ایک ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی کی زبردست کا میابی پر
سارا ملک زعفران زار ہوگیا اور رام چندر گہا جیسے سرخی مائل صحافی کو لکھنا
پڑا کہ’ہندوستان اب زیادہ ہندو راشٹر ہوتا جا رہا ہے( کیونکہ )۲۰۱۴ کے
برعکس اس بار بی جےپی نے واضح طور پر ہندوؤں کی پارٹی کے طور پر کام کیا‘
عدالت عالیہ کے ایک بے لاگ فیصلے نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۱۸
کو میگھالیہ ہائی کورٹ کی سنگل بنچ میں جسٹس سدیپ رنجن سین نے ایک عجیب و
غریب کے فیصلہ دے کر پورے ملک کو چونکا دیا تھا ۔ انہوں نے اپنے ایک فیصلہ
میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیرقانون اورا رکان پارلیمان سے بن مانگے ایک
ایسا قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کردیا کہ جو ان کے دائرۂ کار سے باہر کی
چیز تھی۔ سدیپ رنجن سین صاحب کو یہ توقع رہی ہوگی کہ ان کے فیصلے سے خوش
ہوکر بی جے پی والے کسی حلقۂ انتخاب سے الیکشن کا ٹکٹ دے دیں گے اور باقی
دن سرکاری خزانے پر عیش کرتے ہوئے گزار دیں گے لیکن ’دل کے ارماں آنسووں
میں بہہ گئے‘۔ شاہ جی ان کے جھانسے میں نہیں آئے اور اسی عدالت کی دو رکنی
بنچ نے ان کے فیصلے کو ردیّ کی ٹوکری کے حوالے کردیا ۔
جسٹس سدیپ رنجن کی عدالت میں شہریت بل سے متعلق رہائشی تصدیق نامہ سے جڑے
ایک معاملہ زیر سماعت تھا جس کا ہندو راشٹر سے کوئی تعلق نہیں تھا اس کے
باوجود انہوں نے یہ فرمان جاری کردیا کہ ہندوستان کو تقسیم کے وقت ہی ہندو
راشٹربنا دیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی منطق یہ بیان کی گئی چونکہ ’ہندوستان
کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی اور پاکستان نے خود کو اسلامی ملک قراردے
دیا ، اس لیے بھارت کو ہندو راشٹر ہوجانا چاہیے تھا مگر وہ ایک سیکولر ملک
بنارہا‘۔ نفسِ مسئلہ پر ان کا فیصلہ یہ تھا کہ ’ پاکستان، بنگلہ دیش اور
افغانستان سے ہندوستان میں رہائش کے لیے آنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کو
شہریت دی جانی چاہیے ‘۔ اس طرح کے فیصلے پر تنازعہ کھڑا ہونا توقع کے عین
مطابق تھا۔ اس کے بعد جسٹس سین کے اپنے فیصلے پر یہ صفائی دی کہ وہ شدت
پسند نہیں ہیں اور تمام مذاہب کی عزت کرتے ہیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا
تھا ۔
جسٹس سین کے حکمنامہ کو چیلنج کرنےکے لیے سپریم کورٹ میں بھی ایک اپیل دائر
کی گئی اور وہ پی آئی ایل ہنوز زیر التوا ہے۔ اس میگھالیہ ہائی کورٹ کے چیف
جسٹس محمد یعقوب میر اور جسٹس ایچ ایس تھنگ کیو کی دو رکنی بنچ کے سامنے یہ
معاملہ پیش ہوا ۔ اس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر
التوا عرضی ڈویژن بنچ کے سامنے ً آئے تو ایسے معاملے کا فیصلہ سنانے میں
کوئی قانونی روکاوٹ نہیں ہے۔اب بنچ نے جسٹس سین کے فیصلے کی ہدایت کو
بےمعنیٰ قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا ۔ بار اینڈ بنچ نامی موقر جریدے کے
مطابق ،عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے، ’سنجیدگی سے غور و فکر کے بعد ہم اس
نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مذکورہ فیصلہ قانونی طور پر غلط ہے اور آئینی اصولوں
سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس میں دی گئی رائے اور ہدایت دونوں مکمل طور پر
بےمعنی ہیں۔ اس لئے ان کو پوری طرح مسترد کیا جاتا ہے۔ ‘دیگر ممالک سے آنے
