سب سے بڑا یو ٹرن!

(ماریہ سلیم)
ماضی پر تنقیدیں، حال میں تعریفیں یہی اندازِ حکومت رہا دہائیوں سے ہمارے ملک کا۔ ویسے تو خان صاحب یو ٹرن کے نام سے بہت واقف ہیں۔ لیکن کچھ یو ٹرن ایسے ہیں کہ جن سے عوام کے ذہنوں پر سوالیہ نشان اٹھ جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے یو ٹرن کے سب رکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان یو ٹرنز میں سے سب سے بڑا یوٹرن جس نے عوام کو عجیب کشماکش میں ڈال دیا ہے، وہ یو ٹرن کوئی اور نہیں بلکہ ایمنسٹی سکیم کا لیا گیا یو ٹرن ہے۔ ایمنسٹی کے تحت زیادہ تر ممالک میں ٹیکس کی شرح یا اس سے زیادہ ٹیکس کی وصولی کی جاتی ہے۔اس میں اثاثے اور ٹیکس ظاہر کرنے کا عمل کیا جاتا ہے۔ یوں تو یہ عمل ملک کی معاشی ترقی کا اہم راستہ ہے۔ کیونکہ اس سے لوگ اپنے ٹیکس مکمل طور پر ادا کریں گے لیکن ماضی میں اس سکیم کو تنقید کا نشانہ بنا دیا گیا۔
9 اپریل 2018 کو وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر میں کہا تھا کہ
'' ایمنسٹی سکیم دیانتدار ٹیکس گزاروں کے چہروے پرطمانچہ ہے،یہ سکیم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے مجرموں کو بچانے کی بھونڈی کوشش ہے۔''
انہوں نے مزید کہا تھا کہ
''ہم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے مجرموں کو بچانے کی بھونڈی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔''
9 اپریل 2018 کو تحریکِ انصاف نے حکومت کے اعلان کردہ ایمنسٹی سکیم کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔خان صاحب نے معاملہ ایوان میں بھرپور انداز سے اٹھانے کی ہدایت بھی کی۔ چیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ
''تحریک انصاف کے بخشش کی ایک اور حکومتی منصوبہ بندی مسترد کردی۔ ایمنسٹی سکیم مجرموں کو بچانے کے لئیے ایک اور کوشش ہے۔''
لیکن جیسا کہ روایت توڑنے سے پاپ ہوتا ہے، تو اس پاپ سے بچنے کے لئیے وزیراعظم صاحب نے یو ٹرن لینے کا فیصلہ لیا اور اس طرح اس سکیم میں یو ٹرن کا عملہوا۔ 21 مئی 2019 کو وزیراعظم صاحب کی گاڑی نے فل سپیڈ یو ٹرن لیا اور اسلام آباد میں وفاقی کابینہ نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی منظوری دے دی۔وزیراعظم کے زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران ٹیکس ایمنسٹی سکیم پر بریفنگ دی گئی اور کابینہ نے اتفاقِ رائے سے اس کی منظوری دے دی۔ مزید 22جولائی 2019 کو وزیراعظم نے قوم کو نام نشریاتی پیغام میں کہا تھا کہ
''ٹیکس چوری ختم کرنے کے لیے حکومت کو عوام کے تعاون کی ضرورت ہے، اثاثے ڈکلئیر کرنے کے لیئے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائیں۔''
مسلم لیگ کے دور میں پیش کردہ ایمنسٹی سکیم پر تحریکِ انصاف کے ترجمان فواد چودھری کا کہنا تھا کہ
''ایمنسٹی سکیم کا معاملہ سینٹ میں بھر پور انداز سے اٹھایا جائے گا اور اس سکیم کے خلاف قرارداد بھی لائی جائی گی۔''
انہوں نے مزید کہا تھا کہ
''یہ سکیم نہیں ملک کو لوٹنے والوں کو فری ہینڈ کا انعام ہے، منی لانڈرنگ کرنے والے حکمران اپنے جیسوں کو نواز رہے ہیں۔''
اس سلسلے مین مریم اورنگزیب نے کہا کہ
''عمران خان نے ٹیکس ایمنسٹی پر بھی یو ٹرن لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو مسلم لیگ (ن) کی ایمنسٹی سکیم کو نقل مارنے میں ۹ ماہ لگ گئے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ
