کولکتہ کے ایک سرکاری ہسپتال کے جوئیر ڈاکٹر کے ساتھ زدو
کوب کا واقعہ ملک کی طبی دنیا میں ایک ایسی اتھل پتھل کا سبب بن گیا، جس کی
حال کی تاریخ مٰں کوئی مثال نہیں ملتی۔ گودی میڈیا مے تو ایسا اچھالا کہ
ملک میں بے نظیر گرم کی لہر، اس کے نتیجے میں کئی افراد کی ہلاکت، ملک کے
کئی رلاقوں ، خصوصاََ تمل ناڈو اور مراٹھواڑہ میں پانی کی قیامت خیز قلت،
دو تہائی ملک میں قحط جیسے حالات اور بہار میں دماغی بخار سے دیڑھ سو سے
بھی زیادہ بچوں کی موت کی خبریں نہ جانے کہاں کھو گئیں، یا جان بوجھ کر گم
کر دی گئیں۔ ا س میں شبہ نہیں کہ اس معاملہ کے طول پکڑنے کا ایک بڑا سبب یہ
بھی تھا کہ بنگال کی وازیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے معالہ پر قابو پانے میں کسی
خاصاہلیت کا ثبوت نہیں دیا۔ انہیں چاہئے تھا کہ واقعہ کی خبر ملتے ہی
اساکٹر سے رابطہ قائم کر کے اس سے اظہار ہمدردہ کرتیں۔ اس کے بجائے جب
ڈاکٹروں نے احتجاج کے طور پر ہڑتال کرنے کا اعلان کیا تو ممتا دیدی نے بہت
سختی سے کام لیتے ہوئے ڈاکٹروں کو انتباہ کیا کہ اگر انہوں نے ہڑتال کی تو
ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی۔ اس نے معاملہ اور بھی بگاڑ دیا۔ اس
میں بھی شبہ نہیں کہ یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت تھا اور ڈاکٹر کو مارنے
والے تمام افراد سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن اس کے بعد ڈاکٹروں
اوران کی انجمن انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی جو کچھ کیا، وہ بھی بنیا
کے اس معزز ترین پیشے کی پیشانی پر ایک بد نما داغ کے طور پر یاد رکھا جائے
گا۔ یا تو ایسو ایسی ایشن گودی میڈیا کے پھندے میں پھنس گئی یا پھر خود اس
کا کردار بے حد مشتبہ ہے۔
ہوا یہ کہ ہر چند کہ ڈاکٹروں کی پٹائی کا یہیہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔
ایسے کئی واقعات مہاراشٹر، کرناٹک ، یو پی، دلی اور ہریانہ میں کئی بار ہو
چکے پیں ۔ پچھلے سال پونہ میں ایک ڈاکٹر کو بری طرح ماراپیٹا گیا۔پچھلے ہی
سال بنگکورو میں تو بی جے پی کے ایم پی اننے ہیگڑے نے ایک ڈاکٹر پر لاتوں
گھونسوں کی بوچھار کر دی تھی۔ دلی کے اس ہسپتال میں بھی ایک لیڈی ڈاکٹر کو
زدو کوب کیا گیا تھا۔ یہ اسپتال تو انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن کے دفتر سے
کچھ ہی دور پر واقع ہے۔ یو پی میں بھی ڈاکٹروں کو مارنے پیٹنے کے کئی
واقعات ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں مہاراشٹر کی میڈیکل ریزیڈنت ڈاکٹرس ایسوسی
ایشن نے دو ہی دن رپورٹ پیش کی ہے کہ صوبہ میں ۰۶ فیصد ڈاکٹر کبھی نہ کبھی
کسی نہ کسی قسم کے تشدد کاشکار ہو چکے ہیں ۔ ممبئی کی آدی واسی میڈیکل
طالبہ پائل تڑوی کو خود نائر ہسپتال کے ڈاکٹروں نے خود کشی پر مجبور کر دیا
تھا۔ کیا انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن کو ان واقعات کی خبر نہیں پہے۔ہم نے تو
کبھی ان واقعات کے تعلق سے اس کا معمولی سا مذمتی بیان بھی نہیں سنا۔ تو
