اس شخص کو جب ہم نے دیکھا اور سنا تو یقین کریں اس کا
بانکپن لہجے کی کاٹ اور سچی کھری بات کو دیکھ کر اسی وقت لگا تھا کہ ایسے
لہجے فرعونوں کو کب راس آتے ہیں ،ایسی کڑوی اور تلخ باتیں اغیار تو درکنار
اپنے دوست نما دشمن بھی کب برداشت کر سکتے ہیں اور مصر تو اپنی ابتدا ہی سے
فرعونوں کا مسکن رہا ہے ،یہاں حق بات کو برداشت نہیں کیا جاتا مگر کیا کہیے
کہ جہاں ایک طرف ظلمت کی تاریکی ہے وہیں دوسری طرف حق کا اجالا بھی ہے اور
تاریخ گواہ ہے کہ بالآخر فتح حق اور سچ کی ہوتی ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہو
رہا ہے ،محمد مرسی جو 1951میں مصر میں پیدا ہوئے بظاہر عام سا انسان مگر
سچا اور کھرا شخص ،آغاز جوانی میں ہی طاغوت کو للکارنے والا دنیا کے بیسیوں
اسلامی ملک ملکر بھی کبھی مسئلہ فلسطین پر اس جرات و غیرت اور حمیت کا
مظاہر نہ کر سکے جس کا مظاہرہ اس شخص نے اکیلے کیا اس نے پوری دنیا کے
طاغوت کو تن تنہا للکارا اور کھل کر حماس کی حمایت کی دیکھتے ہی دیکھتے وہ
عالم اسلام اور مصر کا مقبول ترین لیڈر بن گیا،عام انتخابات میں 58فی صد
ووٹ لیکر مصر کا پہلا منتخب عوامی صدر بن گیا صدر بننے کے بعد بھی یہ شخص
باز نہ آیا اسے کوئی سمجھا ہی نہ سکا کہ جناب اب جدید دنیا کے تقاضے کچھ
اور ہیں اب ان کے مطابق چلنا ہے اپنی چال ڈھال وضع قطع حتیٰ کہ سوچ کو بھی
اسی طاغوتی ہدایت یافتہ دھارے میں لانا ہے جو امریکہ بہادر اور اس کے چند
کٹھ پتلی ہمنوا کہیں گے،ساری عرب دنیا اگر فلسطین کے مسئلے پر خاموش ہے
اسرائیل جیسے ناسور کو برداشت کیے ہوئے ہے تو آپ بھی ذرا دل پر پتھر رکھ
لیں،حماس اور فلسطینیوں کی یوں کھل کر حمایت یہودیوں کی پٹھو دنیا کو وارا
نہیں ہے مصلحت سے کام لیجیے لہجہ نرم کیجیے،اس نے کہا کیا آپ لوگ چاہتے ہیں
میں بھی باقی تمام عرب کی طرح منافقت کی چادر اوڑھ لوں کہ سامنے کچھ کہوں
پیٹھ پیچھے کچھ،آپ ہی بتائیے مسلمان حکمران کو میرے آقا ﷺ نے کیا نصیحت کر
رکھی ہے،کیا ساری مسلم دنیا ایک جسم کی مانند نہیں کہ کسی ایک حصے کو تکلیف
ہو تو سار ابدن بے چین رہتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ فلسطین اور ارض مقدس لہو
لہو ہو اور ہم بھنگڑے ڈالیں،ہماری عورتیں بچے بچیاں پامال ہوں ہمارے جوان
اور بزرگ ذبح کیے جائیں اور ہم چپ کر جائیں بتایا گیا وہ مصر میں نہیں بلکہ
ہم سے بہت دور فلسطین میں ہیں اس نے کہا ان کا جرم کیا ہے کہ وہ میرے نبی
کریم ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں اﷲ کو اپنا کارساز و مدد گار اس کے رسول ﷺ کو
آخری نبی مانتے ہیں یہ جرم ہے تو میں ان کے ساتھ ہوں اور جو کچھ اس نے کہا
اس کے یہ تاریخی الفاظ ساری دنیا میں آزادی اور حریت کا ستعارہ بن گئے محمد
مرسی نے کہا کہ دنیا سن لے جو میرے محمد ﷺ سے محبت کرے گا میں اس سے محبت
کروں گا جو میرے نبی ﷺ سے نفرت کرے گا میں اس سے نفرت کروں گا جو میرے
