ای وی ایم ٹیمپرنگ Vs برین ٹیمپرنگ!
(Muhammad Asif Iqbal, India)
جمہوریت کی بقا شہریوں کے اعتماد بحالی
میں ممکن ہے۔لیکن اگر عوام الناس جمہوری نظام پر سوال اٹھانے لگیں تو پھر
عین ممکن ہے کہ جمہوری نظام میں بھی شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہو جائے۔اور
یہ شک و شبہ اس حد تک بھی بڑھ سکتا ہے کہ عوام اس نظام ہی سے متنفر ہو
جائیں۔دراصل جمہوریت نام ہے جمہور کی حکمرانی کا۔جہاں عوام کے ذریعہ اُن کے
نمائندے منتخب کروانے کا عمل طے شدہ وقفہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔لوگ اپنے
نمائندے اپنی پسند سے ووٹ کے حق کے ساتھ منتخب کرتے ہیں اور حکومتیں تشکیل
پاتی ہیں۔لیکن گزشتہ دہائی سے ووٹ کا حق ادا کرنے کا جو طریقہ ہندوستان میں
اختیا رکیا گیا ہے وہ ووٹنگ مشین ای وی ایم ہے جس پر گزشتہ یو پی اے حکومت
کے خلاف بھی باتیں سامنے آئیں تھیں ،سوالات اٹھائے گئے تھے،کتابیں لکھی گئی
تھیں اوراس کو ختم کرنے کی مانگ اٹھی ۔وہیں موجودہ این ڈی اے حکومت پر بھی
مستقل سوالات اٹھ رہے ہیں،احتجاجات درج کروائے جارہے ہیں۔اور یہ ثابت کرنے
کی کوشش کی جارہی ہے کہ ای وی ایم مشین میں گڑبڑی کی جاسکتی ہے۔اس کو دہلی
اسمبلی میں راست نشر کیا گیا،ساتھ ہی ملک بھرمیں ایک سے زائد واقعات رونما
ہوئے جہاں عوام نے اپنے پسند کے نمائندے کو منتخب کرتے وقت جس بٹن کو دبایا
،ای وی ایم مشین میں نتیجہ کچھ اور ظاہر ہوا ۔نتیجہ میں لوگوں نے شکایتیں
درج کروائیں اوریہ الزام بھی لگاکہ برسراقتدار حکومت جس پارٹی سے وابستہ ہے
،ای وی ایم کا بٹن کوئی بھی دبائے نتیجہ اُسی پارٹی کے نمائندے کے حق میں
آرہا ہے ۔اس پس منظر میں مختلف پلیٹ فارمس کے ذریعہ بڑے پیمانہ پر یہ بات
سامنے آئی کہ ای وی ایم کے ذریعہ ووٹ کا حق استعمال کرنے کا طریقہ ختم کیا
جائے،بیلٹ پیپر کے ذریعہ ہی ووٹ دینے کا دوبارہ سلسلہ شروع ہو،تاکہ جو
مسائل پیش آئے ہیں اور مستقل آرہے ہیں ان پر کنٹرول کیا جا سکے،انہیں ختم
کیا جانا ممکن ہو۔عوام کا اعتماد بحال ہو،ہر شخص کو محسوس ہو کہ اس نے جس
نمائندے کو اپنا ووٹ دیا تھا واقعی اسے وہ ووٹ حاصل ہوا ہے اور جمہوریت کی
بقاممکن ہو،جمہوری نظام برقراررہے۔آپ دیکھیں گے کہ یہ اشکالات اس لیے بھی
سامنے آئے ہیں کیونکہ ای وی ایم مشین گرچہ کسی قدر بھی بہتر انداز میں اپنی
کارکردگی کو اداکرنے کے لائق کیوں نہ ہو جائے اس کے باوجود یہ ایک مشین ہی
ہے جو سافٹ ویئر پر منحصر ہے۔اور مشینوں کو ہیک کرنا،ان کی ٹیمپرنگ کرنا،ان
کے سافٹ ویئر کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا،کچھ اس قدر بھی نا ممکن
نہیں جتنا کہ اس کے حق میں اظہار کرتے ہوئے سمجھایا جاتا ہے۔برخلاف اس کے
اگر جمہوری نظام میں جمہوریت سے ہی اعتماد اٹھ جائے تو پھر اس جمہوری نظام
