امریکہ کے دورے کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان
نے کہا کہ ہندوستان کے ساتھ تنازعات کے حل کیلئے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں
ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق انکا کہنا تھا کہ ہندوستان اگر جوہری ہتھیاروں
سے دستبردار ہوجائے گاتو پاکستان بھی جوہری ہتھیار ترک کردے گا۔ انہوں نے
کہا کہ ہم ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ عمران خان کا
کہنا تھا کہ ایک ارب سے زائد آبادی والا یہ خطہ جنگوں سے پہلے ہی متاثر ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے اصل جڑ مسئلہ کشمیر کو بتاتے ہوئے کہا کہ امریکہ واحد
ملک ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کا رول ادا کرسکتا ہے۔
72سال سے کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے اور جب تک اس مسئلۂ کشمیر کو حل نہیں
کیا جاتا تاوقتیکہ امن کا قیام خطہ میں ممکن نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی
صورت میں ہندو پاک مہذب ہمسائے کی طرح رہ سکتے ہیں۔وزیر اعظم کے اس بیان کے
بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ہندو پاک کے درمیان ثالثی کی حیثیت سے
اہم کردار ادا کرتے ہوئے مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔لیکن
ہندوستان نے کسی تیسرے فریق کو ہندو پاک کے درمیان ثالث کی حیثیت سے قبول
کرنے سے انکار کردیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستانی وزیر خارجہ کے
ترجمان رویش کمار نے امریکی صدر کی کشمیر تنازعہ پر ہندو پاک کے درمیان
ثالثی کی پیشکش پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی
کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی
کرے اور اس معاملے پر ہندوستان کی مستقل پوزیشن یہی رہی ہے کہ پاکستان سے
مذاکرات اسی وقت ممکن ہونگے جب وہ سرحد پر ہونے والی دہشت گردی ختم
کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہندوپاک کے مابین تعلقات دو طرفہ نوعیت کے ہیں
اور ان کو حل کرنے کے لئے شملہ اور لاہور اعلامیہ موجود ہیں۔یہاں یہ بات
قابلِ ذکر ہیکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم کی درخواست کے
بعد کہا کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ان سے اس معاملے کو حل
کرانے کی درخواست کی ہے۔ جبکہ وزارتِ خارجہ ہند کے ترجمان رویش کمار نے اس
سے انکار کیا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے
جھوٹ کہا ہے ۔ اس پر بعض سیاسی قائدین کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وزیر
اعظم نریندر مودی پارلیمنٹ میں آکر اس سلسلہ میں وضاحت کریں۔ امریکہ کی
ثالثی کے بغیر بھی کشمیر کا مسئلہ ہوسکتا ہے اگر دونوں فریقین سچے دل سے اس
کے حل کیلئے کوشش کریں لیکن دونوں ممالک کا میڈیا شاید کشمیر کے مسئلہ کو
حل ہونے نہ دیں۔ اگر واقعی کشمیر کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو یہ دونوں ممالک
کے لئے ہی نہیں بلکہ ان ممالک کے عوام کے لئے بھی سکون و اطمینان حاصل کرلے
گا۔جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری ایک خوش آئند اقدام ہوگا اگر تمام جوہری
طاقت رکھنے والے ممالک اس پر عمل کریں تولیکن کیا یہ ممکن ہے ؟ اب رہی بات
ہندوستان کی جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کی تو اسے نہ ہندوستان قبول کرے
گا اور نہ ہی دوسرے جوہری طاقت رکھنے والے عالمی ممالک ۔ کیونکہ ہر ملک
اپنے دفاع کے لئے ان ہتھیاروں کو رکھنا چاہے گا یہی نہیں بلکہ اس میں مزید
خطرناک ہتھیار بنانے کی سبقت حاصل کرنا چاہے گا کیونکہ عالمی سطح پر ہر
کوئی اپنے آپ کو منوانا چاہتاہے چاہے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہو کہ دیگر
اسلحہ کی تیاری۔ ہندوستان کو صرف پاکستان سے ہی مقابلہ کرنا یا اس سے دفاع
کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک اور دشمن ملک چین بھی ہے جو ہندوستانی
علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور کئی علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے
ہوئے ڈھاک بٹھائے رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس لئے ہندوستان کو اپنی
دفاعی صلاحیتو ں میں جتنا ممکن ہوسکے بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ورنہ
دشمن ملک اس پر کسی نہ کسی طرح حاوی ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کو اپنی دفاعی
صلاحیتوں میں اضافہ کے علاوہ فوجی طاقت میں اضافہ کے لئے نت نئے ہتھیاروں
کو ہر طرح سے لیس کرنا ہوگا کیونکہ جب عالمی سطح پر اسکی فوجی طاقت میں
