تحریک پاکستان میں حضرت تھانوی کا کردار

میاں شبیرعلی ! ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہوجائیں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ انہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج سب فاسق و فاجر کہتے ہیں مولویوں کو تو ملنے سے رہی۔ لہذا ہم کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہی لوگ دیندار بن جائیں۔ مولانا "شبیر علی " نے یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ پھر تبلیغ نیچے کے طبقہ یعنی عوام سے شروع ہو یا اوپر کے طبقہ یعنی خواص سے، اس پر ارشاد ہوا کہ اوپر کے طبقہ سےکیوں کہ وقت کم ہے خواص کی تعداد بھی کم اور " الناس علی دین ملوکھم" اگر خواص دیندار اور دیانتدار بن گئے تو انشاء اللہ عوام کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ عزیزانِ من۔ اپنی دور اندیشی کے بدولت مستقبل کے آنے والے واقعات سے مولانا شبیرعلی کوخبردار کرنےوالا کوئی اور نہیں بلکہ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب تھے۔ حضرت تھانوی جو بہ یک وقت فقیہ، محدث، مفسر، معلم، مدرس اور پیر تھے وہ میدان سیاست میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے قیام کا خیال علامہ محمد اقبال نے مورخہ 29 دسمبر 1930 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں اپنے خطبہ صدارت کے دوران ظاہر کیا۔ جس کا 23 مارچ 1940 کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں ملی نصب العین کے طور پر ایک قرارداد کے ذریعے باقاعدہ مطالبہ کیا گیا۔اسلامی سلطنت کے قیام کا جو خیال علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے متذکرہ بالا اجلاس میں پیش کیا تھا بلکل وہی خیال ان سے بہت پہلے حضرت تھانوی اپنے مجلسِ عام میں کئی بار ظاہر فرما چکے تھے۔ 1928 میں مولانا عبد الماجد دریابادی حضرت تھانوی کی خدمت میں پہلی مرتبہ" تھانہ بھون" حاضر ہوئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ پاکستان کا تخیل، خالص اسلامی حکومت کا خیال، یہ سب آوازیں بہت بعد کی ہے پہلے پہل اس قسم کی آوازیں یہی تھانہ بھون میں کان میں پڑی۔ بس حضرت تھانوی کو ہم لوگوں کے اس وقت کے طریق کار سے پورا اتفاق نہ تھا۔ حضرت تھانوی فرماتے تھے کہ دل یو چاہتا ہے کہ ایک خطہ پر اسلامی حکومت قائم ہو، بیت المال ہو، نظام زکوٰۃ رائج ہو،شرعی عدالتیں قائم ہو۔ دوسری قوموں سے مل کر یہ نتائج کب حاصل ہو سکتے ہیں اس مقصد کے لیے صرف مسلمانوں ہی کی جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت تھانوی مسلم لیگ کو تبلیغ کرنے کے لیے اور خصوصاً مسلم لیگ کے روحِ رواں قائد اعظم محمد علی جناح کو دین سمجھانے کے لیے وفود بیجھے۔ دربار اشرفیہ کے مبلغین نے قائد اعظم کو سمجھایا کہ مسلمان کسی تحریک میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اس تحریک کے چلانے والے خود کو اسلام کا نمونہ نہ بنائیں۔ جب یہ خود کو احکام دین کا پابند بنالیں گے تو اس کی برکت سے نصرت و کامیابی خود بخود ان کے قدم چومے گی۔ اور مسلمانوں کی سیاست تو کھبی بھی مذہب سے الگ نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے قائد مسجدوں کے امام بھی تھے اور میدان جنگ کے جرنیل بھی۔ خلفاء راشدین، خالد بن ولید، ابو عبیدہ بن الجراح اور عمرو ابن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ سب مذہب و سیاست کے جامع تھے۔ غرض یہ کہ اس موضوع پر کافی گفتگو ہوئی اور بلآخر یہ خانقاہ نشین علماء دنیا کے اس بڑے اور کامیاب سیاستدان کی سیاست کو مذہب کی حدود کے اندر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ قائد اعظم نے وفد کی معروضات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنے اس تاریخی فیصلہ سے آگاہ فرمایا۔ کہ دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہو یا نہ ہو، میری سمجھ میں اب خوب آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ اس کے بعد جب بھی کسی دینی معاملے میں حضرت تھانوی قائد اعظم کی رہنمائی ضروری سمجھتے۔ تو فوراًان کے خدمت میں اپنا سفیر بیجھتے اور اسے سیاست پر گفتگو نہ کرنے کی ہدایت کرتے تھے۔ کیوں کہ قائد اعظم تو سیاست کے خود ماہر تھے جو کمی تھی وہ صرف تدین کی تھی جسے پیدا کرنے کے لیے تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری تھا۔ اس علاو حضرت تھانوی انہیں تبلیغی خطوط بھی لکھتے رہے۔ جس زمانے میں کانگریس مسلم لیگ سے مفاہمت کی گفتگو کر رہی تھی حضرت تھانوی نے ایک خط مسٹر جناح کو اس مضمون کا لکھا تھا کہ" مفاہمت میں چونکہ مسلمانوں کے امور دینیہ کی حفاظت نہایت اہم اور ضروری ہے اس لیے شرعیات میں آپ اپنی رائے کا بلکل دخل نہ دیں بلکہ علمائے محقیقین سے پوچھ کر عمل فرمائیں" قائد اعظم نے نہایت شرافت اور تہذیب سے حضرت تھانوی کو جواب لکھا اور اطمینان دلایا کہ اسی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ ایک دفعہ قائد اعظم کی مجلس میں یہ گفتگو چلی کہ کانگریس میں علماء زیادہ ہے اور مسلم لیگ میں علماء کوئی نہیں اسی وجہ سے مسلمانوں کو مسلم لیگ سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ یہ سن کر قائد اعظم نے جوش بھرے لہجے میں فرمایا کہ تم کن کو علماء سمجھتے ہو؟ انہوں نے مولانا سید حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور ابو الکلام آزاد کا نام لیا۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ سید حسین احمد مدنی عالم ہے مگر ان کی سیاست ایک ہی ہے۔ کہ انگریزوں کے دشمن ہے۔ اس دشمنی میں وہ مسلمانوں کے مفاد کی بھی رعایت نہیں کرتے۔ مفتی کفایت اللہ واقعی مفتی ہے اور کچھ سیاستدان بھی لیکن ابو الکلام آزاد نہ پورا عالم ہے اور نہ سیاستدان۔ عزیزانِ من۔ اس کے بعد قائد اعظم نے حضرت تھانوی کی شانمیں یہ تاریخی الفاظ کہے کہ" مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علماور تقدس و تقویٰ اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے اور تمام علمائے ہند کا علم تقدس و تقویٰ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو اس کا پلڑا بھاری ہوگا اور وہ ہے مولانا اشرف علی تھانوی جو ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے کوئی اور موافقت کرے یا نہ کرے مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسی سے آپ اندازہ لگائیں کہ قائد اعظم حضرت تھانوی سے کس قدر متاثر تھے۔ اب قائد اعظم کی تقاریر میں اسلامیت کا رنگ غالب نظر آنے لگا اور انہوں نے برملا کہنا شروع کر دیا کہ اسلام صرف چند عقائد و عبادات کا نام نہیں بلکہ اسلام سیاسیات، معاملات، معاشرت اور اخلاق کا مجموعہ ہے ہمیں ان سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ دیوبندی حلقے کے سرخیل اس وقت چونکہ حضرت تھانوی تھے اور انہوں نے واضح طور پر مسلم لیگ کی تائید و حمایت فرمائی تھی اس لیے ان کے لاکھوں عقیدت مندوں اور ہزاروں متوسلین جن میں سینکڑوں کی تعداد علمائے کرام کی تھی سب نے تحریک پاکستان میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع عثمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا خیر محمد جالندھری وغیرہ سرفہرست تھے۔ ان حضرات نے ہندوستان کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں اپنی تقریروں اور عملی جدوجہد کے ذریعے تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے اور پروان چڑھانے میں جس شاندار کردار کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان حضرات کی خدمت جلیلہ اور مساعی جمیلہ کا اعتراف خود قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے بارہا کیا تھا۔ اسی لیے قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی پرچم کشائی دربار اشرفیہ کی خدام کے ہاتھوں کرائی۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی پہلی پرچم کشائی مولانا ظفر احمد عثمانی اور مغربی پاکستان کی پہلی پرچم کشائی علامہ شبیر احمد عثمانی کے ہاتھوں کرائی گئی۔ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے کانگریسی لیڈر مولانا سید حسین احمد مدنی اور خلافتی لیڈر مولانا عبد الماجد دریابادی کے سامنے پاکستان کا جو نقشہ 1928 میں پیش کیا تھا اس کی رسم افتتاح بھی دربار اشرفیہ کی خدام کے حصے میں آئی۔ حضرت تھانوی جن کو لوگ صرف خانقاہ نشین اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف کے طور پر جانتے ہیں انہیں یہ بھی جاننا چائیے کہ حکیم الامت کی سیاسی بصیرت کس قدر حکیمانہ تھی ۔ انہوں نے کس طرح مسلم لیگ کے روحِ رواں قائد اعظم محمد علی جناح کی دینی اصلاح فرمائی۔ اور جب سیاسی تحریکات کے سلسلہ میں آپ کے پاس استفسار آتے تو اس وقت بہ حیثیت حکیم الامت آپ کو ان کی شرعی حیثیت واضح کرنی پڑتی۔ جو کانگریس، جمیعت العلماء، احرار مؤمن کانفرنس اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی تھی۔ یہ ایسا دور تھا جس میں سب کو کچھ نہ کچھ اپنے مرکز سے ہٹنا پڑا مگر حکیم الامت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم رہے اور اپنی رائے سے ایک لمحہ کے لئے پیچھے نہیں ہٹے۔ اسی مسلک حقہ کی بدولت ہر آڑے وقت میں اربابِ مسلم لیگ آپ سے مشورہ لیتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے۔ باقی پارٹیوں اور جماعتوں کی سعی و اتحاد کے باوجود حضرت تھانوی کی دعا پرخلوص اعانت سے مسلم لیگ تاریخ ساز الیکشن جیتتی رہی جس پر قائد اعظم محمد علی جناح کو بہت فخر تھا۔ عزیزانِ من۔ ولی اللہی تحریک کے نانوتوی لشکر کا یہ شہسوار فقیہ، محدث، مفسر، مدرس، مصنف الغرض علم کے ہر شعبہ میں مثال تھے اور بقول اپنے استاد مکرم مولانا محمد یعقوب نانوتوی کے جو کہتے تھے کہ " اشرف علی تم جہاں جاؤ گے تم ہی تم نظر آؤ گے" اور واقعی ایسا ہی ہوا آج مسلمانوں کے عقائد ونظریات، عبادات، معاشرت اور سیاست وغیرہ کی درستگی میں حکیم الامت ہی کے اقوال و افکار نمایاں نظر آتے ہیں۔
 

Malak gohar iqbal khan ramakhel
About the Author: Malak gohar iqbal khan ramakhel Read More Articles by Malak gohar iqbal khan ramakhel: 34 Articles with 34034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.