نپولین نے کہا تھا کہ اگر شیروں کی فوج کا کمانڈر کتا
ہوگا تو سب کتے کی موت مریں گے اور اگر کتوں کی فوج کا کمانڈر شیر ہوگا تو
سب شیر کی موت مریں گے۔
حوصلہ۔۔۔ جی ہاں حوصلہ۔۔۔
حوصلہ کی وجہ سے ایک باہمت انسان پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اور ریل کو پٹڑی پر
ڈالا جاسکتا ہے۔ آگے وہ خود بخود اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگی۔ میں آپ
کو ایک قصہ سناتی ہوں ۔ ایک شاہین کا انڈا مرغی کے نیچے رکھا گیا۔ جب شاہین
پیدا ہوا تو دوسرے چوزوں کو دیکھ کروہ اپنے آپ کو بھی چوزہ سمجھنے لگا۔
دوسرے چوزے جو کچھ کرتے وہ بھی وہی کچھ کرتا۔ وہ انہی کی طرح کوڑے کو کرید
کردانہ ڈھونڈتا اور انہی کی طرح آوازیں نکالتا تھا۔ وہ چند فٹ سے زیادہ
نہیں اُڑ سکتا تھا۔ کیونکہ دوسرے چوزے بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ ایک دن اس نے
آسمان پر شاہین کو اُڑتے دیکھا۔ تو اپنے ساتھی چوزوں سے پوچھا۔ ’’اس
خوبصورت پرندے کا نام کیاہے۔‘‘ چوزوں نے کہا کہ ’’شاہین‘‘ پھر اُس نے سوال
کیا کہ میں بھی اسی طرح اُڑنا چاہتا ہوں کیا یہ میں کر سکتا ہوں۔ ’’چوزوں
نے کہا نہیں تم نہیں کرسکتے یہ شاہین ہے یہ ایک نادر پرندہ ہے۔ تم اسکی طرح
نہیں اُڑ سکتے کیونکہ تم تو محض چوزے ہو‘‘ شاہین کے بچے نے کبھی اس بات پر
غور نہیں کیا کہ وہ چوزہ ہے یا نہیں۔ اس نے دوسرے چوزوں کے کہے کو سچ مان
لیا۔ اس نے ایک چوزے کی سی زندگی گذاری اور مر گیا۔
کتنا بڑا نقصان ہوا! وہ فتح کرنے کے لیے پیدا ہوا تھا لیکن اس کے ذہن میں
ڈالا گیا کہ وہ ہارنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔
اگر اس کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی ہوتا، اور اُسے کہتا کہ تو شاہین ہے
تو اُڑ سکتا ہے تُو تو فتح کرنے کے لیے پید اہواہے۔ یہ جنگل یہ بیاباں یہ
پہاڑ کی چوٹیاں سارے تمھارے انتظار میں ہے، تُو کوشش کر اُڑ جا اور اپنی
منزل کی طرف روانہ ہو جا، ساری دُنیا کو تمھارا ہی انتظار ہے، یقیناً وہ
شاہین کا بچہ اُڑ جاتا، کیونکہ اُس میں اُڑنے کی صلاحیت موجود تھی، مگر اُس
کی حوصلہ افزائی کرنے والا اور رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ جس کی وجہ
سے وہ جس معاشرے میں پیدا ہوا اور اُسی معاشرے کے مطابق زندگی بسر کرلی۔
دُنیا کی نعمتوں سے محروم ہو گیا اور آخر کار دنیا سے بھی کوچ کر گیا۔
ضروری نہیں کہ شاہین کا بچہ صرف اپنی ہی ماں کے پاس جنم لیتا۔ ضروری یہ ہے
کہ اس کی رہنمائی کرنے والا کون تھا۔ اب یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے
کہ اگر شاہین کا بچہ اپنی ماں کے گود میں جنم لیتا اور جنم لینے کے بعد اُس
کی ماں مر جاتی تو شاہین کیسے زندگی گذارتا؟ آیا وہ چوزوں کی طرح زندگی
گذارتا یا شاہین کی طرح؟
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ہیں جن میں بڑی صلاحیتیں موجود ہیں مگر معاشرے
میں اُن کا حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور نہ اُس کو صحیح
رہنمائی کرنے والا ہوتاہے۔ اگرکوئی بچہ کوئی ڈاکٹر بننا چاہے اور وہ اپنے
دوست سے کہے کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ کیا وہ ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ یقیناً
یہاں پر اُس کا سامنا دو طرح کے لوگوں سے ہوسکتا ہے۔
پہلا منفی رحجان رکھنے والا دوست
دوسرا مثبت رحجان رکھنے والا دوست
اگر وہ منفی رحجان رکھنے والے دوست کے پاس چلا جاتا ہے اور اُس سے یہی سوال
کرتا ہے اُس کا دوست اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُس کا مذاق اُڑانا
شروع کر دے گا۔ کہ شکل دیکھو اور ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھو۔ پہلے منہ دھو
لو پھر ایسی باتیں کرو۔ جیب میں تمھارا یک روپیہ نہیں اور تم ڈاکٹر بننے کا
خواب دیکھتے ہو۔ تمھارا کا م پڑھائی نہیں ہے۔ تم نہیں پڑھ سکتے ۔ میں نے
پڑھ کر کونسا تیر مارا لیا، ڈگری ہولڈر ہوں مگر کوئی نوکری نہیں ملتی ۔
بیکار گھوم رہا ہوں۔ اُس بچے کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ اُس کی
حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور نہ اُس کی صحیح معنوں میں رہنمائی ہوتی ہے
جس کی وجہ سے اُس کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور وہ ڈاکٹر کبھی نہیں پاتا۔
اگر وہ مثبت رحجان والے دوست کے پاس مشورہ لینے جاتاہے اور اُس سے یہی سوال
کرتاہے۔ تو اُس کا دوست اُس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کہ آپ ضرور ڈاکٹر
بنیں گے۔ آپ میں صلاحیت ہے اپنی صلاحیتون کو بروئےکار لاؤ۔ لکھو پڑھو اپنا
وقت فضول ضائع مت کرو، کسی ڈاکٹر کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس کا
باپ غریب تھا، مگر اُس نے محنت کی، پڑھ لکھ کر آج وہ ایک ڈاکٹرہے۔ یقیناً
جب بچے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تب وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گا ۔
مشکلات خود بخود آسان ہو جائیں گی۔ (ان شاء اللہ)
|