حج کے فضائل و مسائل

حج کیا ہے؟:اسلام کے جو پانچ ارکان ہیں ان میں ایک اہم رکن ’حج‘ ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں، مخصوص فعل سے، مخصوص مکان کی زیارت کرنے کو حج کہتے ہیں۔ (تاتارخانیہ، عمدۃ الفقہ)

فرضیتِ حج:قرآن کریم میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا گیا: لوگوں پر اﷲ کا حق، یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر (کعبہ بیت اﷲ) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے، اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اﷲ بھی اہل ِ عالم سے بے نیاز ہے۔(آل عمران)حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ حج ایک مرتبہ ہر اس مسلمان پر فرض کیا گیا ہے جس میں حج کے شرائط پائے جاتے ہوں۔ (تا تارخانیہ، لباب المناسک)

حج کے فضائل: حج کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں،بطور نمونہ ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو ہرہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص رضاء الٰہی کے لیے حج کرتا ہے، اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ حج کے بعد اپنے گھر، گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر واپس لوٹے گا، جس طرح پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک، دنیا میں آیا تھا۔ (بخاری)
حج میں تاخیر اور کوتاہی پر وعید: جس طرح حج کرنے پر فضائل کی کثرت ہے، اسی طرح اس عظیم ترین عمل سے کوتاہی برتنے پر سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص باوجود استطاعت کے، حج نہ کرے، اﷲ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ (ترمذی)

حج کس پر اور کب فرض ہوتا ہے؟:ہر اس شخص پر حج فرض ہوجاتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اتنا مال عطا فرمایا ہو جس سے وہ اپنے وطن سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے اور وہاں کے اخراجات پر قادر ہو، اور واپس آنے تک اپنے اہل و عیال اور بیوی بچوں وغیرہ کے مصارف بھی بہ آسانی برداشت کرسکتا ہو اور راستے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو۔ مثلاًحکومت کی طرف سے سفر کی منظوری، ویزا،سواری اور ٹکٹ کی فراہمی اور دشمن وغیرہ کے خطرات سے مامون ہو، وغیرہ۔ ان تمام سہولیات کے ساتھ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہوتا ہے۔ (شامیہ، انوارِ مناسک)

عورت اور حج؟:عورت پر حج فرض ہونے کے لیے ذاتی صرفہ کے علاوہ ساتھ میں جانے والے محرم کا سفرِ خرچ بھی میسر ہونا لازم ہے، ورنہ عورت پر حج فرض نہیں ہوگا۔ یہ حکم اس وقت ہوگا جب کہ اس عورت کا یہ سفر، شرعی سفر یعنی ۳؍ دن یا اس سے زیادہ مسافت کا ہو۔عورت کے ساتھ اس کا شوہر سفرِ حج پر جائے گا یا اس عورت کا کوئی محرم۔ لہٰذا! اگر محرم یا شوہر عورت کے ساتھ سفر کے لیے میسر نہ ہو تو عورت پر حج فرض نہیں ہوگا۔ اگر مسافت شرعی مسافت سے کم ہوتو اس عورت کو بغیر محرم کے یا بغیر شوہر کے بھی حج کے لیے جانا فرض ہے، البتہ! اگر کسی فساد وغیرہ کا اندیشہ ہو تو پھر اس شرعی مسافت سے کم میں بھی عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے سفر کرنا مکروہ ہے۔ملا علی قاریؒ نے فرمایاکہ اس زمانے کے لوگوں کے فساد کی وجہ سے اسی قول پر فتویٰ دیا جائے گا۔ (تاتارخانیہ، اللباب المناسک، زبدۃ المناسک)

حج کے فرض ہونے کی شرطیں: حج ہر اس مرد، عورت پر عمر میں ایک مرتبہ فرضِ عین ہے، جس کے اندر مندرجہ ذیل شرائط مکمل طور پر پائی جاتی ہوں:(۱) مسلمان ہونا(۲) عاقل ہونا (۳) بالغ ہونا(۴) آزاد ہونا (۵) حج کی استطاعت ہونا (۶) حج کا وقت ہونا۔ (تاتارخانیہ)

