پاکستان میں کل اسی ہزار کے قریب خاص و عام ادویات
رجسٹرڈ ہیں جو پراڈکٹس اور را مٹیریل کی صورت میں برآمد کی جاتی ہیں ۔پاکستان
میں گنی چنی کمپنیاں ہیں جو چند ایک ادویات کا را مٹیریل خود تیار کرتی ہیں
جن میں فارماجنCephalosporin, اور پینیسلین کا جبکہ رفان سٹارچ پیدا کرتی
ہے ۔ اس کے علاوہ تمام ادویات اور را مٹیریل چین، انڈیا، نائجیریا اور
جرمنی وامریکہ وغیرہ سے درآمد کیا جاتا ہے ۔پاکستان ایک سال پہلے تک اینٹی
ریبیز ویکسین اور ہیپاٹائٹس ویکسینز ہمارے روایتی حریف بھارت سے انتہائی
بھاری قیمتوں پر درآمد کرتا رہا ہے۔ حالانکہ ریبیز ویکسین پاکستان میں بھی
تیار ہوتی رہیں ہیں لیکن ان کی کوالٹی کو ناقص قرار دے کر کاروبار بھارت کے
ساتھ جاری رہا ہے۔زیر بحث دونوں اقسام کی ادویات اب پاکستان درآمد نہیں کی
جارہیں لیکن ریبیز ویکسین جس قیمت پر پاکستان میں دستیاب ہے اسے خریدنا خاص
و عام کی دسترس سے باہر ہے ، اس کے علاوہ گورنمنٹ سیکٹرز میں اس ویکسین کا
سٹاک نا ہونے کے برابر ہے۔پاکستان میں اس وقت چھ صد پچاس کے قریب ادویہ ساز
کمپنیاں موجود ہیں جن میں سے صرف تیس ملٹی نیشنل اور باقی لوکل ہیں ۔حالانکہ
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے مقرر کئے گئے ایس او پیز بہت
اچھے اور عوام دوست ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ان کمپنیوں کی
ایسوسی ایشنز کی مناپلی کے سامنے وزارت صحت اور DRAP دونوں ہی بے بس نظر
آتے ہیں ۔حال ہی میں ادویات کی قیمتوں میں چودہ سے پچیس فیصد تک کے اضافے
کی منظوری لے کر 140 سے 240 فیصد تک کا اضافہ کر دیا گیا ۔اس بات کا علم
نہیں ہوتا اگر ان کمپنیوں کی ایسوسی ایشنز کے درمیان اختلاف نہیں
ہوتا۔میڈیا پر شور و غوغا ہونے پر وزیر اعظم کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے
فوری نوٹس لیتے ہوئے ان ادویات کی قیمتوں کو واپس لینے اور ان کو ریگولیٹ
کرنے کے احکامات جاری کئے ۔ لیکن مجال ہے کہ شراب کو شہد ثابت کرنے والی
قوم ٹس سے مس ہوئی ہو۔ دنیا میں بہت مافیا دیکھے ہیں لیکن اس جیسا مافیا
دنیا میں نہیں ملے گا جو انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنا اپنا شوق رکھتے ہوں۔
ہم بھولے نہیں کہ وفاق اور لاہور میں بڑے بڑے ڈسٹری بیوٹرز نے زائد المعیاد
ادویات کی تاریخوں کو بدل کر مارکیٹ میں بیچا اور کتنے ہی معصوموں کو مارا،
کراچی میں غلط ٹیکہ لگاکر ایک بیٹی کو مار دیا اور پھر لاوارث چھوڑ دینے
والے بھی ہم نہیں بھولے اور جعلی ڈگری والے ڈاکٹر کی جانب سے ایڈ ز پھیلانے
والے بھی ہمارے دماغوں پر ابھی تک نقش ہیں ۔ادویات کی قیمتیں کم کرنے اور
بے دریغ اضافے کو لگام ڈالنے والے وزیر اعظم کے حکم کا مذاق کرتے ہوئے ہر
بیچ کے ساتھ اب بھی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہاہے۔کوئی کرائیٹیریا
ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، گزشتہ روز ایک
خبر کے مطابق 73 ادویات کی قیمتیں واپس لینے کی بات کی گئی ہے۔ایک ہی
پراڈکٹ مختلف نام کی برانڈز سے فروخت ہوتی ہیں اور مختلف قیمتیں رکھتی ہیں۔
جیسا کہ بیکٹریل انفیکشن کو انسانوں میں ختم کرنے کیلئے استعمال ہونے والی
ٹیکے کی صورت میں پراڈکٹ Ceftriaxone قریب ہر کمپنی فروخت کر رہی ہے اور ہر
کمپنی نے اپنی مرضی سے قیمت سجا رکھی ہے۔ جیسے سامی کمپنی کے سیفٹرائیگزون
ایک گرام ٹیکہ جو آکسی ڈل کے نام سے ہے کی قیمت 270 روپے ہے وہیں Pulse
فارما کی پراڈکٹ 250 روپے، Rosch فارما کی پراڈکٹ 410 روپے، گلوبل فارما کی