پھر کیا یہ مان لیاجائے کہ اگر کسی ایسی ریاست میں ڈاکٹروں کے ساتھ بد
سلوکی کی جائے ، جہاں بی جے پی کی سرکارہے،تو انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن ے
کان پر جوں تک نہیں رینگتی، لیکن اگر ایسی ہی کوئی وارداتکسی ایسی ریاست
میں ہو جہاں غیر بی جے پی سرکار ہو تو ایسوسی ایشن کا خون کھول اٹھتاہے۔
ایک اور بہت غور طلب پہلوہے۔ آج تک اس قسم کے کسی واقعہ میں مارنے والوں یا
مارکھانے والوں میں سے کسی کے مذہب ْکا کوئی ذکر نہیں ہوتاتھا۔ لیکن گودی
میڈیا نے کولکتہ لے واقعہ کی خبر دیتے ہوئے بار بار یہ بتایا کہ مارنے والے
مسلمان تھے اور مار کھانے والا ڈاکٹر ہندو تھا۔ اس لئے سیاسی اور سماکی
حلقوں میں اس شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس کے بعد یا تو ایسو سی ایشن
میڈیاکے بہکاوے میں آگئی یا پھر وہ خود اپنی مرضی سے اسے فرقہ وارایت کا
شکار ہوگئی ۔ہمیں لگتا ہے کہ ایسو سی ایشن خود بھی شدید فرقہ پرستی کا شکار
ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تواوپر گنائے جانے والے واقعات کی طرف سے اس کی بے
حسی اور بے گانگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ایسو سی ایشن کے کردار پر شبہ
کرنے کی ببہت معقہل اسباب موجود ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن ہے
کیا چیز۔ یہ کن داکٹروں کی انجمن ہے اور کن ڈاکٹروں کی نمائندگی کرتی ہے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کمولکتہ کے واقعہ سے پہلے بہت کم لوگوں کو اس کے
وجود کا علم تھا۔جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، ،اس پر ام ڈاکٹروں کا
گلبہ اور اسے وہ ڈاکٹر کنٹرول کرتے ہیں، ہے، جو پرائیویٹ میڈیکل کالجوں سے
ڈگریاں لے کر نکلے ہیں۔ یہ وہ ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے لاکھوں اور بعض صورتوں
میں کروڑوں روپئے دے کر ڈگریان حاصل کی ہیں۔ بلکہ خریدی ہیں کہنا زیادہ
مناسب ہوگا۔ یہ وہ ڈاکٹر ہیں،جو دلت اور او بی سی ریزرویشن کے کٹر مخالف
ہیں۔ ان ڈاکٹروں کا نظریہ ہے کہ ڈاکٹر بننے کے لئے قابلیت یا میرٹ ہی پہلی
اور آخری شرط ہونی چاہئے۔ حالانکہ یی امر انتہائی مشکوک ہے کہ ان کی اکثریت
قابلیت یا میرٹ کے بل پر ڈاکٹر بنی ہے۔۔ جیسا کہ بتایا گیا، یہ وہ ڈاکٹر
ہیں ، جو دولت کے بل پر ڈاکٹر بنے ہیں۔ یہ وہ ڈاکٹر ہیں جو پرائیویٹ میڈیکل
کالجوں کی بھاری بھرکم فیسوں کے مرحمل ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب یہ ڈاکٹر
بنتے ہیں توان کا پہلا مقصد ٖاکٹر بننے کے لئے خرچ کی ہوئیرقم وصول کرنا
ہوتا ہے۔ ان کی فیسیں سن کر اچھے اچھوں کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ اسی لئے
اتنت معزز پیشے کے حامل ہونے کے باوجود سماج خصوصاََ عوام سے انہیں وہ محبت
نہیں ملتی جو ایک مسیحا صفت چارہ گر کو ملنی چاہئے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ
مسیحا نہیں، دولت کے پجاری ہیں۔ یہ مسیحا نہیں دولت کی ہوس کے بیمار ہیں۔
