو آزادی دلانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہو،
جہاں 444 جیتے جاگتے انسانوں کو ’’پھڑکانے ‘‘والا راؤ انوارسے کو پوچھنے
والا نہ ہو،اور ہاں جسے تم امیرالمومنین سمجھتے ہو، اسے خود ملکی حالات کا
ادراک تک نا ہوپھر یہ کہ ساہیوال کے معصوم بچے انصاف کے منتظر ہوپر انصاف
ملنے کا دور دور تک امکان نہ ہو ۔میں نے کہا ضمیر صاحب آپ جذباتی ہورہے ہو
ذرا تحمل۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر میری بات کاٹتے ہوئے ضمیر نے کہا بس چپ رہو
تم سے مغز ماری بے کا ر ہے۔ یہ کہتے ہوئے ضمیر نے چادر اٹھائی اور لمبی تان
کر سوگیا۔
تو صاحبو!میرا ضمیر تو سوگیا۔ کیوں نا وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی
فواد چوہدری کی مدح سرائی میں ایک اور کالم لکھنے کی کوشش کی جائے۔ کیا
خیال ہے؟؟؟ |