عالمی سفارتی کپ ٹورنامنٹ میں عمران کا ٹرمپ کارڈ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےدس دن کے اندر دوسری مرتبہ تنازعِ کشمیر پر ترپ کا پتہ پھینکا ۔ انہوں ہندو پاک ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صوابدید پرہے کہ وہ ثالثی کی پیش کش قبول کریں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی مداخلت کرے یا ان کی مدد کی جائے تو وہ ثالثی کر سکتے ہیں۔ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے میں بھارت اور پاکستان سے سے بات کر چکا ہوں۔ اس کے جواب میں کے وزیر خارجہ جے شنکر نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نےامریکی ہم منصب مائیک پومپیو کو واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بات چیت صرف پاکستان کے ساتھ ہوگی اور یہ بات چیت دوطرفہ ہوگی۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ طلاق ثلاثہ بل کے منظور ہوجانے پر تو مودی جی چند منوں کے اندر ٹویٹ کردیتے ہیں لیکن جب کشمیر جیسے نازک مسئلہ پر ٹرمپ کوئی بیان دیتے ہیں تو وزیر اعظم کا ٹوئیٹر کیوں معلق ہوجاتا ہے اور وہ خود اس کا جواب دینے کی جرأت کیوں نہیں کرتے؟ اپنے وزیر خارجہ کو کیوں آگے کردیتے ہیں؟ یہ رسوائی دوسروں کی دلآزاری کرنے والے افسوسناک رویہ کا قدرتی انتقام ہے۔

عصر حاضر میں ٹوئٹر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کا سب سے تیز اور مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اس پرسب سے زیادہ مقبول لوگوں کی فہرست میں دوسرے مقام پر امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ بارہویں پر صدر ڈونالڈٹرمپ اور بیسویں پر وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ان تینوں کے حالیہ نمبر ات میں ۲ مشترک ہے۔ ان کے درمیان دیگر موسیقار ،کھلاڑی اور ادارہ جات ہیں۔ مودی جی ٹویٹر کا استعمال بھی خوب جانتے ہیں مثلاً ابھی ابھی انہوں نے اپنی کابینی وزیر ہر سمرت کور بادل کو ان سالگرہ کےموقع پر پیغام بھیجا نیز بورس جانسن کو برطانیہ کا وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دینے سے نہیں چوکے۔ ان کی ٹوئٹر پر دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے جب ہندوستان کی ٹیم میدان میں اتری تو انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور جب نیوزی لینڈ سے ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی تو اس کا حوصلہ بڑھایا بلکہ شیکھر دھون کی انگلی کے زخمی ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا لیکن یکے بعد دیگرے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کشمیر سے متعلق دونوں متنازعہ بیانات کے بعد انہیں سانپ سونگھ گیا ۔ بقول اقبال (ترمیم کی معذرت)؎
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے دیوارِ ٹوئیٹر پر
یہ ناداں گر گیاسجدے میں جب وقت قیام آیا

