جوں جوں حقائق منظر ِ عام پر آرہے ہیں کلیجہ منہ کو
آرہاہے کہ جن کی کامیابی کے لئے عوام اﷲ کے حضور گڑگڑاکردعائیں مانگتے رہے
انہی نے پاکستان کو گدِھوں سے بھی بدترین اندازمیں نوچا اس ملک کے
غریبوں،مزدوروں کسانوں اور محرومیوں کاشکار عوام کے نام نہاد لیڈروں نے
اقتدارمیں آکر اپنے لئے دولت کے پہاڑاکھٹے کرلئے عوام کے وہی مسائل اور
محرومیاں ہیں جو 40-35سے پہلے تھیں دو تین نسلیں ان کے حق میں نعرے لگاتے
اگلے جہاں پہنچ گئیں ان کے بچوں کے بچے ارب کھرب پتی بن گئے لیکن عام آدمی
کی حالت اور ملک کے حالات نہیں بدلے پھر بے چارے عوام ہرراہزن کو رہبرجان
کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں لیکن محرومیاں جان نہیں چھوڑتیں بہرحال جب سے
تبدیلی سرکار اقتدارمیں آئی ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’ اعصاب شکن
جنگ‘‘ جاری ہے جس نے اب شدت اختیار کر لی ہے حکومتی ترجمان ہر روز اپوزیشن
کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں اور الزام تراشی میں ایک دوسرے س کومات دینے
کی کو شش کرتے ہیں جبکہ اپوزیشن کے ’’کرتا دھرتا ‘‘ بھی حکومت کو جواب دینے
کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اس محاذ آرائی میں وفاقی کابینہ کے فیصلے پس
منظر میں چلے جاتے ہیں کارکردگی کی جگہ سیاسی بیانات لے لیتے ہیں حکومت اور
اپوزیشن کے درمیان شکوہ ،جواب ِ شکوہ کاطرزِ عمل لیمانی ماحول پر منفی
اثرات مرتب کررہاہے ہیں ایک اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن
کے رہنما ٹی وی سکرین پر ایک دوسرے کے خلاف اچھل اچھل کر باتیں کرتے ہیں
لیکن پروگرام ختم ہونے کے بعد باہم ’’شیرو شکر‘‘ ہو جاتے ہیں کئی ماہ حکومت
نے اپوزیشن کو ’’چور ڈاکو ‘‘ کہنے کا وطیرہ اپنایا ہوا ہے اور اپنی
کارکردگی بیان کرنے کی بجائے سارا زور اس بات پر لگا رہی ہے کہ تمام مسائل
کی جڑ اپوزیشن کی ’’کرپشن‘‘ ہے اپوزیشن نے یہ’’ بیانیہ‘‘ اختیار کر لیا ہے
کہ موجودہ حکومت نالائق ہے اور تمام مسائل کی ذمہ دار ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ
محاذ آرائی کسی وقت بھی تصادم کی شکل اختیار نہ کر جائے کچھ قوتیں موقع کی
تاڑمیں ہے جن سے ہم سب کو خبرداررہنے کی ضرورت ہے حکومت نے بھی سوچ رکھاہے
اس نے سابقہ حکمرانوں کو چین سے نہیں رہنے دینا شاید اسی لئے وفاقی کابینہ
نے گذشتہ 10 سالوں کے دوران ایک مقروض ملک کے سابق صدور آصف علی زرداری،
ممنون حسین، سابق وزرائے اعظم محمد نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز
اشرف اور شاہد خاقان عباسی کی سکیورٹی، انٹرٹینمنٹ اور کیمپ آفسز پر عوام
کے پیسے کو بیدردی سے خرچ کرنے کی روش پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
فیصلہ کیا ہے کہ ان حکمرانوں کی عیاشیوں اور شاہانہ اخراجات پر صرف ہونے
والے عوام کے ٹیکس کے پیسے کی وصولی کی جائے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہم
قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ کس طرح سابقہ دور میں مغلیہ خاندان نے ملک کو
لوٹا، گزشتہ 10 برسوں میں سکیورٹی کیمپ آفسز کے قیام پر قوم کا بے دریغ
پیسہ خرچ کیا گیا، ایک مخصوص خاندان کا ظل سبحانی طرز ِ عمل کی باعث کس طرح
ملک کی کمزور معیشت قرضوں میں کمر کمر ڈوب گئی مظلوم عوام کے ساتھ کہاں
کہاں نا انصافیاں ہوئیں اور کس طرح یہ مغلیہ خاندان قوم کے پیسہ پر شاہانہ
انداز سے زندگی گزارتا رہا، تو اس کے ساتھ تمام حقائق جڑے ہیں، یوسف رضا
گیلانی، راجہ پرویز اشرف، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور اس کے ساتھ
ممنون حسین کیا گل کھلاتے رہے حالات کچھ یوں ہیں کہ ۔سابق وزیراعظم یوسف
رضا گیلانی کے 5کیمپ آفسز تھے،تین کیمپ آفسز لاہور اور 2ملتان میں
تھے،زرداری قوم کو بہت بھاری پڑا، اس نے سکیورٹی پر 316 کروڑ روپے سے زائد
خرچ کئے۔اس کے دو کیمپ آفسز لاڑکانہ ، نوڈیرو میں موجود ہیں،انہوں نے ملک
کا پیسہ سیکیورٹی کے نام پر اور انٹر ٹینمنٹ کے نام پر خرچ کیا۔تین
کروڑ27لاکھ18ہزار دو کیمپ آفسز رکھے یہ اس دور کی بات ہے جب زرداری صدر تھا
،ان کی سیکورٹی کی گاڑیاں 2015میں246 گاڑیاں رکھی تھیں۔ نواز شریف امریکہ
گئے تو ان کے وزٹ کا خرچہ4لاکھ60ہزار ڈالرتھا تو یہ ایکسٹرا خرچ تھا جبکہ
