گزشتہ دنوں علی وزیر اور محسن داوڑ نے خود کے افغان
ہونے پر فخر کیا تو ان پر پاکستان کی غیور قوم نے آڑے ہاتھوں لیا۔ کہ آپ
کھاتے پاکستان کا ہیں، یہاں پر تحفظ لیتے ہیں اور خود کو افغان کہلواتے
ہیں۔اس پر معروف اینکر ، صحافی اور قلم کار حامد میر نے ایک کالم جو
روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ’’ہاں میں افغان ہوں‘‘ تحریر کیا۔ بظاہر یہ کالم
بہت خوب لکھا گیا اور افغانیوں کی تاریخ کو خوب انداز میں بیان کیا گیا
لیکن مجھے افسوس ہوا کہ ایک صحافی جو معاشرے کی آنکھ ، کان اور زبان کہلاتا
ہے ایسے لوگوں کے دفاع میں لکھ سکتا ہے جو ملک مخالف پراپیگنڈوں میں ملوث
پائے گئے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس یہ کہ نیوٹرل لکھنے کی بجائے تحریر
میں تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ۔ افغان تاریخ کو پاکستان کے تناظر میں جزوی
طور پر بیان کیا گیا ۔ لیکن میں قارئین تک حقائق پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
افغانستان نے شروع سے ہی پاکستان کی مخالفت کی اور پاکستان میں کراس بارڈر
دہشتگردی کی سرپرستی کرتا رہا ماسوائے اس دور کے جب وہاں اسلام پسندوں کا
دور رہا۔اگر ہم تاریخی طور پر مطالعہ کریں کہ چالیس کی دہائی میں جب
برطانیہ بر صغیر چھوڑ کر جا رہا تھا تو افغان گورنمنٹ نے برطانوی حکومت سے
درخواست کی تھی کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ختم کریں اور انڈس تک ہمیں سارے
علاقے واپس کریں جو کہ ابدالی نے سکھوں سے چھینے تھے، جب برطانوی حکومت
نہیں مانی تو انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کروا کر دیکھ لیں، جس میں پشتونستان
کے حق میں صرف 2876 ووٹ پڑے تھے جبکہ پاکستان کے حق میں دو لاکھ نواسی ہزار
ووٹ پڑے تھے۔اور غیور قبائلوں نے اظہار کیا کہ ہم کل بھی پاکستان تھے، آج
بھی پاکستان ہیں اور ہمیشہ پاکستان رہیں گے۔ 48کی جنگ میں کشمیر کے محاذ پر
قبائلوں کی خدمات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پختون پاکستان کے ساتھ مخلص
ہیں۔اگر آپ بغورمشاہدہ کریں تو یہ پی ٹی ایم نہیں مگر موومنٹ آف پشتونستان
ہے جس کے پیچھے وہی کمیونسٹ افغان ملیں گے جنہوں نے روز اول سے پاکستان کی
مخالفت کی تھی اور بھارت کو گلے لگایا تھا ، باچا خان بھی انہی میں سے ایک
تھے لیکن چشم فلک نے دیکھا اور خودغیور پشتونوں نے اسے مسترد کیا اوراسے
سرحدی گاندھی کا خطاب دیا۔جن علاقوں کی یہ ڈیمانڈ کرتے ہیں وہ ابدالی کے
دور میں چھینے گئے تھے اس سے پہلے افغانستان کا حصہ نہیں تھے۔ برطانیہ نے
ان کی درخواست کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن ہمیشہ قائم رہے گی۔پھر
جب پاکستان بن گیا تو اس کے بعد انہوں نے مخالفت شروع کر دی، شاید آپ کو
یاد ہو گا کہ سینتالیس میں افغانیوں نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر
قراردادِ پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے یہی مطالبہ دوہرایا ،اور آج بھی ان
کا اعتراض یہی ہے کہ پٹھانوں اور پشتونوں کے ساتھ پاکستانیوں کا رویہ ٹھیک
نہیں ہے ، ڈیورنڈ لائن متنازعہ بارڈر ہے۔ یہ لوگ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں
کہتے ہیں کہ یہ متنازعہ بارڈر ہے، جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں کہ برطانیہ کے
ساتھ محدود مدت کیلئے معاہدہ ہوا تھا وغیرہ وغیرہ، سب بکواس ہے اس کے دلائل
تو جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں لیکن یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے
ساتھ روس کا بارڈر جو آج ترکمانستان اور ازبکستان کا بارڈر ہے کھینچا گیا
تھا !وہ سرحدبھی تو برطانیہ نے کھینچی تھی؟اور ایران کے ساتھ گولڈ اسمتھ
لائن حد بندی کی گئی ہے وہ بھی تو ڈی مارکڈ برطانیہ نے ہی کیا تھا ۔صرف