اور اس کو رائج رکھنے والوں پر،اس کی بقا اور تحفظ کرنے والی حکومتوں اور
اداروں پر سوالات اٹھنے لگیں گے۔لہذا ضروری ہے کہ جمہوری نظام کا دعویٰ
کرنے والے ،اس نظام کو برقراررکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اس بات کی بھی
کوشش کی جائے کہ جمہوریت پر اعتماد رکھنے والے عوام اور ملک کے شہری ہر دو
سطح پر متنفر نہ ہوں اوران کا اعتماد ختم نہ ہونے پائے ،برقرار رہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی نظام نظریہ
کے بنا وجود میں نہیں آسکتا ۔انسانی تاریخ سے ثابت ہے کہ دنیا کے مختلف
زماں و مکاں میں قائم نظام ہائے زندگی کسی نہ کسی نظریہ سے منسلک رہے
ہیں۔اس کے باوجود مخصوص نظام کونافذ کرنے والے ہر زمانے میں عوام کو یہی
ثابت کرتے آئے ہیں کہ برسراقتدارنظریاتی حکومت میں نظریہ کا غلبہ نہیں ہے۔
لہذاعوام الناس بے خوف و خطر حکومت کا تعاون کریں اور ترقی کی منازل طے
کرتے چلے جائیں۔لیکن چونکہ نظریاتی اقتدار عموماً ملک کے تمام عوام کو ایک
چشمے سے نہیں دیکھتا یہی وجہ ہے کہ وہ ایک طرف نظریاتی نظام کہلاتا ہے تو
دوسری جانب وہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک بھی نہیں کرتا۔دوسری جانب یہ بات
بھی عیاں ہے کہ ہر زمانے میں ایک ہی حکومت کے زیر سایہ عوام مختلف
گروہ،نظریات اور طبقات میں منقسم ہوتے ہیں۔اس صورت میں یہ ممکن نہیں کہ ایک
نظریہ کسی بھی صورت میں سب کو مغلوب کرتا ہوادوسروں کا خاتمہ کردے۔یہ وہ
مرحلہ ہے جہاں سے نظریات کی کشمکش شروع ہوتی ہے۔اس کشمکش میں عموماً
برسراقتدار افراد و حکومتیں اُس وقت تک غالب رہتی ہیں جب تک کوئی دوسرا
نظریہ یا مختلف نظریات سے وابستہ طبقات مخصوص نظریہ کو مغلوب کرنے میں متحد
ہوتے ہوئے کامیاب نہ ہو جائیں۔ایسے حالات میں مخصوص نظریہ سے وابستہ افراد
اپنی بقا و دوام کے لیے عموماًدو طریقے اختیار کرتے ہیں۔ایک:وہ کوشش کرتے
ہیں کہ عوام الناس کا ایک بڑا گروہ کسی نہ کسی طرح ان سے قریب ہو جائے، ان
کی فکر پروان چڑھے،جن مقاصد اور نصب العین کے لیے وہ سعی و جہد کررہے ہیں
اس میں جم غفیر ضم ہو جائے اور دوسرے نظریات کے حاملین و قائدین گرچہ ان کا
خاتمہ نہ ہو،اس کے باوجود وہ اس قابل بھی نہ رہیں کہ وہ ان کا مقابلہ کرتے
ہوئے کامیابی سے دوچار ہوں۔اس پوری جدوجہد میں وہ کسی بھی اخلاقی اصول کو
پامال کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور انہیں ظاہری کامیابی جس کی مدت عام طور
پر واضح نہیں ہوتی حاصل ہوتی رہتی ہے۔دوسرا طریقہ جو عموماً استعمال کیا
جاتا ہے وہ راست یا بلاواسطہ طور پر تشدد کا طریقہ ہے۔یہ تشدد کبھی راست
ہوتا ہے تو کبھی بلاواسطہ ذیلی تنظیموں اور گرہوں کے ذریعہ بھڑکایا جاتا ہے۔
جس کا بنیادی نکتہ نفرت اور تعصب پر منحصر ہوتا ہے۔لہذا ان کی کامیابی کا
راز اسی بات میں پنہاں ہے کہ جس قدر اور جس بڑے پیمانہ پر وہ نفرت کا بازار