60ہزار ڈالر میں عمران خان امریکہ کا دورہ کر کے آجائیں گے۔ نواز شریف علاج
کیلئے باہر گئے تھے تو3لاکھ 27ہزارڈالر ان کے علاج میں خرچ ہوئے تھے تو یہ
سارا پیسہ پاکستانی قوم کے ٹیکس سے ادا کیا گیا تھا۔ ۔ فکسنگ کے اوپر
24کروڑ50لاکھ سے اوپر خرچہ ہو گیا۔سیکیورٹی کیمرہ پر6کروڑ66لاکھ 61ہزار
روپیہ خرچ کیا گیا ، سیکورٹی پر قوم کے پیسہ سے اداکیا گیا اور کل خرچہ
سیکورٹی پر431کروڑ43لاکھ روپیہ پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسہ سے ادا کیا
گیا۔ نواز شریف 24کروڑ رائیونڈ کی خصوصی بیٹھک قوم کے پیسہ سے بنائی جس کا
نیب میں کیس چل رہا ہے اس کے برعکس عمران خان کے گھر کی سڑک انہوں نے ذاتی
پیسہ سے بنی۔ عمران خان کا کوئی کیمپ آفس نہیں ہے ، عمران خان خود وزیر
اعظم ہاؤس نہیں رہتے ، عمران خان بنی گالہ رہتے ہیں اور اپنا خرچہ خود
اٹھاتے ہیں اور باہر جاتے ہیں تو پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہیں جبکہ مراد سعید
کا کہنا ہے بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اﷲ۔ شہباز شریف کے
اخراجات میں872کروڑ 69لاکھ59ہزار قوم کا پیسہ اپنی سیکورٹی پر خرچہ گیا ان
کے نصف درجن سے بھی زیادہ کم آفسز تھے جہاں سینکڑوں سرکاری ملازم ڈیوٹی
انجام دے رہے تھے حکمرانوں نے اپنی تمام گھروں،کئی کئی بیوبوں کی رہائش
گاہوں کو کیمپ آفس ڈکلیئرکررکھا تھا وہاں ہونے والے تمام اخراجات سرکاری
خزانے سے ہوتے تھے حتی کہ پانی (منرل واٹر) اور چائے بھی عوام کے ٹیکسزسے
پی جاتی تھی 872کروڑ 26لاکھ95ہزار کل خرچہ ہے۔مراد سعید کا یہ بھی کہنا ہے
کہ شریف خاندان کی بیگمات اور دامادوں کیلئے الگ الگ سیکیورٹی تھی۔ ایک
نااہل شخص کی سیکورٹی پر قوم کے اروں پیسے خرچ کئے گئے۔ شریف خاندان کے
سیکورٹی کیلئے2717پولیس اہلکار تعینات تھے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی
نقل و حرکت پر اخراجات 60فیصد کم ہوئے،وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی
سکیورٹی اخراجات میں 85.6فیصد کمی آئی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ
مافیا منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک دولت کا تحفظ چاہتا ہے۔سماجی رابطے
کی ویب سائٹ ٹوئٹرپروزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ سسیلین مافیا کی طرح
پاکستانی مافیا بھی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے اورریاستی اداروں اورعدلیہ
پردباؤ ڈالا جارہا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستانی مافیا رشوت،
بلیک میلنگ، دھمکیاں دے رہا ہے جب کہ مافیا منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک
دولت کا تحفظ چاہتا ہے جبکہ فردوس عاشق اعوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ
ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ شاہد خاقان عباسی کا چیلنج قبول ہے۔ چوری
کا کھرا برطانیہ جا رہا ہے، ابھی اور ملکوں میں بھی جائے گا، اور انکشافات
ہونے ابھی باقی ہیں۔ انہوں نے کہا پہلی حکومت ہے جو چوروں کو گھر تک
پہنچارہی ہے۔چوری اور سینہ زوری اب نہیں چلے گی۔لوٹا مال واپس کرنا پڑے
گا۔یہ 22 کروڑ عوام کا مقدمہ ہے۔ انہوں نے کہا شاہد خاقان صاحب! شہباز شریف
جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ انہوں نے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا تھا لیکن
گلے لگا لیا۔ دھیلے کی کرپشن ثابت ہونے پر سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کیا
تھا،چھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہ ہونے پر نام بدلنے کا وعدہ بھی
بھول گئے تھے۔موجودہ حکمرانوں کے بارے میں حقائق اس وقت سامنے آئیں گے جب
وہ اپوزیشن میں ہوں گے حکمرانی کے دور میں کوئی سچ بولناپسندنہیں کرتا یہی
تاریخ کا المیہ ہے کہ ہمیشہ با اختیارلو گ سورج مکھی کے پھولوں کے حصارمیں
رہتے ہیں اپوزیشن میں آکر ان کے دل میں عوام سے ہمدردی کے مروڑاٹھنے لگتے
ہیں پون صدی سے عوام کے ساتھ یہی کھیل تماشے ہورہے ہیں عوام کے اختیارمیں
کچھ نہیں وہ بے اختیارکے بے اختیارہیں حکمران نہیں چاہتے کہ عام آدمی کا
سماجی سٹیٹس بہترہو عام آدمی کی حالت اور حالات بہترہوجائے تو حکمرانوں کے
حق میں نعرے کون مارے گا؟۔
|