اضافہ ہوگا اور نئے نئے خطرناک ہتھیار اس کے پاس موجود رہینگے تو ہی کوئی
دشمن ملک اس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی ہمت نہ کرے گا۔ اسی لئے پاکستانی
وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان کہ ہندوستان اگر جوہری ہتھیار ترک کردے گا
تو پاکستان بھی جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے گا یہ کسی بھی طرح
ہندوستان قبول نہیں کرے گا اور پاکستان بھی کبھی اپنی جوہری طاقت کو ختم
نہیں کرے گا کیونکہ جو طاقتور ملک ہوگا وہی دنیا میں ترقی بھی حاصل کرسکے
گا اور دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی بنائے رکھ سکتا ہے ۔
خطے میں دہشت گردی کے تعلق سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ امریکہ
اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی رہے ہیں ، دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کی 70ہزار قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں، امریکہ
کو اسامہ بن لا دن سے متعلق پاکستان کو معلومات فراہم کرنی چاہیئں تھیں جس
کے بعد پاکستانی اداروں کو انہیں پکڑنا چاہئے تھا تاہم امریکہ نے پاکستان
پر بھروسہ نہیں کیا اور انکی حدود کے اندر داخل ہوکر ایک شخص کو قتل کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پر حملہ ہوا لیکن پھر بھی اس نے دہشت گردی
کے خلاف امریکہ کی جنگ میں حصہ لیا جس میں ستر ہزار پاکستانی مارے
گئے۔انہوں نے پڑوسی ملک افغانستان کے سلسلہ میں کہا وہ افغانستان میں امن
چاہتے ہیں ، افغانستان کے امن اور استحکام میں پاکستان کو سب سے زیادہ
دلچسپی ہے کیونکہ وہ ہمسایہ ملک ہے اور اگر افغانستان میں بدامنی کا براہ
راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوششوں سے افغان
طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر پیشرفت ہوئی ہے ۔ انہوں نے طالبان کو حکومت
کا حصہ بن کر عوام کی نمائندگی کرنے پر زور دیا۔ داعش کے تعلق سے وزیر اعظم
عمران خان کا کہنا تھا یہ داعش پاکستان ، افغانستان اور امریکہ ہی نہیں
بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے سلسلہ
میں انہوں نے کہاکہ اس سے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہونگے اور خطے کا امن
اور معیشت متاثر ہونے کا خطرہ بھی ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ ہم خطے میں امن کے
خواہاں ہیں اور اس کے لئے ہم امریکہ اور ایران کے درمیان مصالحت کیلئے
کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی فوجی سربراہ
جنرل قمر جاوید وباجوہ نے بھی امریکہ سینیٹر لنڈسے گراہم اور جنرل ریٹائرڈ
جیک کینی سے ملاقات کی ، اس ملاقات کے دوران خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور
افغان امن عمل پر بات چیت ہوئی۔آرمی چیف قمر باجوہ نے پاکستان میں غیر ملکی
سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا اور انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں
بہتری سے متعلق کہا کہ یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے ، دووں ملک تعلقات کے
استعمال سے خطے میں دیرپا امن لاسکتے ہیں۔
سعودی عرب میں پھر ایک مرتبہ امریکی فوج تعینات۰۰۰
امریکہ نے پھر ایک مرتبہ سعودی عرب میں اپنے فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا
ہے ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزارت دفاع پینٹگان نے کہا ہے کہ خطے میں
امریکی مفادات کو درپیش قابلِ یقین خطرات کے پیشِ نظر امریکی افواج کو
سعودی عرب میں تعینات کیا جارہا ہے۔یہ فوجی تعیناتی ایک ایسے وقت کی جارہی
ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے
میں آرہا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہیکہ یہ اقدام ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے
کے دوران بحری راستوں کی حفاظت کیلئے اٹھایا جارہا ہے۔واضح رہے کہ اس سے
قبل امریکہ نے سعودی عرب میں آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے تحت 1991ء میں یعنی
عراق نے کویت میں اپنی فوج تعنیات کردی تھی اس وقت امریکہ نے اپنی فوج کو
سعودی عرب میں متعین کیا تھا اور 2003ء میں عراق جنگ کے خاتمے کے بعد
امریکی افواج کی سعودی عرب سے روانگی عمل میں آئی تھی ۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق سمجھا جارہا ہے کہ امریکہ 500فوجیوں کی نگرانی میں سعودی عرب کے
شہزادہ سلطان کے فوجی اڈے پر فضائی دفاع کیلئے پیٹریٹ میزائل تعینات کرے