یہ سب ریزرویشن کے سخت مخالف ہیں اور اس طرح میرٹ کی رٹ لگاتے ہیں کہ بہت
سے سادہ دل بھی بہک جائیں۔ ہم نے کچھ مسلم ’’دانشوروں‘‘ کو بھی ان کے سُر
میں سُر ملاتے سنا ہے۔ آپ جس شہر میں بھی یہ مضمون پڑھ رہے ہوں، ذرا اپنے
شہر کے کسی معقول ہسپتال جائیں اور بورڈ پر لگیء ہوئی ڈاکٹروں کے ناموں کی
فہرست پر نظر ڈالیں اور دیکھیں اس میں کتنے او بی سی یا دلت ڈاکٹروں کے نام
ہیں۔ دلت ریزرویشن ۰۵۹۱ سے نافذہے۔ او بی سی ریزرویشن۰۹۹۱ سے شروع ہوا ہے۔
پدونوں ریزرویشن کی مجموعی تعداد ۹۴ فیصد رکھی گئی ہے۔ اس لحاظ سے تو ہر
ہسپتال میں ۹۴ فیصد دلت اور او بی سی ڈاکٹر ہونے چاہئے تھے۔ کیا ہیں؟َ پھر
بھی یہ ڈاکٹر صاحبان ریزرویشن پر واویلا مچاتے رہتے ہیں ۔ جانتے ہیں اس کی
وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ لہے کہ یہ ڈاکٹر صاحبان سورن یعنی اپر کاسٹ ہوتے
ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بہ جے پی کے فطری ہندرد اور طرفدار ہیں۔ کولکتہ کے
واقعہ پر ان کی ’’بے چینی‘‘ اس کا بیّن ثبوت یہی وجہ ہے کہ کولکتہ کے تعلق
سے یہ ایسوسی ایشن ڈکٹروں کی نمائندہ انجمن سے زیادہ بی جے پی کی ایک
’شاکھا‘ کے طور پر کام کر رہی تھی۔صاف لگ رہا تھاکہ اس واقعہ کو بنگال کے
مجوزہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے امکانات کو فروغ دینا تھا۔ اور یہی
وجہ ہے کہ میڈیا بھی ان کے لئے چیخ پکار کر رہا تھا اور ان کے درد میں گھلا
جا رہا تھا رایک ہفتہ تک گودی میڈیا کا پرائم ڑائم بس اسی واقعہ کے لئیوقف
رہا، حالانکہ اس دوران کرغزستان کی راجدگانی بشکیک میں شنگھائی کارپوریشن
تنظیم کا بیحڈ تاریخی اجلاس بھی ہوا، جس کا مشترکہ اعلامیہ کتنا اہم ہے، یہ
کچھ دنوں بعد معلوم ہوگا۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں۔ ہمارا نام نہاد قومی میڈیا آج جس طرح ھکومت کا
غلام بن چکاہے، اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھی غلام نہیں تھا۔ اس وقت یہ
عالم ہے کہ این ڈی ٹی (ہندی اور انگریزی) اور مرر ناؤ کے سوا باقی تمام
ہندی اور انگریزی چینل بے معنی اور ناقابل اعتبارہو چکے ہیں۔ ہندوستان کے
حالات کے تعلق سے تمام سچی خبریں سوشل میڈیا ہر ہی مل سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا
سے ہمارا مطلب وہاٹس اپ اور دیس بک نہیں ہے۔ ہماری مراد ویب نیوز پورٹیلس
سے ہے۔ ’دی کوئنٹ، ’دی وائر‘ ‘ نیشنل دستک ‘ ونود دعا شو۔ ایچ ڈبلیو نیوز،
نیوز کلک سگیرہ چند ایسے نیوز پورٹیل ہیں، جن کے تبصرے اور تجزئے قابل
اعتبار بھی ہوتے ہیں، سچے بھی ہوتے ہیں اور معلومات میں اضافہ بھی کرتے
ہیں۔یہ تمام ویج سائٹس اور پورٹیلس انٹر نیٹ پر موجود ہیں اور آپ کو موبائل
مل فون پر سکتے ہیں۔ ہمارا نیک اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ ہمیں بھی اپوزیشن
پارٹیوں کی طرح گودی میڈیا کا مکمل بائیکاٹ کر دینا چاہئے۔ بع سبیل تذکرہ
جب سے اپوزیشن نے گودی میڈیا کا بائیکاٹ کیا ہے، اس کی ٹی آر پی روز بروز
گر رہی ہے۔
|