گرم کرنے میں کامیاب ہوں گے،ان کی فکر اور نظریہ کی بقا کے لیے جدوجہد کا
دائرہ بھی اسی قدر وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا۔اسی کے ذریعہ وہ خوف و
ہراس کا ماحول بھی پیدا کرتے ہیں،جہاں لوگوں کی زبانوں پر قفل چڑھائے جاتے
ہیں ،انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔اوریہی وہ برین ٹیمپرنگ ہے جسے عموماً
نظرانداز کرتے ہوئے ہم اور ہمارا سماج آگے بڑھتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ اندرون
خانہ سماج منتشر ہونے لگتا ہے اور سماجی تانا بانا بکھر جاتا ہے۔ان حالات
میں ممکن ہے مخصوص نظریہ سے وابستہ حکومتوں ، افراد و گروہوں کو ایک وقت
خاص میں عروج حاصل ہوجائے اور وہ جس نصب العین کے لیے سرکرداں تھے،اسے وہ
اپنی آنکھوں سے پھلتا پھولتا اور کامیاب ہوتا دیکھ بھی لیں۔اس کے باوجود یہ
بھی زندہ و جاوید حقیقت ہے کہ ہر عروج کوزوال بھی آتا ہے۔کیونکہ یہی انسانی
تاریخ ہے اور یہی انسانی تاریخ پر منحصرحکومت و اقتدار کو کنڑول کرنے والے
کا اصول ہے۔زوال کے بعد عروج کسے حاصل ہوتا ہے؟اس کے مختلف پیرایوں میں
جوابات موجود ہیں۔اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ زوال کے اسباب کیا
ہوتے ہیں۔اورزوال کے بعد جنہیں عروج حاصل ہوتا ہے ان کے معاملات کیا ہوتے
ہیں۔لیکن یہ بات طے ہے کہ ہر عروج کو زوال دیکھنا ہے۔
اس موقع پر اردو قارئین سے جو بات کہنی ہے وہ بس یہی کہ ہمیں اپنے اندر وہ
صفات پیدا کرنی چاہیں جو ابدی زوال سے بھی ہمیں محفوظ رکھنے میں معاون ہوں
اور جس کے اختیار کے نتیجہ میں ہم وقتی زوال سے بھی بچے رہیں۔اِس کے ایک
معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ ہماری حیثیت درمیانہ روی کی ہونی چاہیے ۔نہ ہم عروج
کے اُس پیمانہ کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جہاں تعصب اور نفرت کا سہارا لیتے
ہوئے اسے برقرار رکھنے یا اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے
اور نہ ہی اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوں جہاں انسان دنیا اور آخرت ہر دومقام
پر ناکامی سے دوچار ہوگا۔سوال یہ ہے کہ پھر ہم کریں کیا؟اس کا آسان سا جواب
یہی ہے کہ آپ جو ہیں اسے قول و عمل اور ظاہر و باطن ہر سطح پر مکمل انداز
میں واضح کردیں کہ آخر آپ ہیں کون؟وہیں نفرت و تعصب پر مبنی حالات میں خوف
کا شکار ہوتے ہوئے اپنی شناخت کو چھپانے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہ
کریں،کیونکہ آپ کی شناخت چھپانے کی کوشش آپ کو عظیم ہلاکت سے دوچار کر دے
گی۔اور آخری بات یہ کہ انسانی بنیادوں پر انسانوں سے محبت و ہمدردی کے ساتھ
پیش آئیں اُن کی ہر ممکن مدد کریں۔کیونکہ آپ ہی ہیں جو مسائل کا ادراک بھی
رکھتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیں! |
|