عالمِ اسلام کی قدیم و عظیم دینی درسگاہ جامعہ الازہر نے
نئے اسرائیلی منصوبہ کے خلاف اور بیت المقدس کے اسلامی تشخص کو بحال رکھنے
کیلئے صہیونی اقدامات اور مکروں حربوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قدیم
بیت المقدس میں یہودی آبادکاروں کیلئے مذہبی بنیادوں پر حجاج روڈ کے نام سے
سرنگ کا افتتاح آسمانی مذاہب کی کھلی توہین ہوگی۔جامعہ ازہر کی جانب سے
جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ القدس میں ’’سرنگ ‘‘ کی کھدائی کا منصوبہ
بین الاقوامی قوانین، مذہبی اصولوں، اقوام متحدہ کے چارٹر اور مذہبی حقوق
کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ جامعہ نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ القدس میں
مسلمانوں اور مسیحی عبادتگاہوں کو تحفظ فراہم کرنے ساتھ ساتھ دونوں مذاہب
کے مذہبی حقوق کی حمایت کریں اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں
پوری کریں۔ جامعہ ازہر کے بیان کے مطابق عالمی برادری اسرائیل کو فلسطینیوں
کے حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے تل ابیب پر دباؤں ڈالنے میں ناکام
رہی ہے۔اسرائیلی حکومت کی جانب سے القدس کو یہودی رنگ میں رنگنے اور
فلسطینی علاقوں میں توسیع پسندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے آزاد فلسطینی ریاست
کے لئے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔مصر کی اس عظیم الشان
یونیورسٹی نے مزید جو بیان جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جامعہ آزاد
اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت بنانے
کی کوشش کی حمایت جاری رکھے گی۔واضح رہے کہ 30؍ جون کو اسرائیلی حکام نے
جنوب مشرقی بیت المقدس میں سلوان ٹاؤن کے نیچے شہر کی پرانی تاریخی دیواروں
کے ساتھ ایک سرنگ کی کھدائی کا افتتاح کیا ، یہ سرنگ یہودی آبادکاروں کو
قبلہ اول تک رسائی کا نیا راستہ فراہم کرے گی۔فلسطینی ایوان صدر نے بھی
القدس میں یہودیوں کو مذہبی رسومات کی سہولت کیلئے سرنگ کی کھدائی کے
منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سنگین نتائج پر خبردار کیا ہے۔اسرائیل
کی اس مذہبی اشتعال انگیزی پر مبنی پیشرفت پر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ
محمود عباس نے اسلامی تعاون کونسل (او آئی سی ) سکریٹریٹ سے بھی رابطہ کیا
ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا جامعہ الازہر اور فلسطینی ایوان صدر کی بات کو
اسرائیل مان لیں گے۔ عالمی برادری کی چھوٹ کا نتیجہ ہی ہے کہ اسرائیل
فلسطینی بستیوں میں غاصبانہ قبضے کرتے جارہا ہے اور اب بیت المقدس میں
عبادت کے لئے ایک نیا راستہ سرنگ کے ذریعہ بنایا جارہا ہے تاکہ اس سے یہودی
قوم آسانی اور حفاظت کے ساتھ القدس شریف تک پہنچ جائیں۔ جبکہ فلسطینی
مسلمانوں کو مسجد قدس میں عبادت کرنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ نوجوانوں پر
پابندیاں لگائی جاتی ہیں اس کے باوجود عالمی برادری بشمول عالم اسلام کے
کئی ممالک کی جانب سے خاموشی اسرائیلی ظلم و زیادتی میں اضافہ کا باعث بن
رہی ہے۔ ایک طرف اسرائیل یہودیوں کی آبادیوں میں اضافہ اور انہیں سہولتیں
فراہم کرنے کررہا ہے تو دوسری جانب اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں فلسطینی
علاقہ غزہ پر جاری ہیں۔اقوام متحدہ نے غزہ کی اقتصادی صورتحال کو انتہائی
بدتر قرار دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے غزہ
کا ظالمانہ محاصرہ جاری رہنے کی وجہ سے اس علاقے کی اقتصادی صورتحال غیر
معمولی حد تک ابتر ہو جانے پر خبردار کیا ہے ۔اقوام متحدہ سے وابستہ
فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے امدادی ادارے انروا کے آپریشنل ڈائریکٹر میتھیس
شمالی نے غزہ کے باشندوں کی سماجی اور اقتصادی مشکلات کی جانب اشارہ کرتے
ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں طبی مراکز جن کی تعداد 20 سے زائد ہے، غزہ کا
محاصرہ جاری رہنے کی وجہ سے سماجی اور دیگر مشکلات سے دوچار ہیں۔میتھیس
شمالی نے کہا کہ غزہ کی اقتصادی اور سماجی صورتحال روز بروز بدتر ہوتی
جارہی ہے اور اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں بے روزگاری کی شرح 52 فیصد سے
زیادہ اور غربت کی شرح بھی 80 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ غزہ کے مظلوموں
کیلئے 2018ء سے انروا کیلئے اپنی مالی حمایت بند کر رکھی ہے جس کی وجہ سے
اس ادارے کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔اس طرح غزہ کے مظلوموں پرکو غذا
اور ادویات سے محروم کرنے کی کوشش جاری ہے تاکہ یہ بھوکے پیاسے اور
بیماریوں میں تڑپتے ہوئے مظلوم فلسطینی مسلمان اسرائیلی ظلم و زیادتی کے
خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ کرسکیں۔ وقت کا تقاضہ ہیکہ عالمِ اسلام ان
فلسطینی مسلمانوں کیلئے متحدہ طور پر اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑا
ہو اور فلسطینی مظلوم عوام کو انصاف دلانے اور قبلہ اول کے تشخص کو برقرار
رکھنے اور اسکی حفاظت کے لئے صرف بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات کی انجام
دہی ناگزیر ہے ۔
فلسطینی مہاجرین کو انکے آبائی علاقوں میں واپسی کے حق کی حمایت۔سعودی عرب
سعودی عرب نے فلسطینی مہاجرین کو انکے آبائی علاقوں میں واپسی کے حق کی
حمایت جاری رکھنے کا پھر ایک مرتبہ اعادہ کیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
مملکت سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں سعودی
وزارتی کونسل کا اجلاس جدہ میں واقع سلامہ محل میں منعقد ہوا جس میں سعودی
عرب کی جانب سے فلسطینی نصب العین کی سیاسی اور سفارتی حمایت کا اعادہ کیا
گیا۔بتایا جاتا ہیکہ وزارتی کونسل نے اقوام متحدہ سے وابستہ فلسطینی
مہاجرین کے ادارے’’ انروا‘‘ کی جانب سے گذشتہ ہفتہ منعقدہ سالانہ کانفرنس
میں کئے گئے وعدوں کا جائزہ لیا ۔ اس موقع پرسعودی وزارتی کونسل نے
فلسطینیوں اور انکے لواحقین کی انکے آبائی علاقوں میں واپسی کے حق سے متعلق
کہا کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ وقت کے ساتھ ختم نہیں
ہوجاتا کیونکہ اس انسانی ، اخلاقی ، قانونی اور سیاسی حق کی بین الاقوامی
قراردادوں میں ضمانت دی گی ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس سے قبل بھی
فلسطینی مہاجرین اور مظلوموں کیلئے امداد دی ہیں اور ان مظلوموں کے لئے
آواز اٹھائی ہے ۔ اگر تمام عرب و اسلامی ممالک ان فلسطینی مہاجرین کی انکے
اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کیلئے منظم طریقہ سے آواز اٹھاتے ہیں اور
اسرائیل پر دباؤ ڈالتے ہیں تو اس سے بڑی حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے
ورنہ یہ صرف اپنے اپنے ملک میں اجلاسوں اور بیان بازی تک ہی محدود رہ جائے
گا۔
افغانستان میں اقتدار کیلئے جنگ
افغانستان میں طالبان دوبارہ اقتدار کے حصول کیلئے اپنی دہشت گردانہ
کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان موجودہ اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ
کسی قسم کی بات چیت نہیں چاہتے جبکہ صدر اشرف غنی لون طالبان کے ساتھ ملک
میں امن و سلامتی کے لئے بات چیت چاہتے ہیں لیکن طالبان انکی حکومت کو کٹھ
پتلی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے
یا کسی اور مقصد کیلئے طالبان سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی بھرپور
کوشش کرتا رہا ہے جس میں اسے ابھی تک کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔ایک اور کوشش
قطر اور جرمنی کی جانب سے کی جارہی ہے ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے
۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے تقریباً نصف فوجیوں کو
واپس بلانے کے اعلان کے بعد ایک اوراعلان سامنے آیا ہے کہ افغان فریقین پر
مشتمل امن مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 7؍ اور 8؍ جولائی کو
ہونگے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمنی کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور
پاکستان مارکوس پوٹزیل نے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی اور قطر مشترکہ طور پر
مذاکرات کو اسپانسر کررہے ہیں اور اس سلسلے میں دعوت نامے بھی مشترکہ طور
پر دئیے گئے۔اس سے قبل امریکہ نے کابل میں کار بم حملے اور فائرنگ کی شدید
الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اپنے دیگر افغانوں کی بات سننے
پر تیار نہیں ،طالبان گھناؤنے اقدام سے امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے
۔2؍ جولائی کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق درجنوں
افراد کی ہلاکت افسوس ناک ہے ،طالبان اس گھناؤنی اقدام سے امن کی راہ میں
رکاوٹ نہیں ڈال سکتے، اس حملے سے امن کی کوششوں کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا
اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کی طالبان اپنے دیگر افغانوں کی بات سننے پر
تیار نہیں ہیں جو بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ تنازعہ کا فوری اور پرامن حل
تلاش کیا جانا ضروری ہے۔واضح رہے کہ امریکہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے
گذشتہ ہفتہ افغانستان کے دوریکے موقع پر کہا تھا کہ امریکہ افغانستان سے
اپنی افواج نکالنے کیلئے تیار ہے لیکن واشنگٹن نے طالبان کو فوج کے انخلاء
