ملت کا ایک اور عظیم قائد مغرب کی سازش سے جاں بحق

آخر کار جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر محمد مرسی 17؍ جون بروز پیر عدالت میں پیشی کے دوران انتقال کرگئے۔ 67سالہ محمد مرسی کو اُس وقت کے فوجی سربراہ اور موجودہ صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعہ انہیں معزول کردیا تھا اور معزولی کے بعد انہیں چار ماہ تک نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مصر کے سرکاری ٹی وی نے ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے بتائی ہے جبکہ دوسری جانب اخوان المسلمین نے محمد مرسی کی موت کو کو قتل قرار دیا ہے ۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے بھی محمد مرسی کی موت کو قتل قرار دیتے ہوئے بتایا کہ محمد مرسی انتقال سے قبل 20منٹ تک مدد کے لئے ہاتھ ہلاتے رہے لیکن حکام نے توجہ نہیں دی ۔طیب اردغان نے اسلامی تعاون کونسل (او آئی سی) سے مطالبہ کیا ہیکہ وہ محمد مرسی کے قتل پر سخت اقدام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بحیثیت ترک اس مسئلہ کو زندہ رکھیں گے اور محمد مرسی کے قتل کے جرم میں مصر کی حکومت کو عالمی عدالت میں لے جائیں گے ۔ صدر ترکی نے محمد مرسی کو شہید قرار دیا ہے۔ عالمی سطح پر محمد مرسی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ڈاکٹر محمد مرسی کو مشرقی قاہرہ کے نصر شہر میں اخوان المسلمون کے لیڈروں کے لیے مختص قبرستان میں سپرد خاک کیا گیاہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ محمد مرسی کو قید کے دوران صرف تین مرتبہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ انہیں انکے وکیل اور ڈاکٹر سے ملنے تک نہیں دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق محمد مرسی کو ان کی گرفتاری کے دوران قید تنہائی میں رکھا گیا ، انہیں ادویات مہیانہیں کی گئیں اور انہیں خراب خوراک فراہم کی گئی ، انہیں ڈاکٹروں اور وکلاء سے ملنے تک نہیں دیا گیا یہاں تک کہ انہیں ان کے خاندان سے بات چیت بھی کرنے نہیں دیا گیا اس طرح مصر کے جمہوری طور پر منتخبہ پہلے صدر کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا تھا۔ذراائع ابلاغ کے مطابق مصری جیل میں انہیں قرآن مجید کا نسخہ بھی فراہم نہیں کیا گیا اس سلسلہ میں بتایا جاتا ہے کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل شاید کسی مقدمہ کے موقع پر عدالت میں محمد مرسی نے یہ شکایت کی تھی کہ انہیں جیل کی کوٹھری میں قرآن مجید فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا، شاید یہ لوگ (جیل حکام) نہیں جانتے کہ میں حافظ قرآن بھی ہوں اور 40سال قبل ہی قرآن مجید حفظ کرلیا تھا ، میں صرف قرآن مجید کو اپنے ہاتھوں سے چھونا اور اپنی آنکھوں سے لگانا چاہتا تھا۔ اس طرح جس ملک میں دنیا کی سب سے قدیم اور بڑی اسلامی جامعہ ’’جامعہ ازہر‘‘ ہو اور جہاں کے فارغین دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس ملک کو عالمی سطح پر اسلامی ملک سمجھا جاتا ہے وہیں پر ایک مسلم معزول صدر کوجیل کی کوٹھری میں کلام مقدس تلاوت کیلئے پیش نہیں کیا جاتا ہے تو یہ ان مصری حکمراں اور جیل حکام کی بدنصیبی ہوگی ۔محمد مرسی سمیت اخوان المسلمین تین سینئر قائدین کومئی 2015ء میں دہشت گردی کی سازش اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی ان کے علاوہ دیگر اخوان المسلمین مزید تیرہ افراد کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن نومبر 2016میں عدلیہ نے محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے دیگر قائدین سمیت سولہ افراد کی سزائے موت کو منسوخ کردیا تھا۔ اسی سال محمد مرسی کو ریاستی راز افشاں کرنے اور حساس معلومات قطر کو فراہم کرنے کے جرم میں چالیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد مرسی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف مختلف مقدمات کی تحقیقات فوجی بغاوت کو قانونی شکل قرار دینے کی ایک کوشش ہے۔