نعیم صدیقی
وزیراعظم عمران خان اپنا دورہ امریکہ مکمل کر کے واپس آگئے ہیں۔ یہ بہت ہی
خوش آئند بات ہے کہ عمران خان نے مسلہ کشمیر کا ذکر اولین ترجیع کے طور پر
کیا جس کے جواب میں امریکی صدر نے اس مسئلہ پر ثالثی کی پیشکش کی اور
بھارتی وزیراعظم سے بات کرنے کا کہا ہے امرکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارتی
وزیراعظم نریندر مودودی نے بھی ان سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر
کے حل میں ان کی مدد کریں۔اس بات پر بھارت کے میڈیا اور حکومتی ایوانوں کے
ساتھ ساتھ اپوزیشن نے بھی امریکی صدر کے بیان کو رد کر دیا تھا اور کہا تھا
کہ ڈونلڈ ٹرمپ ضھوٹ بول رہے ہیں لیکن اب جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ
امریکی صدر نے جو بات کی وہی سچ ہے۔اب جب کہ صورت حال واضع ہو چکی ہے تو
دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کشمیر کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کرتا ہے کیونکہ
پاکستان کی اولین ترجیع ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل فوری طور پر ہونا لازم ہے
کیونکہ یہ ایک ایسا سلگتاہوا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا امن داؤ
پر لگا ہوا ہے اور ہمارے اس خطے میں بسنے والے کم و بیش ایک ارب پچاس کروڑ
لوگ اس سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر پر غاصبانہ
قبضے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کا حل مشکل ہو تا جا رہا ہے۔اب جب کہ امریکی
صدر نے پاکستانی حکومت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی
کے لیے تیار ہیں تو اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودودی کی جانب سے اس حوالے
سے کیا بات سامنے آتی ہے۔ کشمیر کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر
کے ساتھ تجارت کے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی بات کی ہے جن میں
انفارمیشن ٹیکنالوجی،انفراسٹرکچر،تیل اور گیس کے شعبے شامل ہیں۔وزیراعظم نے
امرکی سرمایہ کاروں کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کریں ۔انھوں نے
سرمایہ کاری میں دلچپی لینے والوں کو بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ایک
آئیڈیل صورتحال ہے جس میں امریکی سرمایہ کار کسی بھی رکاوٹ اور مشکل کے
بغیر اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے سرمایہ کاری کی خواہش رکھنے
والوں نے صحت کے شعبے میں جدید خطوط پر سرمایہ کاری کرنے میں آمادگی کا
اظہار کیا ہے۔اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے اگر امریکی سرمایہ کار پاکستان
میں صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے ہمارے ہاں علاج معالجے
کا معیار بہت بہتر ہو گا اور اس میں تحقیق کا عمل آگے بڑھے گا۔میرا خیال ہے
کہ اس دورہ سے پاکستان کو فوری طور پر جو فائدہ ہوا ہے وہ کشمیر کا اشو ہے
جس میں ایک دم تیزی آئی اور ساری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول ہو گئی ہے اب
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہماری حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس اہم ترین
مسئلے کو پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھایئں اور جب تک یہ مسئلہ کشمیری عوام کی
امنگوں کے مطابق اپنے حل کی جانب نہیں جاتا ہمیں اس پر پوری ذمہ داری کے
ساتھ بات کرتے رہنا ہوگی اور بھارت نے ظلم کا جو بازار مقبوضہ کشمیر میں
گرم کر رکھا ہے اس کے بارے میں عالمی برادری کو حقائق کے ساتھ آگا ہ کرنا
ہوگا۔بھارت کی قابض فوج نے کشمیر کے نہتے ؛لوگوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔
مقبوضہ وادی میں زندگی کے تمام شعبے تباہی کا شکار ہیں جب تک بھارتی فوج
مقبوضہ وادی سے بے دخل نہیں ہو جاتی اس وقت تک کشمیر کے حالات میں بہتری
ممکن نہیں ہے۔:عمران خان نے امریکہ میں قیام کے دوران یہ بیان بھی دیا کہ
اگر بھارت ایٹمی ہتھیار تلف کرے تو پاکستان بھی ایسا کرنے کو تیار ہے۔اس
