مصر کے سابق صدر ڈاکٹرمحمدمرسی کا کمرہ عدالت میں انتقال (حصہ سوئم)

ڈاکٹر محمد مرسی بحیثیت صدر ۔۔۔۔ بلکہ13 ِاگست 2012 ءکو انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے طنطاوی کو فوجی و وزا رت کے عہدے سے ریٹائر کر کے جنرل عبدالفتح خلیل السیسی کو نیا فوجی سربراہ اور اُسکو ہی وزیر ِدفاع بھی مقرر کر دیا۔ ۔۔۔۔ کہ " میں مصر کا منتخب آئینی صدر ہوں" کا 3ِجولائی2013ءمیں تختہ اُلٹنے کی صورت میں دیکھ لیا اور یاد دہانی کیلئے ایک دفعہ پھر غور کریں کہ تختہ اُلٹا کس نے؟ فوجی سربراہ السیسی نے جس کو صدر مرسی خاص طور پر اپنا طرفدا سمجھتے تھے۔

ڈاکٹر محمد مرسی اور جنرل عبدالفتح خلیل السیسی

ڈاکٹر محمد مرسی بحیثیت صدر:
جدید مصر کی تاریخ میں اخوان المسلمون نے پہلی دفعہ ایوان ِصدر تک رسائی حاصل کر لی تھی۔دوسرا ڈاکٹر محمد مرسی نے 30 ِجون2012ءکو مصر کے پانچویں اور ساٹھ سال بعد مصر کے پہلے سویلین صدر کی حیثیت میں حلف اُٹھایا۔دُنیا بھر سے مبارک باد کے پیغامات آئے۔امریکہ و اسرائیل جنکی انتہائی کوشش تھی کہ اخوان المسلمون اقتدار سے دُور رہیں ۔اُنھوں مبارک باد کے پیغامات تو بھیجے لیکن ساتھ میں باہمی تعلقات پر تحفظات کی وجہ سے وہاں کی فوجی کونسل کی پُشت پناہی کرتے ہو ئے نظر آئے۔ بہرحال ڈاکٹر مرسی ایک متوازن اور سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے ۔سیاسی ذہین رکھنے کے ساتھ عقل کے تابع ۔اپنے فیصلوں میں سخت رویہ رکھنے کے باوجود مشاورت کو اہمیت دیتے ۔ اقتدار کو سنبھالتے وقت ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل کُھلی کتاب کی طرح اُنکے سامنے تھے۔ اس لیئے اُنھوں نے اپنی جماعت کے تعاون سے حکومت سازی کے وقت اہم فیصلے کرتے ہوئے اتحادیوں کو بھی حکومت میں مناسب نمائندگی دی ۔ یہاں تک کہ النور کے سربراہ عماد عبدالغفور کو معاون صدر کا عہدہ دیا ۔صدر محمد مرسی نے تنخواہ حاصل کرنے سے انکار کر دیا اور صدارتی محل میں اپنے پیشرو حکمرانوں کے برعکس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔سکیورٹی بھی واپس کر دی۔اُنکی بیوی نجلاءمحمود نے بھی خاتون ِاول کا لقب اختیار نہیں کیا۔

صدرمرسی نے 8 ِ جولائی 2012 ءکو اگلے مرحلے میں صدارتی حُکم کے ذریعے فوجی کونسل سے آئین سازی کا اختیار واپس لے لیا اور سُپریم کورٹ کا فیصلہ کا لعدم قرار دے کر پارلیمنٹ فوری بحال کرتے ہوئے نیا آئین بنانے،بذریعہ عوامی ریفرنڈم آئین کی توثیق اور پھر ساٹھ دِن کے اندر انتخابات منعقد کروانے کا اعلان بھی کیا۔

اُنکے پارلیمنٹ کی بحالی کے فیصلے کے بعدمنتخب ارکان نے پانچ منٹ کا پارلیمان کا اجلاس منعقد کر کے ججز اور جرنیلوں کو اپنی قوت دکھا دی۔لیکن دوسری طرف عوام بھی اُن سے اگلے چند ماہ میںعوامی سطح پر تبدیلی کی توقع رکھتی ہے۔اُن میں ٹریفک نظام کی دُرستگی،توانائی بحران کا خاتمہ ،امن و امان کا قیام اور ملک بھر میں صفائی کا نظام کا اہتمام شامل ہیں۔صدر مرسی اور عوام مصر کی بہتری کی منصوبندی کر رہے تھے اور فوجی کونسل و عدلیہ اُنکے منصوبوں کو ناکام کرنے کے در پر نظر آنے لگی۔ حالانکہ اُنھوں نے وزیر اعظم ہشام قندیل کی کابینہ میں مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسن طنطاوی کو وہی وزارت ِ دفاع کا عہدہ عنایت فرما دیاجس پر سابق صدر حسنی مبارک کے دور سے ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔

