مایوس لڑکے نے کامیابی کیسے ممکن ہوسکتی ہے کا سوال داغ
دیا۔ فوری جواب یہی بنا کہ کامیابی کی پہلی شرط ”سعی“ ہے۔ سعی ایک قرأنی
اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہاٸی کوشش جو مطلوبہ مقصد اور منزل کے
لیے، فطرت الہی کے تحت مقدر وضروری ہے۔بلاشبہ کسی بھی فیلڈ اور کام کے لیے
وہ مطلوبہ کوشش اور جہد مسلسل ضروری ہے۔یہی سعی ہی دنیا میں کامیابی اور
أخرت میں کامیابی کے لیے یکساں ضروری ہے۔اخرت میں کامیابی کے اصول، دنیا
میں کامیابی کے اصول اور دنیا و أخرت دونوں میں کامیابی کے اصول قدرت کے
ہاں طے ہیں۔ جو بھی فالوو کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔صرف دنیا کی کامیابی بھی
اصول فطرت کے مطابق ممکن ہے اور صرف أخرت کی کامیابی بھی۔اور دونوں میں
کامیابی کے لیے بھی اصول فطرت طے ہیں۔أپ اصول ِفطرت سے ہٹ کر کامیاب نہیں
ہوسکتے۔
کامیابی کے لیے مسلسل پندرہ سال کی ریاضت ”شرط اول“ ہے اور اس کے بعد
کامیابی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔أپ یوں سمجھ لیجے کہ پندرہ سال کے بعد ہی
لڑکا لڑکی بلوغت کو پہنچتے ہیں تو پندرہ سال بعد ہی کامیابی کی بلوغت کا
أغاز ہوتا،اور چالیس سال کی بے انتہا ٕ کوشش اور ریاضت کے بعد کامیابی پختہ
ہوجاتی ہے اور مکمل پھل دینا شروع کرتی ہے۔کوشش کے حوالے سے اپنے جہد مسلسل
کی مثال دی۔ عرض کیا” میں نے 2008 میں سوچ وبچار کے بعد ایک کامیاب کالم
نگار بننے کا ارادہ کیا۔پھر اس دن سے سعی شروع کی۔اب 10 سال گزر گٸے اور
مزید پانچ سال سخت محنت کی ضرورت ہے۔ امید یہی ہے کہ 2024 کو ان شا ٕ اللہ
اچھے کالم نگاروں کی فہرست میں شامل ہوجاٶنگا،بےشک فہرست میں نام سب سے
نیچے ہو اور زندہ رہا تو2048میں کامیاب ترین کالم نگار بن جاٶنگا۔“
اگر ان پانچ سالوں میں سستی ہوٸی اور لگن و محنت میں کمی أگٸی تو مزید کٸی
سال أغاز کے لیے ہی خاک چھاننی ہوگی۔لڑکا محو حیرت سن رہا تھا۔ شاید وہ ایک
جست میں کامیابی کی سیڑھیاں طے کرنا چاہتا تھا اور کامیاب بزنس مین بننا
چاہتا تھا۔یہ بدیہی فطرت کے کہ ایک چھلانگ کے ذریعے کامیابیاں نہیں ملتی
اور نہ ہی منزلیں طے پاتیں۔ ہاں اگر کوٸی منفی اپروچ ہو تو وقتی ابال کے
ذریعے کامیابی حاصل کی جاسکتی لیکن ایسی کامیابی وبال جان بن جاتی
ہیں۔حقیقت مگر یہی ہے کہ انفرادی کامیابی ہو یا اجتماعی کامیابی،تعلیم اور
روزگار کی کامیابی ہو یا بزنس میں کامیابی اور ہاں ملی خدمات کی کامیابی ہو
یا ذاتی۔ یہ سب وقت مانگتیں ہیں۔سعی مسلسل مانگتی ہیں اور پھر کہیں جاکر
فضل الہی ہوتا اور انسان کامیاب ہوجاتا ہے۔
لڑکے کو مخاطب کرتے ہوٸے کہا ”میں یقین سے کہتا ہوں کہ أپ پندرہ ہزار میں
ریڑھی پرکاروبار شروع کیجے۔ پندرہ سال بعد أپ بڑے سے دکان میں ہونگے اور
چالیس سال بعد أپ کے کٸی ملازم ہونگے اور اگر مکمل پلاننگ کیساتھ چالیس سال
سعی کی تو أپ کٸی کارخانوں کے مالک ہونگے۔میرے سامنے گلگت بازار میں درجن
سے زاٸد بزنس مین ہیں جن کو میں جانتا ہوں،انہوں نے ریڑھی اور پیٹھ پر ٹین
ڈبے کے کام سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا اور أج کٸی کٸی دکانوں کے مالک
ہیں اور کٸی ملازم ہیں ان کے کاروباری کام نمٹانے کے لیے۔“۔
|