ماہ صیام کا اختتام ہوچکا ہے ، مسلمان اپنے خالق و مالک
کو راضی کرنے اور اپنے گناہوں سے چھٹکارہ پانے کیلئے گریہ وزاری میں مصروف
عمل رہے تو کوئی محبوب رب العالمین آقائے دوعالم صلی اﷲ علیہ و سلم کی چاہت
کا اظہار کرنے کے لئے شریعت مطہرہ پر عمل کرتے ہوئے ذکر الٰہی بجا لارہے
تھے اوردرود و سلام کا نذرانہ پیش کررہے تھے تو کوئی سنت نبوی ﷺ کو اپنائے
ہوئے اﷲ کے حضور اپنے اعمال صالح پیش کرنے کی سعی کررہے تھے ۔ ان ہی کروڑوں
مسلمانوں میں ایک ایسا بھی شخص ان دنوں محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی
صلی اﷲ علیہ و سلم کی محبت کا ثبوت دیتا ہے جسے سن کر عالمی سطح پر مسلمان
اس محبوب مسلم حکمراں کو سچے دل سے چاہنے لگتے ہیں۔ یہ وہ شخص ہیں جو
شائقین کرکٹ کو ایک زمانے میں اپنا گرویدہ بنایا تھا لیکن آج ایک سیاسی
قائد ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کا رہنما بن کر عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام اور
مسلم حکمرانوں کو محبوب خدا ﷺ سے محبت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے
۔ یہ وہ شخص ہے جسے دنیا ’’عمران خان‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور عمران خان
وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے صرف پاکستانیوں کے دلوں میں ہی حکومت نہیں
کررہے ہیں بلکہ وہ آج اقوام عالم کے مسلمانوں کے ایک سچے قائد کی حیثیت سے
چاہنے والوں میں شامل ہوچکے ہیں ۔عمران خان نے اسلامی سربراہی کانفرنس جو
31؍ مئی کو حجاز مقدس کے شہر مکہ مکرمہ میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ
سلمان بن عبدالعزیز کی میزبانی میں منعقد ہوئی ۔ جس میں اسلامی ممالک کے
سربراہان نے شرکت کی اس اجلاس میں مشرقِ وسطی کے کشیدہ حالات پر تشویش کا
اظہار کیا گیا۔ عالم عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے حکمراں خطے میں دہشت
گردی میں اضافہ اور ایران کی جانب سے دہشت گردوں اور یمن حوثی باغیوں کو
تعاون فراہم کرنے کاالزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ
ڈالنے پر زور دیا۔ لیکن اسی اسلامی سربراہی کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان
عمران خان نے مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ اپنے حبیب ﷺ
سے کیسی اور کتنی محبت کریں اور دشمنانِ اسلام جس طرح محبوب رب العالمین ﷺ
کے خلاف عالمی سطح پر سازشیں کررہے ہیں اس کا کس طرح جواب دینا چاہیے۔ وزیر
اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ دو مقدس
مساجد کے متولی، خواتین و حضرات، معزز سربراہانِ مملکت اور محترم سیکریٹری
جنرل۔ میں نے ہمیشہ اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ جب مجھے کبھی اس سمٹ میں
بولنے کا موقع ملے گا تو میں ایک اہم سوال کو اٹھاؤں گا وہ یہ ہے کہ جب بھی
مغربی ممالک میں لوگ ہمارے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہیں تو
اس توہین کا جو جواب دینا چاہیے تھا اس میں کمی رہی اور آرگنائزیشن آف
اسلامی کانفرنس(او آئی سی) اس کا مؤثر جواب دینے میں ناکام رہی ہے اسی لئے
میں اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ او آئی سی
اس کی ذمہ دار ہے اور بطور ریاستوں کے حکمران ہماری ذمہ داری ہے کہ جب بھی
کوئی مغربی دنیا کے اندر نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے یہ او آئی
سی کی ناکامی ہے کہ ہم اس مغربی دنیا کو یہ باور نہیں کراسکے کہ ان کی اس
توہین سے ہم مسلمانوں کو کتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ ہم اپنے نبی کریم ﷺ سے
کتنی محبت کرتے ہیں اور وہ کس طرح ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ
داری تھی کہ ہم مغربی دنیا کو بتاتے کہ ان کا یہ عمل ہمیں کتنی تکلیف دیتا
ہے اور یہ بات بھی اہم ہے کہ مغرب کے لوگ مذہب کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس
نظر سے ہم دیکھتے ہیں ہم اسلام کی خاطر جیتے ہیں جبکہ مغربی دنیا میں ایسا
کوئی تصور نہیں۔ ‘‘ اس طرح عمران خان نے آگے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے
کہاکہ جناب چیئرمین میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یوروپی یونین اور
یونائیٹڈ نیشن کو یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آزادِ اظہار رائے کی چھتری