طنطاوی تو بیرونی ہاتھوںمیں کھیل رہے تھے ۔لہذا اس دوران ماہِ مضان میں مصر فلسطین کی سرحدپر ایک شازش کے تحت 16 مصری فوجی شہید کر کے مرسی حکومت و جماعت پرالزام ترشی کرنے کی کوشش کی گئی تو صدر مرسی نے بذات ِخود تمام معاملات کو اپنے زیر ِنگرانی بہتر کرنے کی کوشش کی ۔
بلکہ13 ِاگست 2012 ءکو انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے طنطاوی کو فوجی و وزا رت کے عہدے سے ریٹائر کر کے جنرل عبدالفتح خلیل السیسی کو نیا فوجی سربراہ اور اُسکو ہی وزیر ِدفاع بھی مقرر کر دیا۔ اسکے ساتھ ہی اُنھوں نے صدر کے اختیارات کم اور فوج کے بڑھانے والے آئینی حکم کو منسوخ کر دیا۔ اگلے چند دِنوں میں 70 ایسے ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے ہوئے بڑے فوجی افسران کوبھی ریٹائر کر دیا جو سفارش کی وجہ سے عہدوں پر قبضہ کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔

دوسری طرف مصری میڈیا کے چند مشہور نام اُنکی حکومت سے ناخوش نظر آرہے تھے۔بلکہ حدیں پار کر کے نتقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے ،جسکی وجہ سے صحافیوں کو قید کی سزائیں بھی سُنا دی گئیں۔ یہاں صدر مرسی نے انتہائی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرکے اُنکی سزائیں معاف کر دیں۔اُنھوں نے درگزر کا رویہ اپنانے کی مثال قائم کی لیکن معاملات کو اُلجھانے کی کچھ ایسی کوشش کی جارہی تھی کہ بس موقع ہاتھ لگے تو پھر دیکھنا۔

نومبر 2012 ءکے آخری عشرے میں وہ موقع جلد ہی آگیاجب اُنھوں نے صدر کے اختیارات بڑھا نے کیلئے ایک صدارتی فرمان جاری کیا جس کے تحت صدر کے فیصلوں کے خلاف کسی جگہ بھی اپیل نہیں ہو سکے گی،انقلاب کے تحفظ کیلئے جو فرمان بھی جاری کرینگے وہ حتمی ہو گااسکے خلاف کسی عدالت میں اپیل نہیں ہو سکے گی وغیرہ تو عدلیہ اُنکے سامنے آگئی اور ملک بھر میں ہڑتالیں اور ہنگامے شروع کروانے میں کامیاب ہو گئی۔

صدر مرسی کو مختار ِکُل ااور فرعون کہا جانے لگا۔ اِن ہنگاموں میں میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ امریکہ جس کا مصر کے اندرونی معاملات سے کوئی تعلق نہیں اپنے طور پر کہہ رہا تھا کہ یہ صدر کے اختیارات وقتی ہیں ،نئے آئین کا حصہ نہیں ہونگے۔لیکن ملک میںایک دفعہ پھر نیا بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جانے لگی ۔ لہذا 30 ِ نومبر 2012 ءکو مصر کی پارلیمنٹ نے ملک کیلئے نئے آئین کے مسودے کی منظوری دے دی۔گو کہ اس آئین میں حکومت ِوقت اوراُسکے اتحادی لفظ "اصول" کو" قانون" سے بدلنے میں ناکام رہے ۔جبکہ عیسائیت اور یہودیت مصری عیسائیوں اور یہودیوںکیلئے قانون سازی کے بنیادی ماخذ قرار پائے۔بہرحال یہ شامل کر لیا گیا کہ جامعہ ازہر سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہو گا۔

آئینی مسودے پر 15ِ اور22ِ دسمبر 2012ءکوریفرنڈم کروایا گیا۔جس میں عوام کی تائید حاصل ہو گئی تو صدر مرسی نے اپنے چند اختیارات واپس لینے کے بعد حزب ِاختلاف کی جانب سے مظاہروں اور شدید احتجاج کے باوجودنئے اسلامی آئین پر دستخط کر کے اُسکو ملک میں نافذ کر دیا ۔ساتھ ہی اعلان کیا کہ اب ملک میں اقتصادی اصلاحات متعارف کروانا سب سے اہم ہو گا۔