کئی مقدمات میں ماخوذ محمد مرسی کو انتقال سے قبل پیر کے روز قاہرہ کی ایک عدالت میں پیشی کیلئے لایا گیا تھا ۔انہیں قاہرہ میں فلسطینی جماعت حماس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے جاسوسی کے ایک مقدمہ کی کارروائی کیلئے لایا گیا تھا اس دوران محمد مرسی نے ایک ساؤنڈ پروف پنجرے میں قید عدالت سے خطاب کیا اور اس کے فوراً بعد وہ بے ہوش ہوگئے اور شاید اسی وقت انکی روح پرواز کرگئی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک ایسے صدر جو عوامی منتخبہ تھے اور ابھی انہیں اپنے اقتدار پر فائز ہوئے صرف ایک سال مکمل ہوا تھا۔ انکے خلاف اپوزیشن جماعت کی جانب سے عوامی مظاہرے کے بعد انہیں مصر کی فوج نے 30؍ جون 2013کو برطرف کرکے قید کردیا گیا تھا۔ محمد مرسی جو 1951ء میں ضلع شرقیہ کے ایک گاؤ ں الادوار میں پیدا ہوئے اور وہ 1970ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد وہ امریکہ سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ۔ مصر واپسی کے بعد وہ زقازیق یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے شعبے کے سربراہ مقرر کئیگئے۔ اسی دوران وہ اخوان المسلمین میں ممتاز حیثیت حاصل کرتے رہے اور پھر وہ اخوان المسلمین کے اس شعبے میں شامل ہوگئے جس کا کام کارکنوں کو رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ سنہ 2000-2005تک وہ آزاد رکن کی حیثیت سے اس پارلیمانی اتحاد میں شامل رہے جس میں اخوان المسلمین بھی شامل تھی۔ اپریل 2012میں محمد مرسی کو اخوان المسلمین کا صدارتی امیدوار منتخب کیا گیا ۔بہارعرب کے دوران سنہ 2011میں مصر میں بڑے پیمانے پر حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے عوامی احتجاج کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں اقتدار سے علحدہ کردیا گیا تھا۔ اس طرح حسنی مبارک کے دور اقتدار میں مصر کے حالات خراب ہوچکے تھے اور محمد مرسی ابھی ان حالات سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ انکے خلاف اپوزیشن نے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج شروع کیا جسے سمجھا جاتا ہے مغرب کی ایک اہم سازش تھی۔ محمد مرسی پر اسلام پسندوں کا ساتھ دینے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔محمد مرسی کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں رہا کرنے کیلئے انکی تائید میں تحریر اسکوائر چوک،قاہرہ میں احتجاج کرنے والے اخوان المسلمین کے دو کیمپوں پر مصری سیکوریٹی فورسز نے دھاوا بول دیا تھا اور اس قدر بے رحمی کے ساتھ کم و بیش دو ہزار افراد بشمول خواتین و معصوم بچوں کو ہلاک و زخمی کیا۔اور پھر اس کے بعد ہزاروں اخوان المسلمین کے کارکنوں کو قید کیا گیا ۔گرفتاریوں کے بعد سینکڑوں حمایتیوں کو عدلیہ نے پھانسی کی سزا سنائی تھی جس پر کس حد تک عمل ہوا پتہ نہیں۔فوجی بغاوت کرنے والے مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی کو اسرائیل کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے ، محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے خلاف فوجی بغاوت اور بعد کے حالات شاید اسی دوستی کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جو مغربی سازش کا ایک حصہ ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قطر کے خلاف سعودی عرب ، بحرین اور عرب امارات کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے میں شاید اہم رول مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کا ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ان ممالک کے ساتھ مصر نے بھی قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ اور سمجھا جاتا ہے کہ مصر ، عالمِ اسلام خصوصاً عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ خیر محمد مرسی جو مصر کے عوامی منتخبہ صدر ہی نہیں بلکہ اقوام عالمِ کے مسلمانوں کے ایک اہم رہنماء کے طور پر اسلام کی سربلندی کے لئے خدمات انجام دے سکتے تھے انہیں ان ہی کے ماتحت فوجی سربراہ نے بغاوت کے ذریعہ معزول کرکے تقریباً چھ سال قید و بند میں رکھا اور مختلف مقدمات میں ماخوذ کرکے انتہائی تکالیف دیں، جسکا ثبوت ا عدلیہ میں ساؤنڈ پروف پنجرے میں ان کی ہلاکت سے دیا جاسکتا ہے۔ کاش مسلمان دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے بچے رہتے اور اپنے رہنماؤں کی قدر کرکے انکا بھرپور ساتھ دیتے۰۰۰