والے لوگوں کو شہریت دیئے جانے کے متعلق چیف کی بنچ نے کہا کہ ،’یہ تو سرے
سے مدعا ہی نہیں تھا‘ اس فیصلے میں ملک کے سیکولر کرداراور آئین کے اہتمام
کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں لکھی ہوئی تھیں۔ ایک ہی عدالت کے دو فیصلوں میں
اس قدر بڑا تضاد کم ہی ہوا ہوگا۔
جسٹس یعقوب میر کے اس دلیرانہ دوٹوک فیصلے سے عدالت عظمیٰ کا کام آسان
ہوگیا لیکن زعفرانی دہشت گروں پر اس کا کوئی اثر نہیں نظر آتا اور یکے بعد
دیگرے گروگرام اور سیونی سے ایسی وارداتوں کی اطلاعات مل رہی ہیں جس سے
معلوم ہوتا ہے ہندوستان کاغذ پر جو بھی ہو حقیقت میں ہندو راشٹر بن گیا ہے۔
راجدھانی دہلی سے قریب گروگرام میں محمد عالم نام کے نوجوان کو۴ نامعلوم
لوگوں نے دھمکی دے کر کہا کہ اس علاقہ میں اس طرح کی ٹوپی پہننے کی اجازت
نہیں ہے۔ ان بدمعاشوں نے عالم کی ٹوپی ہٹا دی ، تھپڑ مارےاور بھارت ماتا کی
جے و جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا ۔یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا
جب ملک کا باہوبلی وزیراعظم اپنے ارکان پارلیمان سے کہہ رہا ہے کہ’’اس ملک
میں جس طرح غریبوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اسی طرح اقلیتوں سے بھی دھوکہ
ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اقلیتوں کو غافل اور خوف زدہ رکھا گیا ہے۔ اس سے بہتر
ہوتا کہ اقلیتوں کی تعلیم اور صحت کی فکر کی جاتی‘‘ مودی جی نے ۲۰۱۹ میں
نومنتخب ارکان پارلیمان سے تلقین کی کہ’’ اس چھل کو بھی چھیدنا ہے۔ ہمیں
اعتماد جیتنا ہے‘‘۔
اس خطاب کا اثر مشرقی دہلی سیٹ سے منتخب ہونے والے گوتم گمبھیر پر یہ ہوا
کہ انہوں نے گروگرام کی واردات پر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہوئے پولس سے سخت
اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ
’’گروگرام میں مسلم نوجوان کو روایتی ٹوپی ہٹانے اور جے شری رام کا نعرہ
لگانے کے لئے کہا گیا۔ یہ بہت گھٹیا ہے۔گروگرام اتھارٹی کو اس واقعہ کے
خلاف سخت قدم اٹھانا چاہئے۔ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ
جن ہندوتواوادی دہشت گردوں پر وزیراعظم مودی کے بیان کا اثر نہیں ہوتا وہ
بھلا گوتم گمبھیر کا کیا متاثر ہوں گے۔ عوام کاا عتماد حاصل کرنے کے لیے
الفاظ کافی نہیں ہوتے بلکہ ٹھوس کارروائی درکار ہوتی ہے۔گوتم گمبھیر اگر ان
مجرمین کو سزا دلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ اعتماد اپنے آپ جیت جائیں گے
ورنہ ان کو بھی مودی اور شاہ جی کی مانند جملہ باز سیاستدانوں میں ہونے لگے
گا ۔
ایک نہایت افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ گوتم گمبھیر کے ضمیر کی آواز کو دبانے
کے سنگھ کے میڈیا دہشت گرد ان کے پیچھے پڑ گئے۔ پارٹی کے کچھ سینیر رہنماوں
نے ان کے ٹویٹ میں کوئی ناقابل اعتراض شئے نہیں ہونے کی بات کہہ کر نظر
انداز کرنے کی تلقین کی لیکن بعض نے انہیں گول مول جواب دینے کی صلاح بھی
دی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے سنگھ پریوار کس قدر خوداپنوں کے دباو میں
کام کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عدم رواداری کی آگ جب سماج
میں پھیلتی ہے تو وہ جلد یا بدیر پورے گلشن کو خاکستر کرکے رہتی ہے۔ کسی
جنگل میں اگر بھیڑیوں کا بول بالا ہوجائے اس سے سبز و گیروے سارے مویشی عدم
تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ گوتم گمبھیر کا معاملہ اس جانب اشارہ کرتا ہے۔
|