بھارت میں پاکستان والی قبض کے چورن نے بہت نام کمایا
ہے، بی جے پی ایک بار پھر عام انتخابات میں کامیاب ہو چکی ہے جو بھارتی
ووٹرز کے شعور کی عکاسی کرتا ہے۔ اور بھارتی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا
ہے کہ کانگریس کے علاوہ کوئی جماعت یکے بعد دیگرے منتخب ہوئی ہو۔کانگریس کی
صرف 52سیٹوں پر کامیابی نے راہل گاندھی کو بہت مایوس کیا ہے جس کے بعد راہل
پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونا چاہتے ہیں لیکن تاحال پارٹی کے مختلف
عہدیدار انہیں اس سے منع کر رہے ہیں۔ پہلے انتخابات کی طرح ان انتخابات میں
بھی بی جے پی کی کامیابی میں آر ایس ایس نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔آر ایس
ایس کے کارکنوں نے گاؤں گاؤں جا کراور وہاں دو ،دو دن قیام کر کے بی جے پی
کے حق میں ماحول تیار کروایا ۔اس الیکشن میں رام مندر کا معاملہ بالکل نہیں
اٹھایاگیا ۔پورے ملک میں اس بار ستائیس مسلم ممبران پارلیمنٹ کامیاب ہوئے
ہیں ، پچھلے الیکشن میں بھی تئیس مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوئے تھے ، اس بار
اطمینان کی بات یہ ہے کہ یو پی سے چھ ممبران کامیاب ہوئے ہیں جن میں تین بی
ایس پی کے اور تین سماجوادی پارٹی کے ہیں ۔انتخابات میں ہونے والی مبینہ
دھاندلی، اس سے پہلے کی کرپشن کے خلاف بولنے اور اپوزیشن کرنے کی بجائے
راہل گاندھی کا رویہ اور بھارتی عوام کی جانب سے مودی کی ہر ہٹ دھرمی کو پس
پشت ڈال کر دوبارہ وزیر اعظم چننا بھارتی عوام کی ذہنیت اور بیرونی مداخلت
کی عکاسی کرتا ہے۔بھارت میں حالیہ انتخابات مشکوک ہیں اور انتخابات سے پہلے
جو کچھ بی جے پی کو نوازا گیا و ہ سب بھی مشکوک ہے۔حلف برداری کی تقریب میں
تقریباََ آٹھ ہزار مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا ، بنگلہ دیش، سری لنکا ،
قزاقستان ، میانمار ، ماریشس ، نیپال، بھوٹان کے سربراہوں کے علاوہ فلم ،
کھیل اور سیاست کی بہت سی نامور ہستیاں وہاں موجود تھیں۔کیبنٹ کے انتخاب
میں وزیر اعظم نے کئی پرانے چہروں کو پھر سے موقع دیا ہے تو کچھ نئے معاون
بھی شامل کئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت کہاں تک سب کو ساتھ لے کر
چلتی ہے ۔ پچھلی حکومت کا نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کھوکھلا ثابت ہو چکا
۔ اس بار رزلٹ سے لیکر حلف برداری سے پہلے تک بھارت میں ایسے کئی نا
خوشگوار واقعات ہو چکے ہیں جو اجاگر کرنے کیلئے کافی ہیں کہ شر پسندوں اور
فرقہ پرستی پھیلانے والوں اور گوشت کے نام پر پریشان کرنے والوں پر قدغن
لگانے والا کوئی نہیں ہے۔یوگی ادتیہ ناتھ جیسے دہشتگرد اور قبیح شخص کا
الیکشن میں کامیاب ہونا بھی ریاستی اداروں کی کارکردگی اور بی جی پی کی
جانب سے ٹکٹس تقسیم کئے جانے کے میرٹ پر سوال اٹھاتا ہے۔پورے بھارت سے
اقلیت کو نمائندگی نہ ملنے کے برابر ہے اور پینتیس کروڑ عوام کا ووٹ
کانگریس کو اور دیگر اینٹی بی جے پی جانے کی وجہ سے رائیگاں گیا ہے۔اگر ہم
مبہم سا جائزہ لیں تو بھارت میں اس بار نئی پالیسیوں سے اقلیتوں کے حقوق کے
ساتھ بہت کھلواڑ ہونے والا ہے اور فسادات بپا ہونے کے قوی امکانات موجود
ہیں۔ یہ فسادات تو بھارت کیلئے داخلی سطح پر چیلنج ہے لیکن ساتھ ہی وسطی
ایشیاء میں سیاسی ماحول کا بدلاؤ بھارت پر اثر انداز ہونے والا ہے۔امریکہ
چاہتا ہے کہ بھارت ایران سے خام تیل کی خرید بند کر دے جس پر وفاداری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے نئی حکومت نے امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی گئیں
پابندیوں کی وجہ سے آئندہ خام تیل کی خریداری سے انکار کر دیا ہے۔ یہ پہلی
گواہی ہے جو بھارت کا خطے میں آئندہ رویہ دکھائے گی۔نئی حکومت کیلئے بیرونی
چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج امریکی دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے اپنے مفادات
کا حصول ہے ۔کیونکہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں امریکہ ہندوستان کی حمایت کا
خواہاں ہے ۔ امریکہ نے یہ کہتے ہوئے ہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے