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے تفتیش کون کرے گا۰۰۰؟
سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف اقوام متحدہ کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے قابلِ بھروسہ شواہد سامنے آئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہیکہ محمد بن سلمان اور چند اعلیٰ عہدیدار اپنی انفرادی حیثیت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ جمال خاشقجی کو گذشتہ سال2؍ اکٹوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد سعودی عرب نے کہا تھا کہ خاشقجی سفارت خانے سے نکلنے کے بعد غائب ہوئے ہیں اور وہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔اور ایک فوٹیج کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ خاشقجی کی طرح نظر آنے والے ایک شخص کو انہیں کے کپڑوں میں سفارتخانے سے نکلتا ہوا دکھایا گیا۔ پھر یہ رپورٹ سامنے آئی کہ ترک انٹلیجنس کا خیال ہے کہ انہیں سفارت خانے کا اندر سعودی عرب سے آنے والی ایک پندرہ رکنی ٹیم نے ہلاک کیا ہے اور ترک میڈیا نے سی سی ٹی وی کی ایک فوٹیج کے ذریعہ اس ٹیم کی ترکی میں آمد بتائی۔ اس کے بعد 13؍ اکٹوبر کو سعودی عرب نے ان الزامات کو رد کیا اور کہا کہ انہوں نے خاشقجی کو نہیں مارا، ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ رپورٹ منظر عام پر آئی کہ ترکی کے پاس ایک ایسی آڈیوریکارڈنگ موجود ہے جس سے جمال خاشقجی کو سفارت خانے کے اندر قتل کیا گیا ہے۔ اسکے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے فون پر بات کی جنہوں نے اس قتل کے الزامات کو مسترد کیا ، ٹرمپ نے کہا کہ اس کے ذمہ دار چند ’’سرکش ایجنٹ ‘‘ ہوسکتے ہیں۔ پھر 20؍ اکتوبر 2018کو سعودی عرب نے پہلی بار اس بات کو تسلیم کیا کہ جمال خاشقجی ہلاک ہوچکے ہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔ سعودی عرب کے اس دعویٰ کو بین الاقوامی سطح پر مسترد کردیا اور اسکے بعد دو اعلیٰ سعودی اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ شاہ سلمان نے جمال خاشقجی قتل کے سلسلے میں 11نامعلوم سرکاری عہدیداروں پر خفیہ عدالت میں مقدمہ چلا رہی ہے جن میں سے پانچ کے لئے استغاثہ نے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔

16؍ نومبر کو واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیاکہ سی آئی اے اس حتمی نتیجہ پر پہنچی ہے کہ محمد بن سلمان نے اس قتل کا حکم دیا تھا۔ ٹرمپ نے بعد میں اس کی تردید کی اور کہا کہ سی آئی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔اس رپورٹ کے بعد جرمنی اور برطانیہ کی طرح فرانس نے بھی اس معاملے میں تمام مشتبہ سعودی افراد پر پابندی عائد کردی جرمنی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بھی روک دی۔ یہ کیس یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اقوام متحدہ کی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم جس کے افسر اگتیس کیلامارڈ ہے نے کہا کہ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن پر ایک غیر جانبدار بین الاقوامی آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ آگتیس کیلامارڈ کا کہنا ہے کہ جن گیارہ افراد کے خلاف سعودی عرب میں مقدمہ چلایا جارہا ہے وہ کسی بھی طور پر بین الاقوامی معیار کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ۔ انہوں نے اس مقدمہ کی کارروائی کو معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلہ میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے تفتیش کی جائے گی یا نہیں ۔ اگر محمد بن سلمان کو شاملِ تفتیش کیا گیا اس سے کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ جمال خاشقجی کو جس طرح سفاک طریقہ سے قتل کرنے کی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ منظر عام پر آئی اور پھر انکے جسد خاکا آج تک پتہ نہیں چل سکا اس سلسلہ میں یہ خبریں بھی گردیش کررہی تھی کہ ان کے جسم کو کیمکلز کے ذریعہ پانی میں محلول کردیا گیا ہے۔ترکی سفارت خانے میں جس نے بھی جمال خاشقجی کو کسی کے بھی حکم پربے رحمانہ قتل کیا ہے وہ سب کے سب قاتل ہیں اور انہیں اسکی سزا بھی ملنی چاہیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصلی قاتلوں کو سزامل بھی پائے گی ۰۰۰

