کرپشن آکاس بیل کی طرح سے ہے یعنی وہ زرد بیل جو درختوں
کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے- یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ
کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے
حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا- یہاں تک کہ معاشرہ کی
اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے-کسی
برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے-
اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں- بد
عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں- کوئی نگران اگر خود
بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے
بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتے ہے۔
پاکستان کی معیشت کی تباہی اور معاشرے کی تباہی بھی کرپشن ہے، جس نے جس قدر
زیادہ کرپشن کرکے مال و دولت اکٹھا کیا، وہ معاشرے میں اسی قدر بلند مرتبہ
ہوگیا اور حمام میں سب ننگے ہوگئے، سب خاموش ہوگئے، گزشتہ سال دنیا بھر میں
حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جنوبی ایشیا
کا خطہ سب سے زیادہ بد عنوانی کا شکار ہے، جس میں حکومتوں کی بھی ذمہ داری
ہے کہ وہ کرپشن اور بد عنوانی روکنے والے ادارے مضبوط کریں اور ان اداروں
کی کارکردگی میں سیاسی مداخلت کو سختی سے روکنے کی کوشش کریں، مزید کہا گیا
ہے کہ پاکستان سمیت چھ ملکوں بھارت، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا
میں انسداد بدعنوانی کی کوششوں کی راہ میں بڑی سنگین رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان
ممالک میں اگرچہ انسداد کرپشن کے لئے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم ہیں، مگر
ان اداروں کے اندر بھی کرپشن داخل ہو چکی ہے، جس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت
ہے۔ بااثر افراد بھی بدعنوانی کی بنا پر گرفت میں نہیں آتے ان اداروں میں
تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہونے کے باعث بد عنوانی پر پوری طرح گرفت نہیں کی
جاسکتی۔ متذکرہ ممالک کی حکومتوں میں اس عزم اور اہمیت کا بھی فقدان ہے جو
کرپشن پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کے لئے
نیم دلی سے جو کوششیں کی جاتی ہیں، وہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔واضح رہے کہ
ماضی میں بھی تمام حکومتوں نے کرپشن کی نشان دہی تو بہت کی، لیکن باتوں کی
حد تک۔۔۔ پاکستان میں جن حلقوں پر حالات سدھارنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،
ان کے رویے سے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کرپشن سے ملک کو پہنچنے والے
نقصان یا عوام کے مسائل میں اضافے کی کوئی پرواہ ہے، اگر انہیں کسی قسم کی
فکریا پرواہ ہوتی تو کرپشن اور بدعنوانی روکنے والے اداروں سے سیاسی مداخلت
کو ختم کرکے کرپشن کے خلاف موثر اور مضبوط اقدامات کئے جاتے اور افسروں کو
بلاخوف و خطر بڑے بڑے کرپٹ مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی آزادی دی جاتی اور
حکومت کرپشن کو ختم کرکے دم لیتی، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ ان کی
مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں اور معاشرہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف گامزن رہتا ہے۔ |