ہندوستان و پاکستان کشمیر کو ایک تنازع تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے حل کی بابت دونوں کے موقف میں بنیادی نوعیت کافرق ہے۔ ہندوستان اس کو بغیر کسی بیرونی مداخلت کے باہمی گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان اس کے حل کی خاطر عالمی برادری کے تعاون کا روادار ہے۔ اسی لیے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران مسئلۂ کشمیر میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کردی ۔ انہیں توقع رہی ہوگی کہ امریکی صدراس پر تشویش کا اظہار کرکے باہمی مذاکرات سے حل کرنے کی تلقین کریں گے لیکن ٹرمپ کے بیان نے ساری دنیا کو چونکا دیا ۔ انہوں نے دعویٰ کردیا کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی حالیہ جی۲۰ ممالک کے اجلاس میں ان سے کشمیر مسئلے کے حل کی خاطر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔اس مبینہ گذارش پر امریکہ کے صدر کا ردعمل یہ تھا کہ ان کو ثالثی کا کردار ادا کرنے میں خوشی ہوگی۔ ٹرمپ نےعمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کشمیر کے علاوہ ہندو پاک تعلقات کے بارے میں بھی کہا کہ ‘‘بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ ہم اس بارے میں بات کریں گے، اور یہ کہ اگر ہم ان تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو کریں گے’’ ۔ سوال یہ ہے کہ اس غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے بعد بھی کیا ہند امریکی تعلقات اچھےر ہیں گے اور امریکی صدر کو اس کے بگڑنے کی ذرہ برابر پرواہ ہے؟
اتفاق سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جبکہ ہندوستان میں ایوانِ پارلیمان کا بجٹ اجلاس جاری ہے ۔اس کے باعث پارلیمنٹ کے اندر اور باہرسیاسی زلزلہ برپا ہوگیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کوصفائی کے لیے میدان میں اتارا گیا۔ انہوں نے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم مودی کی طرف سے امریکی صدر سے ایسی کوئی گزارش نہیں کی گئی ۔اسی کے ساتھ موصوف نے پنجرے میں بند طوطے کی مانند اپنا روایتی موقف دوہرا تے ہوئے کہا،‘ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی استواری کے لئے سرحد پار سے دہشت گردی کا بند ہونا ضروری ہے۔ ہندوستان وپاکستان کے درمیان تمام مدعوں کو دو طرفہ بات چیت سے سلجھانے کی خاطر شملا معاہدہ اور لاہورعلامیہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے ‘۔امریکی وزارت خارجہ کا ترجمان اگر یہ انکشاف کرتا تو ہندوستان میں اس کے مدمقابل رویش کمار کا جواب مناسب ِ حال ہوتا لیکن یہ دعویٰ تو وزیراعظم کے ساتھ جاپان کے اندر ہونے والی اپنی مخصوص گفتگو کےحوالہ سے ڈونالڈ ٹرمپ خود کر رہے ہیں ۔ اس لیے وزیر اعظم ایوان پارلیمان کے اندر یا کم از کم اپنے ٹوئیٹر پر ہی بذاتِ خود تردید کر دیتے تو کسی قدر اطمینان ہوجاتا ۔

وزیراعظم کو ببانگ دہل کہنا چاہیے تھا کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں یا کم از کم یہ کہ امریکی صدر کو غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ ایسے میں ۵۶ انچ کی چھاتی والے مودی جی کی پراسرار خاموشی نے ان کی جرأت و ہمت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ عمران خان کو ٹوئٹ کرکے حیرت کا اظہار کرنے کا موقع بھی مل گیا ۔ ایسےمیں حزب اختلاف کیوں کر خاموش رہ سکتا ہے ۔ اس نے کشمیر مسئلہ کے لیے پنڈت نہرو کو موردِ الزام ٹھہرا نے والوں پر ہلہّ بول دیا ۔ ایوان کے اندر اور باہر ہنگامہ ہے برپا مگر مودی جی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستان پر ہندوستان کی ٹیم کی جیت کو دوسرا ائیر اسٹرائیک بتانے والے وزیرداخلہ کی قینچی جیسی زبان بھی اس سفارتی اسٹرائیک کے بعد کند ہوگئی ہے۔ اسدالدین اویسی کو ڈانٹ کر سننے کی تلقین کرنے والے امیت شاہ کے منہ پر تالہ پڑا ہے۔ ملک کے عوام یہ توقع کررہے ہیں کہ اگر بڑے میاں نہ سہی تو کم ازکم منجھلے شاہ یا چھوٹےمیاں شیو شنکر پرشاد ہی کچھ بولیں لیکن ہر طرف خاموشی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں آنجہانی اے ہنگل کا مشہور مکالمہ یاد آتا ہے‘اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟’

