جمہوریت کی آڑ میں ڈکٹیٹر شپ

حکومت شاید یہ نہیں جانتی کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ڈکٹیٹر شپ کو کبھی قبول نہیں کرتی۔

موجودہ حکومت کہنے کو تو ایک جمہوری حکومت ہے لیکن جمہوریت کی روح کو جس طرح سے مسخ کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر کہیں سے بھی یہ حکومت جمہوری نہیں لگتی، فردوس عاشق اعوان صاحبہ تقریبا ہر روز ہی ٹی وی پر اپنی حکومت کو جمہوری اور اداروں کو آزاد قرار دینے کی کوشش کرتی ہیں،ان کا انداز محلے کی لڑاکا عورتوں جیسا ہوتا ہے، ایک دن ان کا بیان سنا تو عمران خان صاحب کی عزت کر نے کی تلقین کر رہی تھی اور فرما رہی تھیں کہ چونکہ وہ وزیر اعظم ہیں لہذا ان کے بارے میں کوئی نازیبا الفاظ استعمال نہ کیے جائیں اور ان کا ذکر عزت سے کیا جائے۔ کیا فردوس صاحبہ وہ وقت بھول گیئں جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ان کے بارے میں کیسے کیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے اور کیسی کیسی زبان پی ٹی آئی ان کے لئے استعمال کرتی تھی خیر بات ہو رہی تھی عمران خان کی عزت کر نے اور کروا نے کی تو جان لیجئیے کہ ڈکٹیٹر تاریخ میں نام تو بنا سکتے ہیں لیکن عزت نہیں، موجودہ حکومت نا صرف آمرانہ بلکہ بزدلانہ صفات کی حامل بھی ہے -

ایوب خان کا دور حکومت آیا ملک میں پہلی بار آئین معطل کر کے مارشل لاء نافذ کیا گیا ایوب خان کے دس سالہ دور حکومت میں ابتدائی سالوں میں حکومت کی مقبولیت برقرار رہی ، پھر ایوب خان نے نیا آئین بھی بنایا اور نئی سیاسی پارٹی بھی، ان کی دانست میں حکومت پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی اور کوئی انہیں حکومت سے الگ نہیں کر سکتا تھا لیکن ایسی حکومت جس میں فیصلے عوامی مفادات اور امنگوں کو مد نظر دکھ کر نہ کیے جائیں اور تمام اختیارات فرد واحد کےگرد اکٹھے ہو جائیں وہ حکومت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو عوام کو رد کر کے کوئی بھی اپنی من مانی نہیں کر سکتا، اور یہی انجام آخر ایوب خان کی حکومت کا ہوا اور آخر اسے عوامی دباو کے آگے مجبور ہو کر مستعفی ہو نا پڑا۔

اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا دور ہے جس میں عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے خواب دکھا کر حکومت اور مقبولیت حاصل کی گئی اور غریبوں سے کئے گئے وعدے کافی حد تک پورے بھی کئے گے ملک کو ایک قابل عمل آئین دیا، لیکن بھٹو صاحب کی حکومت کو جس چیز نے نا کام کیا وہ اختیارات کا حد سے بڑھاہوا استعمال اور سیاسی مخالفین کو دبانے کی پالیسی تھی، ان کی مقبولیت کا گراف بہت اونچا تھا لیکن پھر بھی ایک وقت ایسا آیا کہ عوام نے ان کو مسترد کر دیا۔

پھر ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کا دور ہے، جنہوں نے ملک کے تمام مسائل کا حل اپنی ذات کو تجویز کیا تین ماہ میں الیکشن کروانے والے اور اقتدار میں دلچسپی نہ رکھنے والے ضیاء صاحب کا دور حکومت ان کی بدترین حادثاتی یا سازشی موت کے ساتھ ہی ختم ہوا،

پھر جنرل مشرف کا دور ہے وہ آئے تو عوام نے ہنس کر خوش آمدید کیا انہوں نے بھی اقتدار قائم رکھنے کے لئے ناجانے کیا کیا پاپڑ بیلے، اپنی ذاتی سیاسی جماعت تخلیق کی، سیاسی مخالفین کو دبانے رکھنے کی پالیسی اپنائی، ایک مضبوط حکومت کے حکمران رہے جس ملک میں کبھی سفید و سیاہ کے مالک تھے آج وہاں پاؤں رکھنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتے ،آمریت، آمریت ہی ہوتی ہے چاہے اسے لاکھ جمہوریت کے لبادے اوڑھ کر چھپا یا جائے۔

کسی فرد واحد کا قانون اور اداروں کا غلط استعمال یا اسے سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھار کے طور پر استعمال کرنا، عوام کی چیخ وپکار کے باوجود من چاہے اور عوام دشمن قوانین کا نفاذ کر نا، یہ سب ڈکٹیٹر شپ نہیں تو اور کیا ہے؟

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ڈکٹیٹر چاہے کتنا ہی پاورفل کیوں نہ ہو عوام ایک نہ ایک دن اسے مسترد کر دیتی ہے اور آمر کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے، ہمارے یہاں کا موسم ہی شدید نہیں لوگوں کے مزاج بھی شدید ہیں جسے سر کا تاج بنا سکتے ہیں اسے جوتیوں میں بھی بٹھا سکتے ہیں،

اگر ڈکٹیٹر شپ کر نا ہی ہے تو فرد واحد میں تمام اختیارات کے ارتکاز کو قبول بھی کیجیے، عوام اور مملکت کی فلاح کے نام پر جمہوریت کو مذاق مت بنائیے۔
 

Sobia Zaman
About the Author: Sobia Zaman Read More Articles by Sobia Zaman: 12 Articles with 14314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.