ڈیورنڈ لائن پر اعتراض کیوں؟ اس کے پس پردہ وہی پشتونستان والی منافقت ہے
جو یہ سینتالیس سے لے کر چلے تھے۔اسی سلسلے میں سینتالیس میں باچا خان نے
نیشنلسٹ کا ایک اجلاس بلایا اور کمیونسٹ پر کام شروع کر دیا، اس کے بعد
1949 کے اندر انہوں نے لویا جرگہ جو افغانستان کی پارلیمنٹ ہے نے کہا کہ وہ
ٹریٹی کو نہیں مانتے ، ڈیورنڈ لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم نہیں کرتے
لیکن دنیا نے اسی وقت ان کو رد کر دیا اس کے بعد 1950 میں کنگ ظاہر شاہ نے
جو تقریر کی اور ائیر فورس سے سارے علاقوں میں پاکستان کے خلاف پمفلٹ تقسیم
کروائے ، پھر پشتون پارلیمنٹ باقاعدہ منظم کی گئی ،اس کے بعد اسی سال کراس
بارڈر دہشتگردانہ کاروائیاں شروع کیں ، جس کے رد عمل میں پاک فورسز نے
انہیں آہنی ہاتھوں لیا اور کراس بارڈر دہشتگردی پھیلانے والے کمیونسٹ
افغانوں کو ٹھیک ٹھاک جوتے لگائے۔اس کے بعد باقاعدہ طور پر کچھ عرصہ کیلئے
ہمارے سفارتی تعلقات بھی خراب ہو گئے تھے اور پھر اسی سلسلے کے اندر ان
لوگوں نے لیاقت علی خان کو شہید کیا، الزام لگایا جاتا ہے کہ آرمی نے شہید
کا ، نہیں !لیاقت علی خان کی شہادت کے پیچھے پشتونستان موومنٹ تھی ، کیونکہ
جو سلسلے کی کڑیاں تھی یا لیاقت علی خان جن کیلئے سب سے زیادہ مزاحمت کر
رہے تھے وہ یہی کمیونسٹ افغانی تھے۔سردار داؤد جو کنگ ظاہر شاہ کے کزن ،
بہنوئی تھے کو 1953 میں پرائم منسٹربنایا گیا ، وہ پشتونستان کا شدت سے
حامی اور کمیونسٹ ذہن کا حامل تھا ۔ انہوں نے سیٹوں اور سینٹوں میں شمولیت
پر پاکستان کی بے حد مخالفت کی ، اس کے بعد ان کی ملاقاتیں ہوئیں نیکیتا
اور نیکولائی کے ساتھ جنہوں نے افغانستان کا دورہ کیا اور انہیں کھلم کھلا
ملٹری ایڈ اور دیگر مراعات سے نوازا۔ایڈ ملنے کی وجہ سے پاکستان میں شورشیں
شروع کر وا دیں ، جس کی بنیاد پر پاکستان کو مجبوراََ ون یونٹ قائم کرنا
پڑا کیونکہ سردار داؤد نے آزاد پرست بلوچیوں کو بھی اٹھا دیا تھا۔ پھر 1961
میں کراس بارڈر دہشتگردی کو داؤد خاں نے شدید ہوا دی جس کے نتیجے میں
پاکستان کے ساتھ تھوڑا تصادم بھی ہواتھا۔اس جھڑپ میں داؤد خان نے باقاعدہ
بلوچیوں کو عسکری مدد دی اور ایک ونگ پاکستان میں بھی اٹھا کر کھڑی کر دی ۔
جس کے بعد دو سال تک پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم ہو گئے تھے ،پھر جب افغانی
بھوک مرنے لگے تو ایران کے کنگ نے 1963میں تہرا ن ایکارڈ کروایا جس کے تحت
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے ۔داؤ د خان کی
معذولی کے ساتھ ہی پشتونستان موومنٹ دم توڑ گئی۔ لیکن 73میں داؤد خان کنگ
ظاہر شاہ کو ہٹا کر خود قابض ہوگیا اور پرچم ونگ کی سپورٹ سے پاکستان کے
اندر دوبارہ کراس بارڈر دہشتگردی اور پشتونستان ساز کو ہوا دی۔ لیکن اس وقت
بھی ہمارے غیور پختون بھائی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔اس معرکے میں
ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں سے 76میں داؤد خان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو
گیا ،آج ایک بار پھر پی ٹی ایم کی شکل میں افغان گورنمنٹ کی سر پرستی میں
وہی منصوبہ دوبارہ رچایا جا رہا ہے ،علی وزیر اور محسن داوڑ کا پشتون
ایجنڈا وہی پرانا کھیل ہے، جسے حامد میر دفاع دے رہے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں
حامد میر آپ ماما قدیر سے تو ہمدردی جتلاتے نظر آتے ہیں لیکن آپ کے منہ سے
کبھی ان ہزاروں مزدوروں کا ذکر نہیں سنا جو بلوچستان میں ماما قدیر کے ظلم
کی بھینٹ چڑھے۔ حامد میر صاحب آپ کو ان غریبوں سے ہمدردی کیوں نہیں؟جو چار
سو روپے کی دہاڑی بلوچستان میں کرتے ان دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن
گئے۔ حامد میر صاحب پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں پھر ریاست پر تنقید کریں۔
عوام الناس خود فیصلہ کریں کیا میرا حامد میر سے شکوہ جائز نہیں۔
|