لوک سبھا انتخابی نتائج کے بعد مبصرین کرام نے بی جے پی
کی کامیابی کو سمراٹ مودی کے ذریعہ ذات پات کے خاتمہ کا شاخسانہ قرار دے
دیا۔ اخبارات اورٹیلی ویژن پر یہ بھرم پھیلایا گیا کہ مودی جی نے ہندو سماج
سے ذات پات کی تفریق کا قمع قمع کرکے اسے مسلمانوں کے خلاف متحد کردیا ہے۔
اس کھوکھلے دعویٰ کی پول بریلی کی بتھری چین پور سیٹ سے رکن اسمبلی راجیش
مشرا عرف پپو بھرتول کی بیٹی ساکشی مشرا نے دلت نوجوان سے شادی کرکے کھول
دی ۔ ساکشی کا شوہر اجیتیش اگر مسلمان ہوتا تو اسے ‘لوجہاد’ کا نام دے کر
ہنگامہ کھڑا کرنا بہت آسان تھا۔ اس سے یوگی جی کی رومیو بریگیڈ کو دنگا
فساد کرنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آجاتا اور بعید نہیں کہ ساکشی کے خاوند
کے علاوہ پورے مسلم سماج کو لعن طعن بلکہ ظلم و جبر کا شکار کیا جاتا ۔ اس
طرح ہنگامہ کرنے والے پاکھنڈی دیش بھکت یہ بھول جاتے ہیں بی جے پی کے اندر
ہندو بیوی رکھنے والے مسلمان کی خاص پذیرائی ہوتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے
ساتھی سکندر بخت ہوں یا شاہنواز حسین دونوں کی بیویاں ہندو ہیں اور مودی جی
کے منظور نظر مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کی اہلیہ سیما نقوی کا بھی یہی
حال ہے ۔ یہ لوگ سڑکوں پر ہنگامہ کرنے کے بجائے اپنے رہنماوں کو کیوں نہیں
سمجھاتے؟بلکہ ایسے لوگوں کو اپنی حکومت میں وزارتوں سےکیوں نوازتے ہیں؟
وطن عزیز میں ذات پات کی جڑیں کس قدر گہری ہیں اس کا اندازہ ساری دنیا کو
اس وقت ہوا جب ایک رکن اسمبلی کی بیٹی ساکشی ٹیلی ویژن کے پردے پر پھوٹ
پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا گیا ۔ وہ دہائی دے رہی تھی کہ میں نے غلطی تو کی
ہے، لیکن ایسے حالات ہو گئے تھے۔ اس لئے مجھے ایسا کرنا پڑا۔ پاپا مجھے
معاف کر دینا۔ سوال یہ ہے ذات پات کی دیوار اگر گر گئی ہے تو ساکشی نے
اجیتیش کےساتھ بیاہ رچا کر کون سی غلطی کی؟ اور وہ معافی کس لیے مانگ رہی
ہے؟ اس سے قبل نو بیاہتا جوڑے کے دو ویڈیو وائرل ہوئے تھے، جس میں سے ایک
میں ساکشی نے بریلی کے سینئر پولیس افسر سے گزارش کی تھی کہ انہیں اپنے رکن
اسمبلی باپ راجیش مشرا، بھائی وکی مشرا اور والد کے ایک ساتھی سے جان کا
خطرہ ہے۔ ایسے میں انہیں اور ان کے شوہر کو سکیورٹی دی جائے۔ساکشی نے یہ
سنگین الزام لگایا تھا کہ یہ سبھی لوگ ملکر ان کا اور ان کے شوہر کا قتل
کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات ہے کہ ایک بیٹی علی الاعلان اپنے باپ
سے قتل کا خدشہ ظاہر کررہی ہے۔ ساکشی نے اپنے باپ کے خلاف بریلی کے رکن
پارلیمان اور دیگر وزراء سے اپیل کی کہ وہ ان کے والد، بھائی اور والد کے
ساتھی کی مدد نہ کریں۔ کیا یہی ذات پات کا وہ خاتمہ ہے جس نے بی جے پی کو
انتخاب میں کامیاب کیا؟
یہ قدرت کا عجیب انصاف ہے کہ ایک ایسے دور میں جب مرکز کے اندر بلا واسطہ
ہندو راشٹر کے قیام کا اعلان کیا جارہا ہے ۔ اتر پردیش جیسے صوبے میں جہاں
یوگی ادیتیہ ناتھ جیسا بھگوادھاری راجپوت وزیر اعلیٰ کے عہدے پرفائز ہے ایک
براہمن کی بیٹی ساکشی مشرا سنگھ پریوار کے پاکھنڈ کو تار تار کردیا۔ ساکشی