حج کے ارکان: حج کے دو رکن ہیں: (۱) طواف زیارت (۲) وقوف عرفہ۔ ان دونوں میں زیادہ اہم اور اقویٰ وقوفِ عرفہ ہے۔ (معلم الحجاج)

حج کے فرائض: حج کے اصل فرض تین ہیں۔ان تینوں فرضوں میں سے اگر کوئی چیز چھوٹ جائے تو حج صحیح نہیں ہوگا اور اس کی تلافی دم یعنی قربانی وغیرہ سے بھی نہیں ہوسکتی۔ ان تینوں فرائض کا ترتیب وار ادا کرنا اور ہر فرض کو اس کے مخصوص مکان اور وقت میں ادا کرنا بھی واجب ہے:(۱) احرام یعنی حج کی دل سے نیت کرنا اور تلبیہ: لَبَّیْکَ اَللّٰھَمَّ لَبَّیْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمَلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَکپڑھنا (۲) وقوفِ عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ کی صبح صادق تک، عرفات میں کسی وقت ٹھہرنا، اگرچہ ایک ساعت ہی ہو۔وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کا ترک کرنا بھی واجب ہے، بلکہ فرائض کے ساتھ ملحق ہے (۳) طوافِ زیارت کرنا، جو دسویں ذی الحجہ کی صبح سے بارہویں ذی الحجہ کے درمیان، سرکے بال منڈوانے یا کتروانے کے بعد کیا جاتا ہے۔ (تاتارخانیہ، معلم الحجاج)

حج کے واجبات : واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کچھ چھوٹ جائے تو حج ہو جائے گا، خواہ قصداً چھوڑا ہو یا بھول کر چھوٹ گیا ہو، لیکن اس کی جزا یعنی قربانی دینی ہوگی۔ حج کے واجبات بلاواسطہ صرف یہ چھے ہیں:(۱) مزدلفہ میں وقوف کرناخواہ تھوڑی دیر ہو، اور اس کا وقت ۱۰؍ ذی الحجہ کی صبحِ صادق اور طلوعِ شمس کے درمیان ہے۔ اس کو ترک کر دینے سے دم واجب ہوتا ہے(۲) صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا، اس کے ترک کردینے سے بھی دم واجب ہوتا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ سعی واجب اور حضرت امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک یہ رکن اور فرض میں داخل ہے(۳) رمیِ جمرات یعنی قربانی کے دنوں میں ۳؍ مرتبہ شیطان کو کنکریاں مارنا۔ کسی نے ایک دن کی رمی ترک کردی ہو یا تینوں دن کی، ایک ہی دم واجب ہوتا ہے (۴) قارن و متمتع کا قربانی کرنا۔ لہٰذا اگر قربانی کے بغیر احرام کھول دیا تو دم لازم ہوگا (۵) حلق یعنی سر کے بال منڈانا (مَردوں کے لیے) یا تقصیر یعنی بال کتروانا۔ اگر کوئی حلق یا قصر کیے بغیر احرام کھول دے گا تو دم لازم ہوگا (۶)طوافِ وداع یعنی آفاقی پر وطن روانہ ہوتے وقت طوافِ و داع کرنا واجب ہے۔ اس کے ترک سے دم واجب ہوگا۔ (معلم الحجاج:89)

