دبلا پتلا بدن، نفیس لباس، چہرے پر پرکشش مسکان اور دل
موہ لینے والی گفتار- قصہ ہے طارق بلوچ صحرائی سے ایک ملاقات کا- اس ملاقات
کا احوال ایک عرصے سے قلم بند کرنے کا سوچ رہا تھامگر یہ خیال ذہن کے
دریچوں میں محو سا ہوتا جا رہا تھا- آج ہمت جمع کی اور یہ کاوش کرنے کی
ٹھان ہی لی-
رمضان کے آخری عشرے میں میرے ایک عزیز ہمجولی محمد اقبال کو دعوت افطار کا
پیغام ملا چونکہ میں لاہور میں ہی تھا لہذا جونہی مجھے دعوت افطار کی بھنک
پڑی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق ارادہ کیا کہ صاحب دعوت افطار
کو افطار کے ثواب سے محروم نہ رکھا جائے- سرشام میں اور اقبال محفل افطار
میں جا دھمکے- طارق بلوچ صحرائی کو دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا- عالم
حیرت میں اقبال کی طرف استفسار طلب نگاہوں سے دیکھا - اسکے چہرے پر ایک
ذومعنی شرارت بھری مسکراہٹ تھی- بات سمجھ آ گئی کہ موصوف سرپرائز دینا چاہ
رہے تھے-
صحرائی صاحب متعدد شہرہ آفاق تصانیف کے مصنف ہیں جن میں گونگے کا خواب اور
سوال کی موت قابل ذکر تصانیف ہیں- مؤخرالذکر تصنیف کا انگریزی زبان میں
ترجمہ بھی ہو چکا اور یہ کتاب ڈیتھ آف انِگما کے نام سے علمی و ادبی دنیا
میں مقبول عام ہے- میرا صحرائی صاحب سے ادنٰی سا تعارف ہے- میں نے انکی
تصانیف کا مطالعہ نہیں کیا البتہ گاہےبگاہے انکے خیالات نظروں سے گزرتے اور
قلب و روح کی تازگی کا باعث بنتے رہتے ہیں- میرا گمان ہے کہ قاری کی ادیب
کے بارے پسندیدگی نا پسندیدگی کا دارومدار اس بات پر نہیں کہ اسکی لکھی ہر
کتاب پر آپکی نظر غائر ہو بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسکی لکھی چند سطور
پر آپ فریفتہ ہو جائیں- بعد ازاں آپکو اسکی تحاریر پڑھنے کے وسیع مواقع
دستیاب ہوں نہ ہوں اسکا نقش آپکے دل و دماغ پر ثبت ہو چکا ہوتا ہے- صحرائی
صاحب کے ساتھ میرا تعلق کچھ ایسا ہی ہے-
اقبال کی طرف سے دیے گئے اس حیرت کے جھٹکے کے بعد اگلی بات جس نے مجھے
متحیر کیا وہ صحرائی صاحب جیسی شخصیت کی اس جگہ موجودگی تھی- وہاں بیٹھا ہر
شخص عام تھا اگر کوئی خاص تھا تو وہ صحرائی صاحب خود تھے- کم از کم میں نے
تو اپنی اب تک کی زندگی میں ایک خاص الخاص شخصیت کو یوں عام افراد کے ساتھ
گھلتے ملتے نہیں دیکھا- جو بات صحرائی صاحب جیسے مشہور و معروف انسان کے
لیے شجر ممنوعہ ہو سکتی تھی وہ اسی کی بیخ کنی کے لیے وہاں موجود تھے-
صحرائی صاحب کے عجز و انکسار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟
حاضرین نے بھی خوب حق ادا کیا- کسی کو احترام اور تعظیم دینے کا بہترین
مظاہرہ میں نے اس محفل میں دیکھا- علم و دانش والوں کی عزت حقیقی ہے باقی
سب تو بس دکھاوا ہے- سب ہمہ تن گوش اور صحرائی صاحب کی اک نظر التفات کے
منتظر تھے- صحرائی صاحب نے بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو اپنی
محبت بھری نظروں سے خوب نوازا- محترم علی صاحب نے افطاری کا بہترین انتظام
کیا تھا- بعد افطار و نماز مغرب سوال و جواب کی نشست شروع ہوئی- یہ نشست
صحرائی صاحب کے فلسفہ حیات کی عکاس تھی- اس نشست میں زندگی کے تمام اہم
ترین پہلوؤں پر صحرائی صاحب نے سیرحاصل گفتگو کی- محبت اور سادگی جیسے مثبت
پہلوؤں پر صحرائی صاحب نے اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں علم و حکمت کے
نگینے ہم میں تقسیم کیے- بقول صحرائی صاحب ہماری زندگی سے سکون غارت ہونے