کے نیچے ایک اعشاریہ تین بلین لوگوں کے جذبات کو مجروح نہیں کرسکتے۔ یہودی
کمیونٹی نے انتہائی چالاکی سے پوری دنیا پر یہ واضح کیا ہوا ہے کہ ہولو
کاسٹ پر کی گئی کوئی بھی بات ان کو کس طرح تکیف دیتی ہے اور اسی طرح مغربی
دنیا ہولو کاسٹ کے معاملے کو بڑے جذبات کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن جب قرآن
اور حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی بات آتی ہے تو ان کے وہ جذبات
ماند پڑجاتے ہیں تو یہ فورم اور او آئی سی کا یہ اجلاس ان لوگوں کو ہمارے
جذبات اور ہماری احساسات کے متعلق آگاہ کرے۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے
جس طرح پیارے حبیب پاک ﷺ سے مسلمان محبت کرتے ہیں اس کا اظہار اپنی تقریر
کیا اور آگے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام کی
جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے پر کہاکہ اس معاملے میں مغربی لوگ جہالت
کا شکار رہے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا ہے
جبکہ اسلام کا دہشت گردی اور دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور
کوئی بھی مذہب کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے خلاف دو
سازشیں ہوئی ہیں جن میں پہلی اسلاموفوبیا ہے یعنی اسلام کے بارے میں شدید
نفرت رکھنا جب بھی کہیں دنیا میں کوئی دہشت گردی کا معاملہ ہوتاہے تو مذہب
اسلام کے خلاف ایک جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ حقیقتاً مغربی لوگ ایک تنگ نظر
مسلمان اور ایک حقیقی مسلمان میں فرق نہیں کرپارہے ہیں انہوں نے نیوزی لینڈ
کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اب حالیہ واقعے میں نیوزی لینڈ کے
اندر ایک غیر مسلم شخص مسجد میں داخل ہوکر پچاس معصوم مسلمانوں کا قتلِ عام
کرتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق
نہیں اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بس انہوں نے اپنا ایک فلسقہ
گھڑلیا ہے کہ جہاں بھی کہیں مسلمان دہشت گردی میں شامل ہوگا تو اس سے پورا
اسلام دہشت گرد سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ جرمن نے جنگ عظیم دوم میں
امریکی جہازوں کے سامنے اپنے آپ کو بلاسٹ کیا تو ان کو بھی کسی نے دہشت گرد
نہیں کہا، ہندوستان میں 9/11سے قبل اسی فیصد دھماکے ہندوفرقہ پرستوں کی
جانب سے کئے گئے تو کسی نے ہندوؤں کو اور ہندو مذہب کو دہشت گرد نہیں کہا ،
اور انہوں نے صحیح کیا کیونکہ دہشت گردی کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
ہے۔انہوں نے کہاکہ میرا پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ اسلاموفوبیا ایک بڑا مسئلہ ہے
وجہ صرف یہ ہے کہ ہم بطور مسلم حکمراں ان کو یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ
ہمارے کیا جذبات ہیں اور ہمارے کیااحساسات ہیں اور اسلام کا دہشت گردی کے
ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے یہ ایک سیاسی جنگ ہے اور سیاست کی آڑ میں اسلام کو
بدنام کیا جارہا ہے۔ اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان ہیں
اور اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں ان کو بھی دہشت گرد قرار دیا گیا جیسا کہ
کشمیریوں نے 9/11کے بعد اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو انہیں بھی دہشت گرد
قرار دے کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اسی طرح 9/11کے بعد
فلسطینیوں کو بھی دبادیا گیا اور ان پر ظلم و تشدد کیا گیا تو میرا یہ
پوائنٹ ہے کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہمیں دہشت گردی سے اسلام کے تعلق کو
تڑوانا چاہیے۔ عمران خان نے تیسرا نقطہ یہ بتایا کہ مسلم دنیا سائنس اور
ٹیکنالوجی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہی ہے ہماری ایک آرگنائزیشن بھی ہے
جس کے ذریعہ میں سمجھتا ہوں کہ سائنس اور ٹکنالوجی پر نئی ایجادات کرنی
چاہیں اور نئی تحقیقات ہونی چاہیے اور آرٹیفیشل انٹلی جنس پر جس طرح سے کام
ہورہا ہے اور ہمیں بحیثیت مسلم ممالک سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اپنے
آپ کو مزید مضبوط کرنا چاہیے اور اپنے ذرائع کو اس میں استعمال کرنے کے
ساتھ ہمیں یونیورسٹی میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کو فروغ دینا چاہیے۔ اور
آخر میں انہوں نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ تقریباً پچاس سال