پراڈکٹ 300 روپے جبکہ برووکس فارما کی پراڈکٹ 230 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔
اسی طرح ہر پراڈکٹ کا برانڈ ریٹ مختلف ہے ۔یہاں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور
وزارتِ صحت کیلئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قیمتوں میں اتنا تضاد کیوں
ہے؟کیا ان ادویات کے معیار میں تضاد ہے؟اگر ہے تو یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ
جن ادویات کو لوگوں کی جان بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ان کے معیار
میں مبالغہ آرائی ہو؟ملٹی نیشنل سمیت تمام ادویہ ساز کمپنیوں نے ایک منڈی
لگا رکھی ہے ، اس منڈی میں ادویات بھیڑ بکریوں کی مثل ہیں جس بھیڑ ،بکری کو
جہاں داؤلگے اس قیمت پر بیچ دو۔ اور اس منڈی میں ان کمپنیوں نے میڈیکل ریپ
کی صورت میں دلال چھوڑے رکھے ہیں جو ڈاکٹرز کو متوجہ کرتے ہیں۔ یہ دلال اور
ڈاکٹر مل کر جتنا زیادہ منافع دیں اسی تناسب سے کمپنیاں انہیں مراعات سے
نوازتی ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانے، میٹنگز پر کروڑوں کے بجٹ اور میڈیکل
ریپ سمیت ڈاکٹروں کے تفریحی وزٹس ۔ان تمام کے اخراجات عوام الناس برداشت
کرتی ہے ۔ اس سب کو قابو کرنے کیلئے مشرف دور میں ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی
کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو بنیادی طور پر امریکی ادارے ایف ڈی اے (فوڈ
اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن )کی طرز پر بنایا گیا۔ جس کا کام ادویات اور میڈیکل
انسٹرو منٹس کی خریدو فروخت اور ان کے صحیح استعمال کو یقینی بنانا ہے،ڈرگ
ایکٹ 1976 کو لاگو کر نا، صوبوں کے مابین تجارت کی مانیٹرنگ بھی ڈراپ کا
کام تھا ۔ لیکن مشرف دور کے بعد یہ ادارہ سیاست کی نذر ہو چکا ہے اور اس کی
کارکردگی صفر ہے۔اب ڈراپ کے افسران کاغذی کاروائیوں پر اکتفا کرتے ہیں ،
فراڈ اور دو نمبریاں ادویہ ساز کمپنیاں کرتی ہیں اور یہ میڈیکل سٹورز اور
فارمیسیز کے مالکان کو ذلیل و خوار کرتے ہیں ۔اس صورتحال پر قابو پانے
کیلئے وزارت صحت کو نئی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں ، امریکہ میں سات سے
آٹھ ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں ، پاکستان نے اسی ہزار ادویات کو کرنا کیا ہے؟
پڑوسی ملک بھارت میں بھی لگ بھگ پینسٹھ ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں لیکن وہاں
ایک قانون ہے کہ کوئی بھی کمپنی صرف ایک محدود مدت کیلئے را مٹیریل خرید
سکتی ہے اس کے بعد اسے اپنا را مٹیریل تیار کرنا پڑتا ہے، بصورت دیگر
لاکھوں روپے کا جرمانہ اور سزا دی جاتی ہے۔ ساڑھے چھ سو کمپنیاں پاکستان
میں لوگوں کو لوٹ رہی ہیں وزرات صحت کو چاہیے کہ وہ ان کمپنیوں کو قومیائے
اور ان پر اپنے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرے ۔ لوکل سطح پر ادویہ سازی کی جائے ،اور
برانڈز کی جگہ جنیرک میڈیسن کو فروغ دیا جائے جیسے چین میں کیا جاتا ہے اور
اب بھارت بھی اس پر عمل درآمد کروا رہا ہے۔کمپنیوں کی اس مناپلی کو توڑا
جائے تاکہ نام نہاد مسیحاؤں کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے آئے۔ پاکستانی
عوام کو ادویات کے بارے میں ریلیف دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونی
چاہئے۔ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی، ہیلتھ کئیر کمیشن اور فوڈ اتھارٹی کو ایک
ادارہ بنا دینا چاہئے، دیکھا جائے تو تینوں ادارے حکومتی خزانے پر بوجھ کے
سوا کچھ نہیں ۔ٖغریب کو جینے کا حق ہے اور اسے جینے دو!
|