کشمیر کے حوالے سے ہندو پاک کے موقف میں ایک اور فرق یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی مجالس میں کشمیر کےدگرگوں حالات پر انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کرکے اس کے لیے حکومت ہند کو ذمہ دارٹھہراتا ہے۔ بھارت سرکار کی جانب سے اس کی تردید میں کہا جاتا ہے حالات پرامن ہیں ۔ صوبے میں عوام کی منتخبہ حکومت برسرِ اقتدار ہے ۔ مرکزی حکومت میں کشمیری رہنما وزارتیں لیے بیٹھے ہیں اور جو تھوڑی بہت شورش ہے اس کے لیے پاکستان قصور وار ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کرکے ’’کشمیر ایک خوبصورت علاقہ ہے، وہاں بم نہیں برسنے چاہئیں‘‘۔ پاکستانی موقف کی کھلی تائید کردی اور ان کا انداز بیان ایسا تھا کہ کشمیر اور شام کے حالات یکساں ہیں ۔ سوئے اتفاق سے فی الحال حکومت ہند نہ تو یہ کہہ سکتی ہے کہ کشمیر میں ایک منتخبہ سرکار برسرِ اقتدار ہے اور نہ کسی کشمیری مرکزی وزیر سے ٹرمپ کی تردید کرواسکتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کشمیر سے مسلح مڈبھیڑ کی خبر نہ آتی ہو ۔ حریت کی جانب سے بات چیت کی پیشکش کو ٹھکرانا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت ہند طاقت کے زور سے اپنی بات منوانے کے حق میں ہے۔ وہ آئین میں ترمیم کر کے کشمیریوں کو حاصل تمام خصوصی مراعات مثلاً دفع ۳۵۱ وغیرہ کو ختم کرنے کے درپہ ہے ایسے میں ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرنا نہایت مشکل ہوگیا ہے۔

پچھلے پانچ سالوں میں دہشت گردی کے نام پر پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بات بہت ہوئی ۔ کسی بین الاقوامی اسٹیج سے جب دہشت گردی کے خاتمہ کا ذکر کیا جاتا تو اسے پاکستان کی مخالفت سمجھا جاتا تھا ۔ پاکستان کی سرزمین کا دہشت کے فروغ کی خاطر استعمال اور حکومت پاکستان پر حافظ سعید جیسے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگتا رہاہے ۔ عمران خان نے حافظ سعید کو گرفتار کرواکے اس معاملے پرقابو پانے کی کوشش کی ہے۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ سرزمین ہند پر جب بھی کوئی دہشت گردی کی واردات رونما ہوتی ہے جیش محمد یا لشکر طیبہ اس کی ذمہ داری قبول کرکے اسے اپنے سر لے لیتے ہیں مثلاً پلوامہ کے دھماکوں کو جب حکومت کی کوتاہی قرار دے کر اسے گھیرا جارہا تھا تو سرحد پار سے بیان آگیا ۔ اسی کے ساتھ شیوپال یادو یا راج ٹھاکرے جیسے حکومت پر نکتہ چینی کرنے والوں کو لشکر یا جیش کا ہم پلہ قرار دیا جانے لگا ۔ اس طرح ذمہ داری کو قبول کرکے جیش نےمودی سرکار کا بھلا کردیا ۔ آگے چل کر بالاکوٹ میں جیش کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے انتقام کے نام پر انتخاب جیت لیا گیا۔ عمران خان نے لگتا ہے یہ سلسلہ منقطع کرنے کا عزم کرلیا ہے ۔ اس اقدام سے پاکستان کے اوپر پر دہشت گردی کے حوالے سے بین الاقوامی دباو کم ہوجائے گا۔

عمران خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘‘نیویارک میں میرے پاکستانی دوست بہت سمارٹ اور مضبوط ہیں، جیسا کہ عمران خان ایک مضبوط لیڈر ہے‘‘۔یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ جب عمران خان کہتے ہیں کہ ’’ امریکہ سے پاکستان جو وعدے کرے گا انہیں نبھائے گا‘‘تو صدر ٹرمپ جواب دیتے ہیں ‘‘پاکستان جھوٹ نہیں بولتا’’۔ یہ وہی ٹرمپ ہیں جمہوں نے یکم جنوری ۲۰۱۸؁ کو ٹویٹ کیا تھا ‘‘امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بےوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا ۔وہ ہمارے رہنماؤں کو بےوقوف سمجھتے رہے ہیں۔ اب ایسا نہیں چلے گا‘‘۔آج ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں یہ شور بپا ہے ٹرمپ خود جھوٹ بول رہے ہیں ۔ کشمیر کے حوالے سے طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ انتطامیہ ان پر کان نہیں دھرنے کی تلقین کررہا ہے اس کے باووجود سماجی رابطے کے ذرائع میں یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سیاست کے اس گول گنبد میں ہر کوئی بیک وقت چیخ چیخ کر اپنی بولی بول رہا ہے اور صدائے بازگشت نے سب کو آپس میں خلط ملط کردیا ہے۔ ایسے میں عاکف ریاض یا دآتے ہیں ؎
میرے خلاف میرے یار جھوٹ بولتے ہیں
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453533 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.