اسلام سے قبل حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ
تجارت کے سلسلے میں آپ ؓ ملک شام تشریف لے گئے۔ یہاں قیام کے دوران ایک رات
آپؓ نے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آئے ہیں اور آپؓ کی
گود میں داخل ہوگئے ہیں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک
ہاتھ سے چاند اور ایک ہاتھ سے سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور
انھیں اپنی چادر میں چھپا لیا۔
صبح آپؓ بیدار ہوئے تو اس عجیب و غریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے ایک
راہب کے پاس تشریف لے گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپ ؓ سے پوچھا ، آپؓ
کا نام کیا ہے، آپؓ کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ ؓ کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرا نام ابوبکر ہے ، مکہ
معظمہ کا رہنے والا ہوں اور میرا تعلق قبیلہ بنی ہاشم سے ہے۔ راہب نے سوال
کیا کہ آپ ؓ کا ذریعہ معاش کیا ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا میں تجارت کرتا ہوں۔
عیسائی راہب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا‘ مبارک ہو،
”نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لے آئے ہیں
اور ان کا تعلق بھی قبیلہ بنی ہاشم سے ہے۔ وہ آخری نبی ہیں اگر یہ نبی پاک
نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان کو پیدا نہ فرماتا اور نہ کسی نبی
کو پیدا فرماتا۔ وہ تمام رسولوں کے سردار ہیں۔ اے ابوبکرؓ! تم ان کے دین
میں شامل ہو گے اور ان کے بعد ان کے خلیفہ بنو گے۔ یہ ہے تمہارے خواب کی
تعبیر ۔ اے ابوبکرؓ میں نے اس نبی ﷺ کی تعریف و توصیف تورات میں پڑھی ہے
اور زبور و انجیل میں اس کا ذکر پڑھا ہے۔ میں اس نبی ﷺ پر ایمان لاچکا ہوں
، میں مسلمان ہوں لیکن عیسائیوں کے خوف سے اپنے ایمان اور مسلمان ہونے کا
اظہار نہیں کرتا۔ لیکن آج تم سے ساری حقیت بیان کردی ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے خواب کی تعبیر سنی، تو بے
حد متاثر ہوئے اور دل پر رقت طاری ہوگئی ۔ آپؓ کے دل میں عشقِ نبی ﷺ کا
جذبہ بیدار ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خواہش میں شدت
پیدا ہوگئی، آپ ؓ فوراََ مکہ معظمہ واپس آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کو تلاش کر کے ان کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو
دیکھ کر دل کو مسرت ہوئی حضورﷺ بھی ابوبکرؓ کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا۔
ابوبکرؓ ! تم آگئے ،جلدی کر وکلمہ پڑھو اور دین حق میں داخل ہوجاﺅ، ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کوئی
معجزہ دیکھ سکتا ہوں۔؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا ”ملک
شام میں جو خواب دیکھ کر آئے ہو اور راہب نے جو تعبیر بتائی ہے وہ میرا
معجزہ ہی تو ہے“۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر پکار اٹھے۔
صدقت یا رسول اللہ! (سچ فرمایا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے) میں گواہی دیتا
ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے سچّے رسول ہیں۔(ماخوذ:
نزہتہ المجالس جلد۲، صہ۲۰۳)
ابتدائے اسلام میں جب مکہ معظمہ میں مسلمانوں کو کفار کی جانب سے بہت
ایذائیں دی جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مکہ
معظمہ سے ہجرت فرمانے کا حکم دے دیا ۔ آپﷺ نے اس بات کا ذکر ابو بکر صدیق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں عنقریب یہاں سے ہجرت کر جاﺅں گا۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ، یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں
باپ آپﷺ پر قربان ، میں بھی آپﷺ کے ساتھ چلوں گا۔ چنانچہ ایک رات کو جب
کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی نیت سے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سورة یٰسین
کی تلاوت فرماتے ہوئے اس محاصرے سے سب کے سامنے گھر سے باہر تشریف لے آئے
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا باہر نکلنا کسی کو بھی نظر نہ آسکا ۔ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر سیدھے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر
تشریف لائے اور فرمایا ، اے ابو بکر ؓ مجھے ابھی اسی وقت ہجر ت کرنے کا حکم
مل چکا ہے اور میں مکہ چھوڑ کر جارہا ہوں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ، میں بھی ساتھ
چلوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چلو۔ ابوبکر صدیق ؓ اجازت پاکر
فرط مسرت سے رونے لگے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ معظمہ سے
روانہ ہوگئے ۔
سفر کے دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے آگے پیچھے اور کبھی دائیں بائیں رہ کر چلتے ۔ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے آپؓ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپؓ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ
ﷺ آپ کی ذات اقدس کے لئے دشمنوں کا خیال میرے دل میں آتا ہے ۔کبھی خیال آتا
ہے کہ کوئی دشمن آگے سے حملہ کرنے نہ آجائے تو میں آپ کے آگے ہوجاتا ہوں،
آگے چلتے چلتے خیال آجاتا ہے کہ کوئی پیچھے سے وار نہ کردے تو میں پیچھے
ہوجاتا ہوں۔ کبھی خیال آتا ہے کوئی دائیں یا بائیں سے وار نہ کردے اس لئے
دائیں یا بائیں ہوجاتا ہوں۔اگر دشمن تعاقب کرتا ہوا آگے یا پیچھے سے آجائے
تو اس کا وار مجھ ہی پر ہو اور حضور کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ (سبحان اللہ !