حج کی سنتیں:سننِ مؤکدہ کا چھوڑنا مکروہ اور نہایت برا ہے، بہ شرط یہ کہ بالقصد چھوڑ دے۔ مگر اس پر دم یا صدقہ وغیرہ نہیں دینا پڑتا ہے۔حج کی سنتیں حسبِ ذیل ہیں:(۱) مفرد آفاقی اور قارن کو طوافِ قدوم کرنا (۲) طوافِ قدوم میں رمل کرنا یعنی طوافِ کے پہلے تین چکروں میں اکٹر کر تیز چلنا، اگر طوافِ قدوم میں رمل نہ کیا ہو تو پھر طوافِ زیارت یا طوافِ و داع میں رمل کرنا (۳) امام کو تین مقامات پر خطبے پڑھنا؛ ایک مکہّ معظمہ میں ذی الحجہ کی ساتویں تاریخ کو، دوسرا عرفات میں حج کے دن زوال کے بعد اور ظہر کی نماز سے پہلے مسجدِ نمرہ میں، تیسرا منیٰ میں گیارہویں تاریخ کو(۴) مکّہ معظمہ سے ۸؍ ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد عرفات کی طرف جانا(۵) منیٰ میں ۸؍ ذی الحجہ کی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء اور نویں تاریخ کی فجر پڑھنا(۶) نویں ذی الحجہ کو طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات جانا(۷) عرفات پر وقوف کے لیے غسل کونا(۸) عرفات سے امام کے نکلنے کے بعد نکلنا (۹) مزدلفہ میں عرفات سے واپس آتے ہوئے رات کو ٹھہرنا (۱۰) مزدلفہ میں پوری رات رہنا (۱۱) سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کی طرف لوٹنا(۱۲) منیٰ سے واپسی میں محصّب میں ٹھہرنا اگرچہ ایک ساعت ہو(۱۳) حج کی رات میں منیٰ میں رہنا (۱۴) گیارہویں، بارہویں اور تیرہوں ذی الحجہ کی راتیں- اس شخص کے لیے جو تیرہویں کو رمی کرنا چاہے- منیٰ میں رہنا سنت ہے۔ (زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک، معلم الحجاج)

حج کے مستحبات: مستحب کا حکم یہ ہے کہ ان کے کرنے والے کو زیادہ اجر ملتا ہے، مگر سنتِ مؤکدہ سے کم ہے اور اس کے ترک کرنے سے فدیہ نہیں دینا پڑتا۔ حج کے مستحبات بہت سے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں: (۱) مرد کو بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور عورت کو آہستہ(۲) حجِ افراد کرنے والے کو قربانی کرنا (۳) مکّہ معظمہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا(۴) مزدلفہ میں آنے کے لیے غسل کرنا۔ مکّی ہو یا غیر مکّی(۵) عرفات میں جبلِ رحمت کے نزدیک رہنا (۶) عرفات پر امام کے ساتھ ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھنا (۷) تلبیہ کی کثرت کرنا(۸) عرفات پر کثرت سے دعا کرنا (۹) مزدلفہ میں عید کے روز فجر کے وقت مشعرِ حرام میں وقوف کرنا(۱۰) فجر کی نماز بھی مشعرِ حرام میں جاکر پڑھنا (۱۱) مزدلفہ میں فجر کی نماز اندھیرے کے وقت میں پڑھنا (۱۲) منیٰ میں پہنچتے ہی دسویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد جمرۂ عقبہ کی رمی کرنا۔(زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک)

حج کی قسمیں:حج کی تین قسمیں ہیں؛ (۱) افراد: فقط حج کا احرام باندھنا، اسے ’افراد‘ کہتے ہیں(۲) قران: حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باھنا، اسے ’قران‘ کہتے ہیں(۳) تمتّع: اوّل حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا، پھر گھر لوٹے بغیر اسی سال حج کا احرام باندھ کر حج کرنا، اسے ’تمتّع‘ کہتے ہیں۔ حج کی تینوں قسمیں جائز ہیں، مگر حنفیہ کے نزدیک سب سے افضل قران ہے، اس کے بعد تمتّع ، اس کے بعد افراد۔(معلم الحجاج)
٭٭٭٭
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347075 views (M.A., Journalist).. View More