رسولﷺ کا دوست ہے میں اس کا دوست ہوں اور جو میرے آقا ﷺ کا دشمن ہے میں اس
کا دشمن ہوں میں مر سکتا ہوں کٹ سکتا ہو ں مگر باطل کے سامنے جھک نہیں
سکتا،جب سامراج کی اس کے آگے ایک نہ چلی تو ٹیپو سلطان کی طرح اس کے خلاف
بھی بالآخر وہی چال چلی گئی جو ٹیپو کے خلاف چلی گئی تھی،کہ اند رسے دشمن
تلاش کیے گئے،مرسی کو غدار بنا کر وگوں کے سامنے پیش کیا گیا طرح طرح کے
الزامات لگائے گئے ،سب سے بڑا الزام یہ لگایا گیا کہ اس نے حماس کو قومی
راز دیے ہیں اس الزام کو مصر کے لوگوں نے جوتے کی نوک پر رکھا کہ حماس سے
تو وہ جسم و روح سے زیادہ پیا ر کرتے ہیں ،جب یہاں بھی دال نہ گلی تو مصر
کی فوج کو تھپکی دی گئی اور اور جنر ل السیسی صاحب کو تیار کیا گیا کہ آگے
بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کر لو،جنرل صاحب نے ایک کیا نہ دو منتخب حکومت پر شب
خون مارا اور قابض ہو گئے جو احتجاج کے لیے نکلا گولی اس کے سینے کے آر پار
ہوگئی ،الاخوان کے سات سو اٹھاون لوگوں نے جام شہادت نوش کیا ،محمد مرسی کو
قید کر دیا گیا،امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں کی مراد پوری ہو گئی،ایک
67سالہ شخص جو کہ دل کا شوگر کا اور بلڈ پریشر کا مریض تھا کو لوہے کہ
پنجرے میں بند کر دیا گیا ،حیرت ہے کہ اسے پنجرے میں بند کرنے والے
مسلمانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ اس کا جرم کیا ہے اور اس کے
ساتھ یہ ظلم کیوں روا رکھا جا رہاہے، دنیا بھر کی آزادی اظہا اور بنیادی
انسانی حقوق کے لیے دبلی ہوتی تنظیمیں بولیں نہ ہی جمہوریت کے کسی عالمی
ٹھکیدار کو ہی یہ ظلم و ذیادتی نظر آئی،ا سے توڑنے کے لیے قید تنہائی میں
رکھا گیا دوائیں بند کر دی گئیں میل ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی اسے
عدالت بھی اسی پنجرے میں لایا جاتا اور گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ،صرف ایک
بات منوانے کے لیے کہ مان جاؤ کہ میں نے حماس کی مدد کر کے غلطی کی فلسطین
کے لوگوں کے لیے اب آواز نہیں اٹھاؤں گا اسرائیل کے خلاف اب نہیں بولوں گا
سارے گناہ معاف ہو جائیں گے گھر جانے کا آسان راستہ مل جائے گا وقتی طور پر
ملک بدری ہو گی ترکی لینے کو ہمہ وقت تیار بھی تھا حالات سازگار ہوں گے تو
اقتدار بھی حوالے کر دیا جائے گا اس نے جواب میں ایک ہی بات کہی کہ مرسی مر
سکتا ہے جھک نہیں سکتا ،کسی یہودی کو کبھی اپنا راہبر اور لیڈر نہیں مانوں
گا نہ کسی سے ڈکٹیشن لوں گا،جب کوئی اسے جھکا نہ سکا تو اسے طرح طرح کی
اذیتیں دی گئیں قید تنہائی میں رکھا گیا ڈاکٹر تو درکنار دوائیں تک دینے سے
معذوری طاہر کر دی گئی،اس کی حالت دن بدن بگڑتی چلی گئی اور چند دن قبل اسی
لوہے کے پنجرے میں اس نے جان جان آفریں کے سپرد کر دی جو اس کا زندان تھا،
اس کی اہلیہ اور بیٹے نے اس کی باڈی کے لیے رحم کی اپیل نہ کر کے جنرل
