عمر خیّام ایران اور امریکہ

عمر خیام (1048-1131 )کا پورا نام غیاث الدّین ابو الفتح عمر ابن (ابراہیم نیشا پوری) خیّام تھا. خیّامی نے فلسفہ کا مطالعہ نیشاپور میں کیا. وہ ایک ایسے وقت میں رہتے تھے جب علمی طور پرقابل افراد کے لئے زندگی آسان نہیں تھی ، جب تک کہ انہیں بادشاہوں میں سےکسی ایک حکمران کی حمایت نہ ہوتی تھی. تاہم عمرخیام ایک ریاضی داں ۔اورعلمِ فلکیات اور علم نجوم کے ماہر تھے اور ان کی 25 سال کی عمر سے پہلے کئی تصانیف تھیں بشمول ریاضی کے مسائل، موسیقی پر ایک کتاب، اور ایک کتاب الجبرا پر۔ عمر خیام نے الجبرا اورجیومیٹری پر بڑا کام کیا ۔عمر خیام اپنے بچپن میں حسن بن سبا اور نظام الملک طوسی کے ہم جماعت تھے اس زمانے میں ان تینوں دوستوں نے طے کر لیا کہ بڑے ہوکر جوبہتر صورت حال میں ہوگا وہ دوسرے دوکی مدد کرےگا۔ جب عمر خیام کو علم ہوا کہ نظام الملک طوسی کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں تو عمر خیام ان سے ملنے گئے۔ وہاں بڑی عزت اور پذیرائی سےان کا استقبال کیا گیا۔ اورا یک خطیررقم پر ملازمت عطا کردی گئی۔ عمر خیّام نے اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے علمی کام کو آگے بڑھایا ۔اور اصفہان میں ایک رسدگاہ (Observatory (قائم کی تقریبا اٹھارہ سال انکی نگرانی میں جہاں دوسرے پائے کے عالم فلکیات انکے ماتحت تھے اور انہوں نے ان مشاہدات پر بھی سیرحاصل مقالے لکھے۔ ایک مرتبہ نظام الملک طوسی کس کام سے کسی ریگستان کی طرف جارہے تھے ان کو خیال آیا کہ عمر خیام سے موسم کا حال معلوم کیا جائے لہذا حکم حاکم مرگ مفاجات ۔ اور عمر خیّام نےعلم جفر سے حساب لگا کر بتایا کہ وہاں برف پڑے گی۔ سب لوگ اس بات پربہت ہنسے، کہ بھلا مئی جون اور ریگستان میں برف یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ عمر خیاّم نے کہا کہ میرا حساب تو یہی بتاتا ہے بابہرحال جب لوگ وہاں پہنچے تو واقعی برف گر رہی تھی وجہ یہ تھی کہ کسی زلزلے کی وجہ سے کسی پہاڑ سے بہت بڑا پتھر کہیں سےآگرا تھا ریت اڑنےکی وجہ سے کوئی تین ماہ سے سورج کی روشنی زمین پر نہیں پہنچ پائی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں عمر خیام کچھ شاعری کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ اپنی تسکین کے لئے عشق ،شراب اور شباب پر رباعیات لکھا کرتے تھے۔ جن کو وہ شرم اورندا مت کی وجہ سے چھپا کر رکھتے تھے۔ عمر خیام زندگی بھر شراب اور شباب سے دور رہے اور شادی بھی نہیں کی تھی ان کے انتقال کے بعد دنیا کو پتہ چلا تو اٹھارہ سو انسٹھ میں ان ۶۰۰رباعیات کا ترجمہ کیا گیا جو اس قدر مقبول ہوا اوربہت سی زبانوں میں کیا گیا۔لوگ ان رباعیات کے بعد عمر خیّام کی سائنسی اور علمی خدمات کو بھول گئے عمر خیام تین بادشاہوں کے اتالیق رہ چکےتھے اور ستر برس کی عمر میں نظام الملک طوسی نے ان سے کہا کہ تمہارے بعد بادشاہوں کی رہنمائی کون کرے گا ۔تو انہوں نے آنے والے بادشاہوں کے لیے ایک کتاب۔ سیاست نامہ۔ لکھ دی۔یہ کتاب علم سیاسیات پرحرف آخر ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب نظام الملک طوسی نے لکھی تھی۔ کسی نے پوچھا کہ تمہاری آخرت کیسی ہوگی؟ انہوں نے کہا اللہ کے ہاں کیا ہو گا میں نا امید نہیں ہوں۔ مگر دنیا میں جہاں کہیں بھی میری قبر ہو گی ۔ چھ ماہ شفتالو(آڑو) کے پھولوں سے ڈھک جائے گی اور چھ ماہ انار کے پھولوں سے ڈھکی ہو گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔

آجکل امریکہ ایران پر حملے کا بڑا بھرم دے رہا ہے۔ اس بیچارے کو کیا معلوم کہ انکے پرکھے کون تھے؟ عمر خیام کل بھی ان سے پانچ سو برس آ گے تھے اور آج بھی ان کے برابر کا کوئی سائنسداں نہیں ہے۔ پھر ایرانی عمر خیّام پر اکتفا کر کے بیٹھے نہیں انکے علم میں وقت کیساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ایرانی ہماری طرح نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی زبان اپنا علم اور اپنا کلچر سنبھال کر رکھا ہے۔ ایران میں ایک سپاہِ دانش ہے جو دنیاء مین چھپنے والی ہر کتاب کاترجمہ کرتی ہے، ایرانی طالب علم سب کچھ اپنی زبان میں پڑھتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایرانی سیاست اور جہاںبانی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ہماری طرح نہیں کہ چپڑاسی تو میٹرک ہونا چاہیئے۔ سیاستدان کو تعلیم کی ضرورت نہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار( آنکھ والو عبرت پکڑو)

 

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 79 Articles with 88805 views Since 1964 in the Electronics communication Engineering, all bands including Satellite.
Writing since school completed my Masters in 2005 from Karach
.. View More