گا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے منصوبے میں F-22فائٹر طیارے شامل ہیں جو کہ
ریڈار کی زد میں آئے بغیر اپنے کام کرسکتے ہیں ۔ امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے
اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج کی تعیناتی کا مقصد حفاظتی انتظامات کو
مزید بہتر بنانا ہے تاکہ خطے میں نئے خطرات سے ہمارے فوجیوں اور ہمارے
مفادات کا دفاع یقینی بنایا جاسکے۔امریکی فوج کی سعودی عرب میں تعیناتی کب
تک رہے گی اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اب دیکھنا ہیکہ سعودی عرب میں
امریکی فوج سے کس کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور کون نقصان اٹھائے گا۔
خلیج میں ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی ۰۰
ادھر ایران بحریہ کے سربراہ ریئر ایڈمرل حسین خانزادی کے مطابق خلیج کے
پانیوں میں تمام دشمنوں خاص طور پر امریکی بحری جہازوں کی آمد و رفت کا پل
پل جائزہ لیا جا رہا ہے۔ایرانی بحریہ کے سربراہ ریئر ایڈمرل حسین خانزادی
کے بقول ایرانی ڈرونز کی مدد سے ان بحری جہازوں کی روزانہ کی سرگرمیوں کی
تصاویرلی جا رہی ہیں۔ حسین خانزادی کاکہنا ہے کہ ہم امریکہ اور اتحادی
فورسز کی لمحہ بہ لمحہ حرکت سے آگاہ ہیں۔‘‘ایران اور امریکہ کے درمیان
کشیدگی ان دنوں عروج بتائی جارہی ہے۔گزشتہ روز ایران نے امریکی خفیہ ایجنسی
سی آئی اے کے لیے مبینہ طور پر کام کرنے والے سترہ ایرانیوں کو گرفتار کر
لیا۔ سرکاری بیان کے مطابق ان 'ایجنٹوں‘ کو ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات
کی جاسوسی سونپی گئی تھی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس ایرانی دعوے
کو مسترد کر دیا ہے۔ فوکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
'ایرانی حکومت کی تو جھوٹ بولنے کی اپنی ہی ایک تاریخ بھی ہے۔‘‘۔ اپنا
دیکھنا ہے کہ اصل حقیقت کب منظر عام پر آئے گی اور سچ کون ہے اور جھوٹا کون
۔
مسلم حکمراں۰۰۰ ایغور کے مظلوموں کے بجائے چینی حکمراں کو خوش کررہے ہیں۰۰
چین کے تقریباً دس لاکھ مسلمان اقلیتوں کو چین میں کن حالات سے گزرنا پڑرہا
ہے یہ تو وہی جانتے ہیں جن پر چینی حکومت اور سیکیوریٹی ایجنسیوں کی جانب
سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کے ایغور مسلمانوں کو
حراستی کیمپس میں رکھا جاتا ہے اور انہیں اسلامی احکامات بجانے سے روکنے کی
کوشش کی جاتی ہے ۔ ایغور کے لاکھوں مسلمان اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے
اور احکامات شرعیہ پر عمل کرنے کی سعی کرتے ہیں تو چین کی کمیونسٹ حکومت ان
پر مظالم ڈھاتی ہے اس کے باوجود عالمِ اسلام کے حکمراں چینی حکومت کو خوش
کرنے کے لئے ان مسلم بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو نظر انداز کرکے
چینی حکومت کو ہی خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ابو ظہبی کے ولی
عہد کے دورہ چین کے موقع پر بیجنگ نے سنکیانگ میں سیکیورٹی کریک ڈاؤن کی
حمایت کرنے پر متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا ہے۔واضح رہے کہ بیجنگ کی
جانب سے انسداد دہشت گردی کے نام پر تقریباً 10 لاکھ مسلمان اقلیتوں سمیت
دیگر کو حراستی کیمپ میں رکھنے پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے
تاہم مسلمان ممالک چین پر تنقید کرنے سے بچ رہے ہیں۔چین کے سرکاری نشریاتی
ادارے کے مطابق کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے
بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جہاں چینی صدر نے سنکیانگ
معاملے پر یو اے ای کی حمایت کرنے کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ممالک کے
درمیان انسداد دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ولیعہد کے
ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بیجنگ اپنی متنازع پالیسیوں پر
عالمی حمایت کا مطالبہ کر رہا ہے۔اب تک چین کو 37 ممالک کی حمایت حاصل
ہوچکی ہے جن میں مسلم ممالک سعودی عرب اور الجزائر بھی شامل ہیں۔سعودی عرب
اور الجزائر کی جانب سے چین کا سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے
دفاع میں رواں ماہ کے آغاز میں خط بھی جاری کیا گیا تھا۔یہ خط ایسے وقت میں
سامنے آیا جب 21 مغربی ممالک اور جاپان نے چین کے خلاف مشترکہ طور پر
سنکیانگ میں چینی اقدامات پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔اس طرح جو ان ایغور کے
مسلم عوام کا ساتھ دینا تھا وہی انکے خلاف ہیں اور جو غیر اسلامی ممالک ان
مظلوم ایغور کے مسلمانوں کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہیں۔
***
|