کسی بھی ملک سوسائٹی میں معیشت کا کلیدی کردار ہوتا ہے اس یونیورسل ٹرتھ سے
کوئی انکار نہیں کرسکتا - دوسری طرف پرامن احتجاج بھی جمہوری معاشروں میں
ہر فرد کا بنیادی حق ہے ' مہذب ممالک میں احتجاج کا اک طریقہ کار اور جگہ و
مقام مختص ہے ہر فرد وضع کردہ ایس او پیز کو فالو کرتا ہے جسکی وجہ سے
احتجاج معیشت پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہاں چونکہ گنگا الٹی
بہتی ہے اس لئیے احتجاج معیشت کا دھڑن تختہ کردیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں احتجاج
اسوقت تک ریکارڈ ہی نہیں ہوتا جب تک تمام کاروباری سرگرمیاں معطل نہ کردی
جائیں ۔ اگر آپ برا نہ منائیں تو میری انگلی تھامیں آپ کو ماضی میں لے چلتا
ہوں اور مل جل کر یہ پتہ کرتے ہیں کہ اس احتجاجی سیاست کی داغ بیل کس نے
رکھی تھی ماضی قریب میں -
اگر میرا حافظہ خطا نہیں کررہا تو اس کار خیر کی ابتدا میرے اور آپکے محبوب
قائد جناب خان صاحب نے کنٹینر مبارک پر چڑھ کر کی تھی ۔ اسوقت چند دانشوروں
نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ خان صاحب ایک ایسے کام کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں
جو کل کو خود بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ کل جو بویا تھا آج وہ کاٹنے کی جب
نوبت آئی ہے تو شاہ محمود قریشی صاحب فرماتے ہیں کہ احتجاجی سیاست سے معیشت
پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کاش جب آپ اپوزیشن میں تھے تب یہ نکتہ سمجھ
جاتے تو وطن عزیز کا اتنا نقصان نہ ہوتا - کنٹینر پر میرے قائد محترم معیشت
کو ٹھیک کرنے کی ایسی لچھے دار باتیں کرتے تھے کہ لوگوں کو محسوس ہونے لگا
کہ حقیقت میں قائد محترم تباہ حال معیشت کو قدموں پر کھڑا کردیں گے ۔ لیکن
جب انکو موقع ملا تو انھوں نے بھنسیں بیچ کر کٹے اور مرغیاں دے کر معیشت کو
ٹھیک کرنے کی سعی کی جو ناکامی سے دوچار ہوئی اور معیشت کے ارسطو کو گھر
جانا پڑ گیا ۔ |