پلوامہ حملے کے بعد جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ
کے ذریعہ دہشت قرار دئیے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا، لہٰذا اب وہ
ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔ہندوستان کی نئی حکومت کیلئے پہلا چیلنج
ایران ہے ، امریکہ تنازعے کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اٹھتے ہوئے نئے بحران
سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف ہندوستان کا دورہ کر
کے جا چکے ہیں اور یہ ان کا گزشتہ چار ماہ میں دوسرا دورہ تھا۔ کیونکہ
ایران چاہتا ہے کہ امریکی معاشی پابندیوں کے باوجود بھارت جو چین کے بعد
دوسرا بڑا تیل کا خریدار ہے تیل کی خرید جاری رکھے، کیونکہ ایران نے پینسٹھ
اور اکہتر کی پاکستان مخالف جنگ میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا۔معاملہ صرف
تیل کی خریداری کا نہیں بلکہ بھارت کے اپنے سیاسی و تجارتی مفادات ہیں جس
میں ایران کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔بھارت کا پہلا اولین غیر ملکی سمندری
بندرگاہ چاہ بہار ایران میں ابھی تیار ہی ہوا ہے اور صرف دو ماہ قبل وہاں
سے پہلا ہندوستانی شپمنٹ افغانستان پہنچا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعہ
ہندوستان ایران اور افغانستان سمیت مرکزی ایشیائی ممالک تک براہِ راست
رسائی حاصل کر سکے گا اور امریکہ نے چاہ بہار کو ایران پر عاید پابندیوں سے
مستثنیٰ رکھا ہے ۔اس کے باوجود خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی سے اس کا
متاثر ہوئے بغیر رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ہندوستان کی مشکلوں میں ایک طرف
ایران ہے جس سے اس کے تاریخی روابط ہیں، دوسری طرف امریکہ اور اس کی حلیف
خلیجی ریاستیں اور ساتھ ہی اسرائیل ہے۔ان تمام کے ساتھ ہندوستان کے مفادات
جڑے ہوئے ہیں، سعودی عرب بھارت کیلئے عراق کے بعد دوسرا بڑا تیل کا سربراہ
ہے۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں بھارت کے ستر سے اسی لاکھ لوگ
ملازمت کرتے ہیں، اسی طرح دفاعی سازو سامان اور دفاعی معاہدوں کے حوالے سے
اسرائیل بہت اہم ہوگیا ہے۔ہندوستان کیلئے امریکی مطالبات کو نظر انداز کرنا
آسان نہیں ، امریکہ عالمی بڑی طاقت ہے کس کا دباؤ روس، چین اور یورپ بھی
محسوس کرتے ہیں۔ہندوستان نے آئل ریفائنریز کو یقین دلایا ہے کہ انہیں خام
تیل کی فراہمی یقینی رہے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تیل اسی قیمت پر مل
پائے گا۔ ہندوستان کیلئے خطے میں ایک بڑا چیلنج اب مقبوضہ کشمیر اور ہمسایہ
ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کا بھی ہے۔ پلوامہ حملے پر بی جے پی نے پاکستان
مخالف سیاست پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل
سمیت اسرائیل چاہتے ہیں کہ بھارت ہر صورت کشمیر کے راستے پاکستان پر حملہ
کرے ، لیکن پاکستان کی حتیٰ الامکان کوشش یہی ہے کہ خطے میں امن و امان کی
فضا قائم رہے، دونوں ملکوں میں ملک توڑنے کی تحریکیں چل رہیں ہیں لیکن
بھارت میں ان کی تعداد زیادہ ہے، اس کے علاوہ معاشی بدحالی بھی دونوں ملکوں
کا مقدر بنی ہوئی ہے، دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور دونوں جانتے ہیں کہ
اس جنگ سے پوری دنیا کاا من تباہ ہوجائے گا۔دونوں ممالک کے مابین مسلسل
کشیدگی کی وجہ دفاعی بجٹ میں بے دریغ اضافہ ہے جس سے دونوں ممالک میں
ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہو پارہے۔اس وقت بھارت میں بے روزگاری کی شرح میں
چھ فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے جو گزشتہ پینتالیس سال میں سب سے زیادہ
ہے۔ ایران اور امریکہ جنگ کے نتائج بھی کچھ الگ نہیں ہونے والے۔ بھارت کے
تمام تر اقدامات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ان کی داخلی سطح پر بیرونی
مداخلت موجود ہے اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس کے سامنے بے بس ہے۔نتیجہ یہ کہ
بھارت محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے۔
|