مرسی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت اور مظاہرے:
برِاعظم افریقہ کے ایک انتہائی اہم ملک مصر کی تاریخی اہمیت سے کسی کو
انکار نہیں۔لیکن 2011سے اگلے ڈھائی سال وہاں جو سیاسی سطح پر انقلابی
تبدیلیاں لانے کی کوششیں کی جارہی تھیں اُنکا تانا باناکہاں جا کر مل رہا
تھا ؟ س سلسلے میں3 ِ جولائی 2013ءکو مصر میں صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت
کے خلاف فوجی بغاوت کیوں ہوئی تھی ؟ اور 6سال بعد 17ِ جون 2019ءکو کمرہ
عدالت میں اُن کا انتقال مسلم اُمہ کیلئے ایک اہم سوال ہونا چاہیئے تھا ۔
یعنی کیا مصر:ایک بار پھر عالمی سازش کے شکنجے میں ہے؟
30 ِجون 2013 ءکو جب مرسی حکومت کو ایک سال مکمل کرنے پر وہاں کی حکومتی
جماعت اخوان المسلمون اُنھیں کامیابی کا سہرا پہنانے کا انتظام کر رہی تھی
کہ اچانک ایک سال بعد اُس دوران حزب ِ مخالف کی طاقتیں جو اُنکی حکومت کے
خلاف پروپیگنڈا کر رہی تھی عوام کو لیکر سڑکوں پر نکل آئی اور مرسی حکومت
کے خلاف ا یک بڑی تعداد میں احتجاجی دھرنا دے دیا ۔ ان حالات میں صدر مرسی
اور اُنکے خاندان کو حفاظتی حصار میں لینا پڑ گیا کیونکہ اُس دِن ایک طرف
حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والی عوام اور دوسری طرف حکومت کے خلاف احتجاج
کرنے والی عوام آمنے سامنے آگئے تھے ۔
احتجاجی عوام کی پُشت پناہی زیادہ موثر انداز میں کی جارہی تھی اور انٹر
نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سابق سربراہ اور مصر کے اہم راہنما محمد
البرادی کا نام خاص طور پر لیا جارہا تھا۔ مرسی حکومت پر الزام یہ تھا کہ
اُس نے ایک سال میں عوام کی حالت سُدھارنے کیلئے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی
اور عوام کا حال سابق صدرحُسنی مبارک کی حکومت سے بھی بُرا ہو چکا ہے۔اُن
کا مطالبہ ملک میں نئے انتخابات کروانے کا تھا۔ اگلے 2 دِنوں میں یہ احتجاج
اتنی شدت اختیار کر گیا کہ 3 ِاور 4 ِ جولائی2013 ءکی درمیانی شب کو مصر کی
فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح خلیل السیسی کی جانب سے مصر کے جمہوری طور پر
پہلے منتخب صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کر کے مصر کے آئین کو عارضی طور پر
معطل کر دیا گیا ۔ صدر مرسی ،وزراءاور اخوان المسلمون کے اہم قائدین کو
گرفتار کر لیا گیا ۔ اُنکا کہنا تھا کہ مرسی عوام کی توقعات پوری کرنے میں
ناکام رہے ہیں اور لوگوں نے تحفظ اور مدد کیلئے فوج کو بلایاہے۔ لیکن فوج
سیاست سے دور رہے گی۔اس لیئے مصر کی نئی عبوری حکومت کا نگران صدر آئینی
عدالت کے جج عدلی منصورکو مقرر کیا گیا ہے جو آئینی حیثیت کو مد ِنظر رکھتے
ہوئے ملک میں نئے انتخابات کروانے کے انتظامات کریں گے۔
مصری فوج کے سربراہ کے اس اعلان پر قاہرہ کے" تحریر اسکوئر" پر مظاہرین نے
جشن منایا اور آتش بازی کی۔دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ" جامعہ الازہر" کے
شیخ احمد الطیب ، سعودی حکومت اور یو اے ای کے وزیر ِخارجہ نے مصر میں فوجی
اقدام کی حمایت کر دی ۔ جبکہ امریکہ و یورپ ممالک نے اس بغاوت پر تشویش کا
اظہار کر کے دُنیا کو حیران کر دیا ۔ بلکہ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے
کہ موجودہ فوجی سربراہ السیسی کو صدر مرسی نے خاص طور اپنا طرفدار سمجھتے
ہوئے سینئرز جنرلوں پر ترجیع دیتے ہوئے اَرمی چیف مقرر کیا تھا۔لیکن عوامی
دباﺅ میں آکر جنرل السیسی نے اپنے محسن کا ہی تختہ اُلٹ دیا۔
بغاوت کے اگلے ایک دو روز بعد مصر میں مرسی حامیوں و مخالفین کے درمیان
مظاہرے شروع ہوگئے ۔مرسی حامیوں کے مظاہروں میں شدت دیکھ کر مصری فوج نے
فائرنگ کر دی جسکی وجہ سے درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو کر ہسپتال
میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ فوجی حکومت کے اس رویئے پر اخوان
المسلمون نے عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا کہہ دیا ہے۔ ان حالات تک
مرسی حکومت اپنی غلطی سے پہنچی یا اُنکے خلاف گزشتہ ایک سال سے جاری سازشوں
نے اپنا رنگ دکھا دیا۔جاننے کیلئے پہلے مرسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں
مختصر جاننا ضروری ہے اور پھر اُنھوں نے مصر کا صدراتی عہدہ سنبھالنے کے
بعد پہلے چھ ماہ میںترجیعی بنیادوں پر جو کام کیئے ہیں پیش ِنظر رکھنے پڑیں
گے۔
(جاری ہے)
|