کی بڑی وجہ ہمارے قلوب میں محبت کی جگہ نفرت کا لینا ہے- ہم معاشرے میں
محبت کی بالیدگی کی بجائے نفرت کے بیج بوتے ہیں نتیجتاً ہمارا خانماں خراب
ہے اور سکون سے عاری زندگی ہمارا مقدر ہے- " میرے پاس کئی ایسے لوگ آتے ہیں
جو ارب پتی ہیں مگر زندگی میں سکون نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں- میں ان سے
پوچھتا ہوں کہ ذرا غور کریں کہ آپ کی زندگی نفرت سے معمور تو نہیں- وہ کہتے
ہیں کہ حضور ہم نے تو ساری زندگی میں نفرت کے سوا اور کچھ کیا ہی نہیں-
رشتوں سے نفرت، لوگوں سے نفرت، نفرت ہی نفرت-"
سادگی پر صحرائی صاحب کے خیالات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں- آپ فرماتے ہیں کہ
ہم نے تکلفات کی وجہ سے اپنی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے- اگر ہم اپنے آباؤ
اجداد کے انداز حیات کا مطالعہ کریں تو انکی زندگیاں سادگی سے عبارت تھیں-
سادگی کا اعلیٰ ترین معیار ہمارے نبی آخرالزماں صل اللّٰہ و علی الہ وسلم
نے متعین کیا- جن لوگوں نے سادگی کو اپنایا انکی حیات بقعہ نور بن گئی- مگر
ہم بناوٹ کے اٹکل پچو کی وجہ سے اپنی زندگیوں کو عذاب بنائے ہوئے ہیں- ہم
نے سادگی کی جگہ زندگی میں تعیشات کو جگہ دی ہے- خواہشات کو ضروریات کا
درجہ دینے کی وجہ سے زندگی کا توازن بری طرح سے بگڑ گیا ہے- ہمارے خدشات
بھی ہماری ضروریات کی طرح کھوکھلے ہیں- کسی تقریب میں جانے سے پہلے ہم اس
فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کہیں میری پوشاک، میرا لباس اپنے کروفر میں
کسی سے مات نہ کھا جائے- معاملہ صرف لباس تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس
دکھاوے کے ناسور نے ہمارے تمام طرزِ زندگی کو متعفن کر دیا ہے-
عزت کے بارے میں صحرائی صاحب کے خیالات نے کافی متاثر کیا- لوگوں کی دی
ہوئی عزت جو کہ آپکے جاہ و حشم یا علم و حکمت کی وجہ سے ہوتی ہے کی کوئی
حقیقت نہیں- اسکے پیچھے بھاگنا صریح احمقانہ فعل ہے- یہ بات اچھی طرح ذہن
نشین کر لیں کہ لوگ آپ کی کبھی صحیح معنوں میں عزت نہیں کر سکتے- لہذا آپ
کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ کیا یہ فعل مجھے اللّٰہ کے ہاں عزت
دے گا یا نہیں- اللّٰہ کے ہاں عزت ہی اصل عزت ہے- جب ہم اس جملے کے سحر سے
باہر نکلیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے تب ہم ایک تعمیری زندگی بسر کرنے کے قابل
ہوں گے- اللّٰہ کے ہاں جو صحیح ہے وہی صحیح ہے اور اسی کے کرنے میں اللّٰہ
کے ہاں عزت ہے- لوگ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کہیں تو انکی سوچ کو درخور
اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے-
علمی محفل ہو اور اس میں عورت کا تذکرہ نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ اس محفل میں
عورت کے جس روپ کا ذکر ہوا اسے بیوی کہتے ہیں- صحرائی صاحب کی رگِ ظرافت
پھڑکی اور کہا کہ بیوی بوتل کے جن کی طرح ہے- اگر جن بوتل سے باہر آ گیا تو
پھر واپسی نا ممکن ہے-
انکی گفتگو اتنی دلچسپ تھی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا-
بہرحال ہر نشست ہر محفل کا اختتام تو ہوتا ہی ہے سو اس پرمغز محفل کا
اختتام بھی ہوا- صحرائی صاحب نے مجھ ناچیز کو اس قابل سمجھا کہ اپنی دستخط
شدہ کتاب "گونگے کا خواب" عنایت کریں- اس پر انکی لکھی عبارت "پیارے عمر
بھائی کے ذوقِ مطالعہ کے نام" میرے لیے ہمیشہ انتہائی مسرت کا باعث بنی رہی
گی- |