''اب سارا لوٹا ہوا مال اور غیر قانونی جائیدادیں حالال ہو جائیں گی۔''
شہباز شریف صاحب نے کہا
''عمران خان یو ٹرن کے ماسٹر ہیں، جس ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کرتے تھے آج اسے ہی گلے لگا لیا۔''
مسلم لیک(ن) کی حکومت کو تحریک انصاف کرپٹ لوگوں کا دوست کہتی رہی ہے۔ انہوں نے بھی ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعرف کروائی تھی، جس پر موجودہ وزیراعظم اور وزیرِخزانہ نے کافی مخالفت کی۔ ان کے بیانات تھے کہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی دوبارہ تحقیقات کرائی جائیں گی اور ان پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
میں '' این آر او نہیں دونگا'' کہنے والے وزیراعظم نے اس سکیم کی منظوری دی۔ اس سکیم کے تحت وزیراعظم صاحب نے بے نامی اثاثوں پر 10 فیصد اور دیگر اثاثہ جات کی مالیت پر 7.5 فیصد کی وصولی پر کرپشن ختم کرنے کے این آر اوکی منظوری دے دی ہے۔ اقتدار سے قبل اسی ایمنسٹی سکیم کو کرپشن اور جرائم سے حاصل شدہ رقوم کو صاف شفاف کرنے کا آسان طریقہ کہتے رہے ہیں اور اس کی سخت مخالفت بھی کرتے تھے، اس سکیم کو حکمرانوں کے اپنے کرپٹ اور جرائم پیشہ دوستوں کی فیور کا نام دیتے رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعدیہ ایمنسٹی سکیم قوم کے لئیے فائدہ مند قرار دے دی گئی۔ اس پر ایک راحت اندوری کا ایک شعر یاد آتا ہے
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
اس صورتحال میں عوام کرے تو کیا کرے؟ عوام کے مطابق انہیں وزیراعظم کے لئیے گئے فیصلے میں مسلم لیگ (ن) کا عکس دکھائی دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب عوام مسلم لیگ (ن) کو صحیح بولے یا موجودہ حکومت کو؟ ایک طرف عوام نے تسلیم کیا کہ ایمنسٹی سکیم مجرموں کو بچانے کی کوشش ہے اور ایک طرف ہمارے وزیراعظم صاحب عوام سے ملتمس ہیں کہ اس سکیم سے فائدہ اٹھا کر ٹیکس چوری ختم کریں۔ تم کرو تو ٹھیک، ہم کریں تو عجیب؟ کا یہ عنصر موجودہ حکومت کے فیصلوں میں واضح دیکھائی دے رہا ہے۔
تنقید ہر دور میں ہر حکومت پر آپوزیشن نے کی اور پھر حکومت میں آتے ہی انہیں اپنی کی ہوئی تنقیدوں کو تعریفوں میں بدلنا پڑھا لیکن اس بات سے کسی نے استفادہ حاصل نہ کیا۔ پی ٹی آئی نے گزشتہ حکومت کو چند ماہ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے لیئے گئے کئی اہم فیصلوں کو مسترد کرتے رہے۔ لیکن آج پی ٹی آئی کو تنقید کردہ باتوں پرعمل کرنا پڑھ رہا ہے۔ ماضی میں جن باتوں کو غلط کہتے رہے، عوام کو اس کے خلاف اکٹھا کرتے رہے آج پی ٹی آئی کی حکومت کو انہیں باتوں پر عوام کو نہ گھبرانے کا حکم کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ ایمنسٹی میں مجرموں کو بچانے کی کوشش شامل ہے؟کیا موجودہ ایمنسٹی بھی ملک لوٹنے والوں کو فری ہینڈ دلوائے گا؟ وہ تنقید ہی کیا جو بعد میں تعریف بن جائے، ایسی تنقید میں عوام کس کا بھروسہ کرے؟ ا س کی جس نے تنقید کی یا اس کی جس پر تنقید ہوئی؟ پہلے تنقید پھر تعریف کا یہ عمل کب ختم ہوگا؟
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 48 Articles with 38369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.