کا کوئی وقت نہیں دیا ہے۔ افغانستان میں 28؍ ستمبر کو صدارتی انتخابات ہونے
والے ہیں اس سے قبل ہی امن معاہدہ کیلئے کوششیں تیز تر دکھائی دیتی ہے اب
دیکھنا ہے کہ امریکہ، جرمن اور قطر کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں
۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان اقتدار کے حصول تک اپنی دہشت گردانہ
سرگرمیاں جاری رکھیں گے ۔ اگر طالبان بھی صدارتی انتخابات میں حصہ لیتے
ہوئے اپنا امیدوار کھڑا کرتے ہیں تو یہ قیام امن کیلئے ایک اہم کوشش قرار
دی جاسکتی ہے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۰۰۰
پاکستان میں اپوزیشن قائدین کی گرفتاریاں
پاکستان میں اپوزیشن قائدین کی مختلف الزامات کے تحت گرفتاریوں کا سلسلہ
رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایک نئے
پاکستان کا جو خواب عوام کو دکھایا تھا ایسا محسوس ہوتا ہیکہ عدلیہ انصاف
کے تقاضہ کو پورا کررہی ہے یا عمران خان کا نیا پاکستان بنانے کی سعی کررہی
ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کی سابقہ حکومتو ں نے جس طرح پاکستان کو
معاشی اعتبار سے پسماندگی کا شکاربنادیا تھا اور عوام کے کروڑہا روپیے ہڑپ
کر اپنی جیبیں گرم کیں تھیں اور بیرون ملک کروڑہا ڈالرس کی جائیدادیں اور
پیسہ رکھا ہے اس کا احتساب کیا جارہا ہے۔ سابقہ پاکستانی حکمرانوں کی ڈوبتی
نےّا کو کنارے لانے کیلئے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب، چین، قطر وغیرہ
سے کئی ارب ڈالرس قرض لے چکے ہیں اور ملک کی بدحالی کو دور کرنے کی سعی میں
لگے دکھائی دے رہے ہیں۔ ادھر پاکستانی عدلیہ خصوصی طور پر احتساب عدالت نے
سابقہ صدر پاکستان آصف علی زرداری ، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف اور ایسے ہی
کئی قائدین کو منی لانڈرنگ ، دھوکہ دہی کے کیسس اور گمنامی کی جائیداوں کے
حوالے سے گرفتار کرچکے ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف ، سابق صدرو رکن قومی
اسمبلی آصف علی زرداری کے علاوہ نون لیگ کے سینئر رہنما اور رکن قومی
اسمبلی خواجہ سعد رفیق انکے بھائی اور رکن صوبائی اسمبلی خواجہ سلمان رفیق
بھی جیل میں ہیں جبکہ مریم نواز اور شہباز شریف جیل جاکر آچکے ہیں اور
مستقبل قریب میں مزید کئی قائدین جیل کی ہوا کھاسکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن پنجاب
کے صدر و قومی اسمبلی کے رکن رانا ثناء اﷲ کو پیر کے روز انسداد منشیات کے
محکمہ نے اسلام آباد لاہور موٹروے سے انکے ڈرائیور اور مخافظین سمیت گرفتار
کیا اور ان کی گاڑی سے 15کلو گرام ہیروئن برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
لاہور میں منشیات کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالت نے رانا ثناء اﷲ کو
14دن کے لئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ رانا ثناء اﷲ کو رواں سال
مئی میں مسلم لیگ ن پنجاب کا صدر مقرر کیا گیا تھا جبکہ وہ شہباز شریف کی
وزارت اعلیٰ کے دوران پنجاب کے وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق رانا ثناء اﷲ کے تعلق سے بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کے
ان صوبائی اسمبلی کے اراکین کو خبردار کیا تھا جنہوں نے چند روز قبل وزیر
اعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ چند روز قبل رانا ثناء
اﷲ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہیں بہت جلد گرفتار کرلیا جائے گا تاہم
انہوں نے کسی مقدمہ کی نشاندہی نہیں کی تھی ۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز
پارٹی کے رہنماؤں نے رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری پرمذمت بھی کی اور افسوس کا
اظہار بھی کیا ۔ شہباز شریف نے ثناء اﷲ کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے
کہاکہ رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا عناد کھل
کر سامنے آچکا ہے۔ انہوں نے رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری کو لاقانونیت اور
سیاسی انتقام کی بدترین مثال قرار دیا۔ مریم نواز مسلم لیگ ن کی نائب صدر
نے ثناء اﷲ کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یعنی ثناء اﷲ بولڈ اور
باہمت ہونے پر گرفتار کئے گئے ہیں اس کے پیچھے انہوں نے عمران خان کو بتایا
ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی مذمت کرتے
ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی ایک مؤثر آواز ہیں۔ رانا ثناء
اﷲ نے بھی اپنی گرفتاری پر عدالت میں پیشی کے دوران ایک صحافی کے سوال کا
جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ظلم ہے اور ظلم کی حکومت کیسے قائم رہ سکتی ہے ۔
اب دیکھنا ہیکہ اگلا نشانہ کون بنتے ہیں۰۰۰
***
|