مشرا اپنے والد راجیش مشرا کے حوالے سے کئی انکشافات کیے جس سے سنگھ کے
رہنماوں کا چال، چرتر اور چہرہ بے نقاب ہوجاتاہے۔ ساکشی بولی وہ اسے فیس بک
چلانے سے منع کرتے تھے۔ وہ بہت زیادہ کان کے کچے ہیں۔ میرے گھر میں کہنے کو
لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق اور تفریق و امتیاز نہیں ہے لیکن عملاً ہم
تینوں بھائی اور بہن کے درمیان تو بھید بھاؤ ہوتا ہے۔۔ جس سنگھ پریوار کے
رہنما اپنی بیٹی کو انصاف نہیں دے سکتے بلکہ اس کوجان سے مارنے کی دھمکی
دیتے ہیں ان سے غیرعدل و مساوات کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟
ساکشی مشرا نے اجیتیش کمار کے ساتھ پریاگ راج کے رام جانکی مندر میں شادی
کی لیکن اس مندر کے مہنت پر دباو ڈال کر شادی کا انکار کروایا جارہاہے
حالانکہ نوبیاہتا جوڑے کے پاس مندر کا جاری کردہ دستاویز ہے لیکن مہنت جی
فرماتے ہیں ‘‘ ہمارے یہاں کوئی شادی ہوتی ہی نہیں ہے۔ پتہ نہیں، یہ لوگ
کیسے اور کہاں سے کہہ رہے ہیں ؟’’۔ اس مندر اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے جس
کا اس مہنت کوعلم نہیں ہے؟ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک بیٹی کو اپنے
والد سے تحفظ کی خاطر عدالت سے رجوع کرنا پڑا ہے ۔ اس کے شوہر کو نیایہ
مندر میں زدوکوب کیا جاتا ہے۔ پولس ظالموں کو سزا دینے کے بجائے معاملہ رفع
دفع کرنے کے لیے کہتی ہے فریق وکلاء کے درمیان حجت ہوگئی تھی کسی کو مارا
پیٹا نہیں گیا۔ عدالت کے اندر بھی اگر کوئی مدعی پولس کے ساتھ اس ناروا
سلوک سے دوچار ہوجائے تو باہر اس کے لیے عدالت کا عطا کردہ پولس تحفظ کس
کام کا ہے ؟
ساکشی مشرا نے مودی سرکار کی بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو کے بلند بانگ دعویٰ
کی بھی قلعی کھول دی ۔ اس نے روتے ہوئے اپنی ماں سے کہا کہ آپ بیٹا اور
بیٹی کو ایک جیسا دیکھیں۔ آپ لوگ اپنی سوچ بدلیں ۔ چھوٹی بہن بہت باصلاحیت
برائے مہربانی اسے آگے بڑھنے دیں۔ساکشی مشرا نے اپنے والد کے بارے میں
بتایا کہ وہ اسے فیس بک چلانے سے بھی منع کرتے تھے۔اس نے اپنے بھائی وکی
بھرتول کو غیرت دلاتے ہوے کہا کہ تم میرے لئے فیس بک پر پوسٹ لکھ رہے ہو۔
اس پر میرے لئے بہت گندی گندی باتیں لکھی جاتی ہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے
میں تمہاری بہن ہوں۔ تم میرے لئے کیا اتنا بھی نہیں کر سکتے ہو کہ ان لوگوں
کو منع کرو؟ اس معاملے باپ اپنی بیٹی کا اور بھائی اپنی بہن کا دشمن بنا
ہوا ہے۔ ساکشی مشرا نے اپنے بھائی سے سوال کیا کہ تم دوسری ذات کے لڑکے،
لڑکیوں سے دوستی کرتے ہو تو کوئی دقت نہیں ہے۔ تو اگر میں نے کر لیا تو کیا
ہو گیا؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کاا حترام کیا جاتا ہو یہ استفسار
بامعنیٰ ہے لیکن جہاں عورتوں کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو اس فریاد پرکوئی کان
نہیں دھرتا ۔ بس کھوکھلے نعرے لگتے ہیں ‘‘بہت ہوا ناری پر اتیاچار ، اب کی
بار مودی سرکار’’۔ ایسے میں یہ ماننا پڑے گا کہ ساکشی مشرا اور اجتیش کمار
نے ذات پات کی دیوار گرا کر مودی اور یوگی کی شئے پر مات دے دی ۔
|