ہوگئے ہیں او آئی سی کے قیام کو اور او آئی سی کے قیام کا مقصد یہ تھاکہ جب
فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کی گئی تو اس کا قیام ہوا لیکن افسوس سے
کہنا پڑرہا ہے کہ ابھی تک فلسطین میں کوئی دو ریاستی حل نہیں نکلا یعنی کہ
ابھی بھی دوریاستوں کی جنگ جاری ہے اور یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت
بننا چاہیے اور اسرائیلی حکومت کو وہاں سے نکلنا چاہیے جیسا کہ 1967ء میں
بارڈز الگ کردیئے گئے تھے اور انہیں ان کی جگہ پر بھیج دیا گیا تھا۔ عمران
خان نے کشمیر کے مسئلہ پر کہاک ہ میں محسوس کرتا ہوں کہ کشمیر میں بھی
کشمیریوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں جیسا کہ 1948ء میں ورلڈ کمیوٹی
نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ان کو حقوق دیں گے وہ وعدہ پورا نہیں کیا
گیا حال ہی میں کشمیری لوگوں نے بڑا ظلم و ستم برداشت کیا ہے اور میں یہ
کہتا ہوں کہ او آئی سی اور یہاں جمع ہم سب رہنماؤں کو پوری دنیا میں
مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے اور جو ظلم و ستم ان پر ہورہا
ہے اس کے خلاف ضرور کھڑے ہونا چاہیے۔ عمران کے اس خطاب کو عالمی سطح پر
سراہا جارہا ہے جنہوں نے ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی سچی تڑپ کا اظہار کیا
اور اقوام عالم کو اسلام کی حقیقی صورتحال بتانے کی طرف توجہ
دلائی۔پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دشمنانِ اسلام کے سامنے جس طرح
اسلام کو پیش کرنے اور حضور اکرم ﷺ سے مسلمانوں کی محبت کا اظہار کرنے
کیلئے عالمی سطح پر بتانے کی بات کہی ہے یہ تمام سربراہان مملکت کے لئے
لمحہ فکراور اہم ہے وہ عمران خان کے خطاب پر توجہ دیں اور عالمی سطح پر
محبوب رب العالمین صلی اﷲ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ کو عملی نمونہ کے ذریعہ
بتانے کی سعی کریں ۔
اﷲ کا شکر ہے کہ عید کی خوشیاں سبوں نے منائی
اﷲ رب الکریم کا شکر عظیم ہے کہ اس سال تمام اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان،
افغانستان وغیرہ میں عید کی خوشیاں سبوں نے منائی اور سب سے اہم بات یہ رہی
ہے کہ فائرنگ، بم دھماکے اور خودکش حملوں نہیں ہوئے جس کے لئے ہم اﷲ رب
العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے خالق کائنات سے امید رکھتے ہیں کہ وہ مستقبل
میں بھی اقوام ِعالم کے مسلمانوں کو امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے اور
دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا شکار نہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا۔آغاز ماہِ
صیام میں دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں کئی مسلمان شہید ہوئے تھے ،مسلمانوں
پر دہشت گرد حملے کرنے والے نام نہاد اسلامی گروپوں کے خلاف کہنے والے
علماء اسلام کو بھی ماہ رمضان المبارک میں افغانستان میں دہشت گردی کا
نشانہ بنایا گیاجس میں ان علماء کرام نے جام شہادت نوش فرمایا ۔
محمد بن سلمان نے بھی دھوکہ کھایا
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے20سال قبل اٹلی کے مشہور
آرٹسٹ لیونارڈ ڈَا وینشی کی ایک مونولیزا کی پینٹنگ نومبر2017ء میں نیویارک
میں 450ملین ڈالرس میں خریدی تھی جو نقلی ثابت ہوئی ۔ کاش محمد بن سلمان
اتنی قیمتی پنٹنگ خریدنے کے بجائے اس رقم کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر
خرچ کرتے تو یہ کتنا بہتر ہوتا۔
سعودی شہزادہ کے روپ میں پہروپیہ
امریکہ میں مقیم ایک 48سالہ شخص انتھونی گگناک جو ہمیشہ قیمتی جواہرات پہن
کر ، نجی جہازوں اور کاروں میں سفرکیا کرتا اور یہ شخص جو اپنا نام خالد بن
سعود بتاکرسعودی شہزادہ ہونے کا دھوکہ دیتے ہوئے اپنی کار پر سفارتی تختی
لگائے رکھتا تھا جس سے لوگ دھوکہ کھاتے تھے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق انتھونی
گگناک گذشتہ دنوں ایک رسٹورنٹ میں کھانے کی ڈش میں خنجیر(بدجانور) کا گوشت
طلب کیا جس پر ہوٹل انتظامیہ کو شک ہواایک مسلمان خنجیر کا گوشت نہیں کھاتا
اور انہوں نے شبہ کی بنیاد پر اسے پکڑایا ۔ جس کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ شخص
سعودی شہزادہ نہیں ہے اور اس نے اب تک لوگوں سے 8ملین ڈالرس ہڑپ لیے ہیں
اور 11مرتبہ اب گرفتار ہوچکا ہے ۔ اس طرح نقلی سعودی شہزادہ کی گرفتاری عمل
آئی ہے۔
***
|