بیانکے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں جن کا ازالہ کرنا حکومت
کا کام ہے۔بھارت انتہائی مکار اور چالاک دشمن ہے جس نے آج تک پاکستان کو
نیک نیتی کے ساتھ تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پاکستان کو ہر لحاظ سے نقصان
پہنچانے کی سازشوں میں لگا رہتا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کا جال پھیلانے
میں بھارت کا ہمیشہ ہاتھ رہا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کی تجارت ،معیشت اور
عالمی سطح پر سفارتی تعلقات کو بہت زیادہ دھچکا لگا یہی وجہ ہے کہ آج تک
پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ہمیں سب سے پہلے دیکھنا ہو گا کہ
بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات تجویز کرتا ہے
اور ان پر کس حد تک عمل درآمد کرتا ہے۔پاجستان نت سمجھوتہ ایکسپریس اور
کرتار پورہ راہداری کے لیے جتنا تعاون اور کام کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل
ہے اس کے باوجود بھارت کی جانب سے مثبت جواب نہیں آتا اور پاکستان کے
بہترین اقدامات کی تعریف کرنا ان کو گوارا نہیں ہے۔دیکھا جائے تو بھارت اور
پاکستان میں بسنے والے ایک ارب اور چالیس کروڑ انسانوں کی زندگی سب سے
زیادہ اہم ہے۔ان کے لیے تعلیم ،صحت، روزگار اور علاقائی ترقی کے لئے ہمارے
حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو مل بیٹھ کر سوچنا اور بہترین فیصلہ کرنا
ہوگا۔اگرچہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت ہیں لیکن یاد رکھیں کہ اسلحہ
کے زور پر جنگیں جیتی نہیں جا سکتیں بلکہ اس سے صرف تباہی اور بربادی
پھیلتی ہے۔انسانیت کا قتل عام ہوتا ہے۔معیشت اور تجارت کی تباہی ہوتی ہے
اور کاروبار صرف مہلک ہتھیاروں کا ہوتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے پالیسی ساز
اداروں اور اور سفارتی سطح پر کام کرنے والے ذمہ دار ترین افراد کو یہ بات
ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ امن ہماری ضرورت ہے۔امن ساری دنیا کے لیے لازم
ہے تاکہ انسانیت جنگ کی ہولناکیوں سے محفوط رہے اور فلاح و بہبود کے کاموں
میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔اس دورہ امریکہ میں عمران خان نے
عافیہ کا مسئلہ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں نہیں اٹھایا تاہم عمران خان
نیصحافیوں سے بات چیت میں یہ کہا ہے کہ شکیل آفریدی کے رہائی کے بدلے عافیہ
صدیقی کی رہائی کی بات کی جا سکتی ہے۔اس بارے میں ہم کیا امید کر سکتے ہیں
کہ کیا امریکہ عافیہ صدیقی کو رہا کر دے گا صدر ٹرمپ اس بارے کوئی فیصلہ کر
سکتے ہیں اس کا جواب تاحال سامنے نہیں آیا لیکن امید ہے کہ اب عافیہ صدیقی
والا معاملہ بھی حل ہونا چاہئے۔؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمارے وزیراعظم
کی بہت تعریفیں کی ہیں اس بارے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیاہ واقعی پاکستان کے
ساتھ اخلاص پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا امریکہ اپنے
مطلب کے تعلقات چاہتا ہے؟: تجارت کے حوالے سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کی
خواہش ہے کہ اب ایڈ نہیں ٹریڈ ہوگا امریکہ کے ساتھ۔ اس حوالے سے وزیراعظم
نے بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ہم امید کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے
ساتھ پاکستان کی تجارت میں تیزی آئے گی اور امریکہ پاکستان کی مصنوعات کو
بڑے پیمانے پر امپورٹ کرنے اور سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لے
گا۔افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کو بے حد تک
اہمیت دی جا سکتی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا کہ امریکی صدر سے
گفتگو کے بعد طالبان سے ملاقات لازمی ہو گئی ہے اس کا مطلب کیا یہ لیا جائے
کہ پاکستان طالبان کو امریکہ کی شرائط پر راضی کرنے کی کوشش کرے گا۔اس بارے
میں حکومت پاکستان کی پالیسی کا واضع ہونا بہت ضروری ہے۔
|