السیسی کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا، مرسی جو نہ صرف مصر بلکہ
عالم اسلام کا لیڈ ر تھا مگر امریکہ کو نا پسند تھا ،پوری اسلامی دنیا میں
ترکی اور قطر دو واحد اسلامی ممالک ہیں جن کے حکمرانوں کو اس کی موت پر
تعزیت کرنے کی توفیق ہوئی،ترکی کے مرد مجاہد نے تو آگے بڑھ کر اس کی موت کو
قتل قرار دے دیا ،ترکی کے ہر گھر میں صٖف ماتم بچھ گئی،ہر چوک چوراہے پر اس
کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی،اور غائبانہ نماز جنازہ نے امام مالک اور
امام احمد بن حنبل کے جنازوں کی یاد تازہ کر دی،پاکستان میں جماعت سلامی کو
سلام جس نے قوم کی طرف سے یہ فرض کفایہ ادا کرنے کی کسی حد تک کوشش کی ،یہی
وجہ ہے کہ ڈکٹیٹر السیسی زندہ مرسی سے زیادہ مردہ مرسی سے ڈر گیا اور اسکی
میت مصر کے لوگوں کے حوالے کرنے کی بجائے رات کے اندھیرے میں نامعلوم مقام
پر دفن کروا دی تاکہ عوامی غیض و غضب سے بچ سکے مگر نادان صدام حسین کا
انجام بھول گیا اپنے پیش رو حسن مبارک کا انجام بھول گیا اور تو اور کرنل
قذافی کا انجام بھی بھول گیا کہ جو لوگ چند ٹکوں اور وقتی لذتوں کی خاطر
اپنے آپ کو اپنے ضمیر کو اور اپنے لوگوں کو بیچتے ہیں ان کا انجام رہتی
دنیا کے لیے عبرت کی مثال ہوتا ہے ،چلیں جنرل السیسی کو توچھوڑیں باقی
اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی حالت پر ماتم کریں یا جگر کو پیٹیں کہ راست
مدینہ کے دعوداروں سمیت دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں کے حکمرانوں کو سانپ
سونگھ گیا ہے اور وہ کان لپیٹ کر ریت میں سر دیے خاموش بیٹھے ہیں کہ کہیں
اگر ایک لفظ بھولے سے بھی مذمت یا تعزیت کا نکل گیا تو ٹرمپ سرکار ناراض ہو
جائے گی،مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ انکل سام اس وقت تک انکل رہتا ہے جب
تک اس کا مطلب ہوتا ہے جب اس کا مطلب نکل جاتا ہیے تو وہ انکل سام سے بدمست
سانڈ بن جاتا ہے،محمد مرسی کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے اور شاید ہمیشہ
تاریخ میں زندہ رہے گا ،سچ ہے کچھ لوگ مر کی بھی نہیں مرتے اور کچھ زندہ ہو
کربھی زندوں میں نہیں بلکہ مردوں میں شمار ہوتے ہیں ،تازہ مثال سب کے سامنے
ہے،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔
نوٹ،کالم کے بعد بے پناہ لوگ کال کرتے ہیں جس سے اس اخبار کی سرکولیشن کا
اندازہ کیا جا سکتا ہے سب کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں،میں آپ کی محبتوں کا شکر
گذار ہوں کہ آپ وقتاً فوقتاً حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرتے ہیں ،آپ مجھ
سے میرے ای میل ایڈریس[email protected] یافون نمبر03335207894کے
ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں،گذارش صرف اتنی ہے کہ اجتماعی مسائل کو موضوع بحث
لایا کیجیئے،اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو،
|