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی حفاظت ، جانثاری اور محبت کا یہ انداز دیکھ کر اللہ
تعالیٰ کو آپؓ پر کتنا پیار آرہا ہوگا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے اس بے لوث دوست کی محبت کو کس قدر محبت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں
گے۔اللہ ہمیں بھی ابوبکر صدیقؓ جیسا عشق رسولﷺ عطا فرمائے ۔ آمین)
چلتے چلتے آپ دونوں ثور کے پہاڑ پر پہنچے ، اس پہاڑ پر ایک غار تھا ، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غار میں رکنے کا ارادہ فرمایا تو ابوبکر صدیق ؓنے
عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ٹھہر جائیے پہلے مجھے اندر جانے دیجئے ، پرانا
غار ہے ،پہلے میں اندر جاتا ہوں اور اسے صاف کرتا ہوں ، صفائی کرلوں تو آپﷺ
اندر تشریف لے آئیے گا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ غار کے اندر گئے اور اسے صاف کرنے
لگے اس غار میں کئی بل تھے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ
کر ان بلوں کو بند کرنے لگے تاکہ اگر ان میں کوئی موذی جانور ہو تو وہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچائے۔ اس غار میں ایک بہت بڑا سانپ رہتا
تھا ۔ حضرت ابوبکرؓ جب اس کے بل کے پاس پہنچے تو آپ کے پاس اس کا بل بند
کرنے کے لئے کپڑا ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ آپؓ اس بل کو بند نہ کرسکے اور
اپنی ایڑی اس پر رکھ دی اور اپنی جان کی پروا‘ نہ کی اور سوچا کہ مجھے جو
چاہے تکلیف پہنچے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔
اس بل پر ایڑی رکھنے کے بعد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺ کو غار
کے اندر بلالیا ۔ حضور ﷺ غار میں تشریف لائے اور آرام کرنے کے لئے ابوبکر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں سر رکھ کر سو گئے۔
وہ بل جس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایڑی تھی اس میں سے ایک
زہریلے سانپ نے آپ ؓ کی ایڑی پر ڈس لیا ، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
سانپ کے کاٹنے سے تکلیف تو ہوئی مگر آپؓ اپنی جگہ سے ہلے نہیں تاکہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ آئے۔سانپ کے زہر کی تکلیف سے حضرت
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنسو نکل آئے اور چند آنسو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم پر گرے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوگئے، آپﷺ نے
دریافت کیا ابوبکرؓ کیوں رو رہے ہو؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
عرض کیا ، یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے سانپ نے ڈس لیا
ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنا لعاب دہن اس جگہ پر لگایا
جہاں سانپ نے ڈسا تھا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری تکلیف لعاب دہن
لگاتے ہی دور ہوگئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اس غار
میں داخل ہوئے تو اس غار سے دور ایک درخت تھا حضور نے اس درخت کو حکم دیا
تو وہ درخت اپنی جگہ سے چل کر غار کے منہ پر آکر کھڑا ہوگیا ، ایسا معلوم
ہونے لگا کہ یہ درخت یہیں پر اُگا ہو، اور غار کا منہ درخت کی شاخو ں سے
بند ہوگیا ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے ایک مکڑی کو بھیجا ، جس نے اس درخت کی
شاخوں کے اندر جالا بن دیا ۔تاکہ کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقت
کرتے ہوئے وہاں تک آئیں تو غار کے منہ کے آگے درخت اور اس کی شاخوں میں
جالا بنا ہوا دیکھیں تو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جانے کا شبہ
بھی نہ ہو۔
چنانچہ جب کفار مکہ کو پتہ چلا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ سے چلے گئے ہیں، تو کفار بہت حیران ہوئے
اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کھوج لگانے کے لئے کچھ کھوجی مقرر کردیئے ۔
ان کھوج لگانے والوں میں سے ایک شخص کھوج لگاتا ہوا غار کے منہ تک آ پہنچا
اور کہنے لگا کہ محمدﷺ اور ابوبکرؓ اس غار تک تو آئے ہیں لیکن اس کے بعد
پتہ نہیں چل رہا کہ دائیں گئے ہیں یا بائیں ۔ کافر وہاں جمع ہوگئے لیکن
وہیں حیران کھڑے رہے ، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ آپﷺ یہاں سے آگے کہاں
گئے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب کافروں کو غار کے باہر دیکھا تو
حضورﷺ کی فکر میں پریشان ہوگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ۔ ابوبکر کوئی فکر نہیں
کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
کفار میں سے ایک کافر بولا ، ذرا اس غار کے اندر جاکر تو دیکھیں۔ یہ سن کر
دوسروں نے جواب دیا بیوقوف غار کے منہ کے آگے درخت اُگا ہوا ہے اور اس پر
مکڑی کا جالا بھی بُنا ہوا ہے اگر کوئی اندر گیا ہوتا تو یہ شاخیں اور مکڑی
کا جالا ٹوٹا پھوٹا ہوا نظر آتا ، ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی ، تو پھر کسی
کا اس غار کے اندر جانے کا سوال پیداہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ لوگ مایوس
ہوکر وہاں سے لوٹ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کی حفاظت میں بالکل محفوظ رہے۔(ماخوذ : مشکٰوة شریف
صہ۸۴۵)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ573 ءمیں پیدا ہوئے ، آپ کا نام
عبداللہ ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ آپکے والد کا نام عثمان اور کنیت
ابو قحافہ تھی اور والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر تھی۔ مردوں میں آپ
ؓ سب سے پہلے ایمان لائے۔آپؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے دوست تھے اور
ہر جگہ حضور ﷺ کے ساتھ رہے ۔آپؓ نے سارے صحابہ اکرام ؓ سے زیادہ قربانیاں
فرمائی ہیں، آپ ؓ نے اپنا مال و زر سب کچھ اسلام پر قربان کر ڈالا ۔ آپ ؓ
کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ کی تعریف کے بارے میں
ارشاد فرمایا کہ ”وہ (صدیق) محض اللہ کی رضا کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور
عنقریب وہ راضی ہوگا “۔(قرآن ، پارہ ۰۳ )
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفر زندگی کے آخری دنوں میں حضرت
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا یا اور وصیت فرمائی کہ اے علیؓ! جب میری
وفات ہوجائے تو مجھے تم اپنے ہاتھوں سے غسل دینا کیونکہ تم نے ان ہاتھوں سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا ہے، پھر مجھے میرے پرانے کپڑوں
میں کفن دے کر اس حجرہ کے سامنے رکھ دینا جس میں حضور ﷺ کا مزار ہے ۔ اگر
بغیر کنجیوں کے حجرے کا قفل خود بخود کھل جائے تو اندر دفن کردینا ورنہ عام
مسلمانوں کے قبرستان میں لیجا کر دفن کردینا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 23اگست 634 ءبمطابق 22جمادی الآخر
13ہجری کو وفات پائی۔ آپؓ کی وصیت کے مطابق آپؓ کے جنازے کو حجرہ کے سامنے
رکھ کر عرض کیا گیا ۔ یارسول اللہ ﷺ! یہ آپ کے یار غار ابوبکرؓ آپ کے
دروازہ پر حاضر ہیں اور ان کی تمنا ہے کہ انھیں آپ کے حجرے میں دفن کیا
جائے ، یہ سن کر حجرہ کا دروازہ جو پہلے سے بند تھا، خودبخود کھل گیا اور
آواز آئی ”حبیب کو حبیب سے ملا دو کیونکہ حبیب کو حبیب سے ملنے کا اشتیاق
ہے“۔ جب حجرے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن کرنے کی اجازت مل
گئی تو جنازے کو اندر لے جایا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر
میں آپؓ کو دفن کردیا گیا۔ (ماخوذ: سیرت الصالحین صہ۱۹۔۲۹)
اللہ کی لاکھ لاکھ رحمتیں ہوں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر، اللہ
ہمیں ان کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! |