صدر مرسی نے ملک کی اقتصادی صورت ِحال کو اہمیت دیتے ہوئے سعودی عرب سے اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز کیا تھا اور قطر بھی گئے جہاں کے امیر نے مصر میں سرمایہ کاری کے علاوہ 2ارب ڈالررکھوانے کا اعلان بھی کیا۔بعدازا ں مصر کے تجارتی وفد کولیکر چین اورایران بھی گئے۔ اُنھوں نے قاہرہ میں آئی ایم ایف کے سر براہ کرسٹائین لاگارڈ سے ملاقات کر کے 4.8 ارب ڈالر کے قرضے کے متعلق گفت و شنید کی۔پھرماہ ِجنوری 2013 ءمیں آئی ایم ایف سے مزید طرفداری حاصل کرنے کیلئے مذاکرات کا آغاز کیا گیا اور اس دوران صدر مرسی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اب ملک میں احتجاج و ہنگامے ختم کر دیں تاکہ حکومت اب معاشی خوشحالی کیلئے جو اقدامات کرے اُسکے ثمرات مصر کی عوام کو حاصل ہو سکیں۔کیونکہ اس وقت وہاں بے روزگاری کی شرح 12.60 فیصدہے جو کئی سالوں کے بعد اتنی زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں جومصر کے ا عدادوشمار پیش کیئے اُس کے مطابق 2013ءکے سال میں بے روز گاری اور افراط ِزر میں کمی کا امکان ہے اور ترقی کی شرح میں ایک دفعہ پھر اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔لہذا اگر واقعی ایسا ہوتا نظر آنا شروع ہو گیا تو انقلاب ِمصر کے مثبت نتائج دُنیا عالم کیلئے حیران کُن ہوں گے۔لیکن اسکے لیئے مصر کی سیاسی و گروہی جماعتوں کومرسی حکومت و اداروں کے فیصلوں کو مُثبت انداز میں قبول کر تے ہوئے ہر معاملے پر تحریر اسکوئر پر اکٹھا ہو کر ہنگامے کرنے سے اجتناب کرناہو گا۔کیونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر ملکی سطح پر کیا گیا فیصلہ ملک کی تمام عوام کیلئے قابل ِقبول ہو۔لہذا جمہوریت میں حکومت کی مدت پوری ہونے کا انتظار اور آنے والے عام انتخابات میں اپنا حق ِرائے دہی کا استعمال زیادہ بہتر ہوتا بجائے اسکے کہ ہر دوسرے دن حکومت ِوقت کے خلاف ہنگامہ برپا کر کے حکومت ِوقت کے اچھے کاموں میں رُکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔

صدر مرسی کا صدارت کے دوران اہم کارنامہ:
فلسطین اسرائیل جنگ نومبر2012ءمیں مصر کی طرف سے صدر محمد مرسی نے بطور ثالثی اہم کردار ادا کیا۔حالانکہ مذاکرات کے دوران اُنکی سگی بہن کا انتقال ہو گیا اور اُنھوںنے پاکستان میں ڈی ۔8 کانفرنس میں شرکت کیلئے بھی آناتھا۔لیکن اسرائیل فلسطین کی جنگ بندی کیلئے اُنھوں نے براہ ِراست کوششوں کا آغاز کر کے امریکہ کے صدر اوبامہ کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا جو اُن دِنوں غیر ملکی دورے پر تھے اور اسرائیل کے دفاع کے حق میں بیانات دے رہے تھے۔بہرحال صدر مرسی کی کاوشوں سے دونوں ممالک کے درمیان جلد ہی جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا اور اُن کا غیر متوقع طور پر اہم فریق بننے پر مصر کو شاندار سفارتی کامیابی حاصل ہوئی۔کیونکہ اس دفعہ یہ معاہدہ اقوام ِمتحدہ کی بجائے مصر میں طے پایا ۔

فلسطین کی قیادت نے اس معاہدے کو اپنی فتح سمجھتے ہوئے ایک طرف مصر کی حکومت کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے پہلی دفعہ اپنی مصر کی طرف کی سرحد کھولنے کا اعلان کیااور دوسری طرف حماس کے سربراہ خالد مشعل نے اپنی کامیابی ا ورمیزائل کی فراہم پرایران کا شُکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی 30 ِنومبر 2012 ءکو اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو" غیر رُکن مبصرریاست کا درجہ" مل گیا ہے۔ جو وہاں کی عوام کیلئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے اور اسرائیل کی حکومت کیلئے سوگ۔ حالا نکہ اُن دِنوں یہ خبر بھی گرم تھی کے شاید کسی بھی وقت اسرائیل ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کیلئے ایک یا دو حملے کر سکتا ہے۔

اس دوران ایک تو روس اور بھارت نے ایران کے پُر امن جوہری پروگرام کی حمایت بھی کردی اور دوسرا اس جنگ کے اختتام پر ایک اور جو دلچسپ واقعہ دیکھنے کو آیا وہ تھا تل ابیب اسرائیل میں اسرئیلی عوام کا وہ ہجوم جو اپنی حکومت کے خلاف اس جنگ پر احتجاج کر رہاتھا۔ گو کہ اس صورت ِحال میں ایران اور ترکی کا بھی اہم کردار تھا لیکن صدر مرسی کیلئے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ جبکہ امریکہ کی حکومت تمام حالات کا جائزہ لے رہی تھے اور خطے میں ہونے والی ہر تبدیلی پر اپنی نئی پالسیاں مرتب کرنے کا عندیہ دیتی رہنے کی پالیسی پر گامزن۔جس کا پہلا نتیجہ دُنیا نے اگلے چھ ماہ بعد ہی صدر مرسی جو کہتے رہے کہ " میں مصر کا منتخب آئینی صدر ہوں" کا 3ِجولائی2013ءمیں تختہ اُلٹنے کی صورت میں دیکھ لیا اور یاد دہانی کیلئے ایک دفعہ پھر غور کریں کہ تختہ اُلٹا کس نے؟ فوجی سربراہ السیسی نے جس کو صدر مرسی خاص طور پر اپنا طرفدا سمجھتے تھے۔

 

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341687 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More