دہشتگردی پچھلے کئی سالوں میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ
رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرائم یعنی موبائل، پرس یا موٹر سائیکل
وغیرہ چھین لینا خاص طور پر کراچی میں عام رہا ہے۔جب دہشتگردی اور سٹریٹ
کرائم پر بات کی جاتی ہے تو انکی وجوہات میں بے روزگار ی کو اہم وجہ سمجھا
جاتا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں سے دہشتگرد تنظیموں کے نمائندے رابطہ کرتے ہیں
ان سے دوستانہ تعلقات بناتے ہیں اور انکے والدین یا بال بچوں کی مالی ذمہ
داریاں پوری کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں اور پھر اپنے نظریات اور سوچ کے
مطابق انکا برین واش کرکے انکو دہشتگردی کی تربیت دیتے ہیں۔ اسی طرح بے
روزگار نوجوان مالی مشکلات کاشکارہوکر چھوٹے موٹے چوری چکاری کے معاملات
میں ملوث ہوجاتے ہیں۔اکثر اوقات انکے دوستوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔اگرایک
بار گرفتار ہوکر جیل چلے جائیں تو پھر مستند چو ر یا ڈاکو بن کر نکلتے ہیں
کیونکہ جیل میں انکا میل ملاپ پرانے مجرموں سے ہوتا ہے اور وہ ان سے جرائم
کے تمام طریقے سیکھ جاتے ہیں ۔ اسلئے ضروری ہے کہ دہشتگردی کو کنٹرول کرنے
اور سٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لئے دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کے
خاتمے کی بھی کوششیں ہونی چاہئیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں روزگار کے سب سے زیادہ مواقع انڈسٹری میں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں توانائی یعنی بجلی اور گیس کی کمی کے باعث کچھ عرصہ پہلے تک
مختلف انڈسٹریز کے بند ہونے کی خبریںآتی رہی ہیں۔ نئی انڈسٹری تو ظاہر ہے
توانائی کے بغیر ناممکن ہے۔موجودہ حکومت نے اس مسئلے پرخاطر خواہ توجہ دی
ہے اور بجلی بنانے کے نئے کارخانے لگ رہے ہیں اور کچھ نے کام بھی شروع
کردیا ہے۔سی پیک کا منصوبہ یقینااس سلسلے میں صورت حال میں ایک بڑی تبدیلی
لے کرآئے گا۔اس کے تحت بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبے مکمل کئے جائیں گے
اور اس کے بعد تمام صوبوں میں صنعتی زون قائم کئے جائیں گے جہاں صنعتکاروں
کو انڈسٹری لگانے کیلئے مراعات اور ترغیبات دی جائیں گی۔یہ منصوبہ جوںجوں
آگے بڑھے گا توقع ہے کہ روزگار کے لاکھوں مواقع پیداہوں گے۔
ناقص حکومتی پالیسیاںبھی بے روزگاری کاسبب بنتی ہیں۔بعض اوقات ایسے ٹیکس
لگادئیے جاتے ہیں کہ صنعت کاروںکے لئے کام کرنا مشکل ہوجاتا چلتی ہوئی
انڈسٹری بند ہوجاتی ہے اور مزدور بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں نئی
انڈسٹری کالگاناتقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔پاکستان میں ہم نے دو سیاسی
پارٹیوںکی حکومت دیکھی ہے۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ۔ روزگار کے مواقع پیدا
کرنے میں دونوں کی حکمت عملی بالکل مختلف رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نئے منصوبے
لگانے یاترقیاتی کام شروع کرنے میںدلچسپی نہیں لیتی رہی بلکہ اپنے پارٹی
کارکنوں جو جیالے کہلاتے ہیں انکو بڑے سرکاری اداروں یعنیPIA ،سٹیل مل اور
واپڈا وغیرہ میں بھرتی کروا دیتی ہے۔ان اداروں میں نئے لوگوں کی کوئی ضرورت
نہ ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر پارٹی کارکنوں کو بھرتی کیا گیا ۔یہ لوگ
نہ صرف اداروں پرمالی بوجھ بنے بلکہ مناسب اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے
اداروںکی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ اسطرح ادارے نقصان میں چلے گئے اور
اداروںکی ترقی رک گئی اور حقیقی روزگار کے مواقع پیدا نہ ہوسکے۔ن لیگ بڑے
پراجیکٹ مثلاً موٹر ویز اور میٹرو وغیرہ شروع کرتی ہے جس سے عوام کی
سہولتیں میسر آتی ہیںاور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ن لیگ نے
اپنے ہردور میں ایک ٹرانسپورٹ سکیم بھی شروع کی جیساکہ پیلی ٹیکسی اورآجکل
ہر ے رنگ کی سوزوکی وین نظر آتی ہے۔ اس سکیم کے تحت لوگوں کو کم قیمت پر
قسطوں میں ٹیکسی وغیرہ مہیا کیجاتی ہے اور اسطرح بہت کم سرمایہ سے روزگار
مہیا کیاجاتا ہے۔ اسکے ساتھ گاڑیوں سے متعلق دوسرے شعبوں مثلاً ٹائر،بیٹری
اور گاڑیوںکی مرمت کے شعبے میں بھی نئے روزگار پیدا ہوتے ہیں۔ |