عراقی سرزمین دوسروں کیخلاف استعمال نہیں ہو سکتی‘عراقی وزیراعظم
امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ ماحول میں عراق نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو دوسروں کے خلاف استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی ہے لیکن کیا اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا یا نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم عراق عدل عبدل مہدی نے مسلح افواج کے جنرل چیف کی حیثیت سے کسی بھی غیر ملکی طاقت یا ملک پر حکومت کی اجازت کے بغیر عراقی سرزمین کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ۔یہ فیصلہ عراقی وزیر اعظم کی سرکاری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے چار نکاتی بیان میں سامنے آیا۔بیان میں کہا گیا ہے کسی بھی غیر ملکی طاقت کو عراقی حکومت کی اجازت، معاہدے اور کنٹرول کے بغیر عراقی علاقے کے استعمال یا اسے منتقل کرنے پر پابندی ہے۔وزیر اعظم نے عراقی مسلح افواج کے فریم ورک یا کمانڈ اور نگرانی سے باہر کسی بھی مسلح عراقی یا غیر عراقی قوت کے قیام پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔عدل عبدل مہدی نے عراقی مسلح افواج کے فریم ورک کے اندر کسی بھی مسلح افواج کو منتقل کرنے یا آپریشن کرنے، گوداموں یا صنعتوں کو جو عراق کی افواج کے زیر اثر نہ ہوں اس پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

ایرانی میزائل طیارہ بردار بحری جہازوں کی صلاحیت
مشرقِ وسطی کے حالات دن بہ دن کشیدہ ہوتے جارہے ہیں امریکہ مشرق وسطیٰ میں مزید ایک ہزار امریکی فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ خلیج عمان میں جمعرات کو دو تیل بردار ٹینکروں پر حملے کے بعد امریکہ نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ امریکی فیصلہ کے بعد ایران نے بھی اپنے ردّ عمل کا جواب دیتے ہوئے اپنی بحری صلاحیتوں کو منظر عام پر لایا ہے ۔ سپاہِ پاسداران انقلاب ایران کے کمانڈر نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے بیلسٹک میزائل سمندر میں طیارہ بردار بحری بیڑوں کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔بریگیڈئیر جنرل حسین سلامی نے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کی گئی تقریر میں کہا ہے کہ یہ میزائل سمندر میں طیارہ بردار بحری جہازوں کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا سکتے ہیں۔یہ میزائل ملک ہی میں تیار کیے گئے ہیں۔ان کا سراغ لگانا اور انھیں دوسرے میزائلوں سے نشانہ بنانا بہت مشکل ہے۔انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایران کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی نے مشرقِ وسطی میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ان حالات کے باوجود امریکہ اور ایران دونوں نے ہی آپس میں تصادم سے گریز کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ اس سے عالم عرب اور دیگر مسلم ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۰۰۰پاسداران انقلاب نے 20؍ جون کو خلیج میں ایک امریکی ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا جس کی امریکہ نے تصدیق کردی ہے۔
***

Muhammad Abdul Rasheed Junai
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junai Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junai: 358 Articles with 256111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.