کیا دنیا وادی کشمیر میں کسی سانحہ کی منتظر ہے ․․؟

بھارت دنیا بھر میں گندی چالیں چلنے میں بھر پورشہرت رکھتا ہے،چاہے اس کے نتیجے میں ندامت ہی کیوں نہ سہنی پڑے ۔اب ایک چال کشمیریوں کے خلاف کھیلنے کی تیاری کر رہا ہے ۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے دفعہ 35اے اور 370ختم کرنے کا انتہائی خطر ناک منصوبہ بنالیا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر کانگریس نے مودی سرکار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئین میں تبدیلی سے کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا۔کشمیری رہنما مفتی اعظم ،مفتی ناصر الاسلام نے بھارت کو خبردار کیا کہ دفعہ 35اے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گی ۔یہ اقدام وادی میں زبردست عوامی مزاحمت کا باعث بن سکتا ہے ۔لگتا یوں ہے کہ بھارت کشمیر میں بڑی کارروائی کرنے والا ہے ۔کیونکہ فوج اور فضائیہ کو مقبوضہ علاقے میں ہائی الرٹ کر دیا ہے ۔بھارتی پیرا ملٹری کے مزید 28ہزار اہلکار سرینگر اور مقبوضہ وادی کے دیگر علاقوں میں تعینات کیے جارہے ہیں ۔سرینگر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر بھارتی پیرا ملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکارتعینات کر دیے گئے ہیں ۔بھارت پیرا ملٹری کی مزید 280سے زائد کمپنیاں مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رہا ہے ۔ بھارت نے عملاً کشمیر کو جیل بنا ڈالا ہے ۔خوف و ہراس پیدا کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون بدلنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔بھارت کی اس گھناؤنی حرکت سے کوئی بڑا انسانی سانحہ پیش آ سکتا ہے،مگر ابھی تک دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ۔

کشمیر کی درد ناک داستان بھارت کی وعدہ خلافیوں سے عبارت ہے۔27اکتوبر 1947کو فیصلہ ہوا تھا کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے یہاں فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔نہروجو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم تھے،انہوں نے پاکستان بلکہ دنیا کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ امن و امان بحال ہوتے ہی بھارتی فوج کشمیر سے واپس آ جائے گی اور کشمیرکے مستقبل کا فیصلہ عوام کرے گی۔لیکن پھر کیا ہوا کہ خود بھارت جنوری 1948 میں کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ میں لے جاتا ہے ،مگر اب کشمیر کے مسئلے پر کسی اور کو ثالثی کی ضرورت نہیں سمجھتا۔کشمیر کے مسئلے کو صرف دو طرفہ معاملہ کہہ رہا ہے ۔

72 برسوں سے کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے ،اس پر پاک بھارت کے درمیاندو جنگیں بھی ہو چکی ہیں ،مگر بھارت اس مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے کشمیر وادی اور وہاں بسنے والے کشمیریوں کے لئے بار بار قیامت برپا کرتا ہے ۔آزادی کی جدوجہد میں کشمیریوں کی تیسری نسل آن پہنچی ہے ۔لیکن بھارت کے ظلم وستم نئی سے نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔دنیا جہاں انسانی حقوق کی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہے، وہاں مسئلہ کشمیر کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔جہاں انسانیت سوز واقعات کی بھرمار ہے ۔معصوم بچوں سے لے کر 90 سال کے بوڑھے تک جام شہادت پا چکے ہیں ۔لاکھوں بار مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتالیں اور کرفیو تو معمول بن چکا ہے ۔بھارتی فوج بے دردی سے نہتے شہریوں پرگولیاں چلاتی ہے،مگر دنیا کی خاموشی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔امریکہ کو پاکستان سے اپنے مفادات کے لئے مل بیٹھنا پڑا۔جس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کا بھی ذکر آ گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی خواہش پر ثالثی کی خواہش کی ،مگر بھارت اس بات پر آگ بگولا ہو گیا اور میں نہ مانوں کی رٹ لگا دی ۔

بھارت دفعہ 370اور 35 اے کو کیوں ختم کرنا چاہتا ہے؟ آرٹیکل 370یہ کہتا ہے کہ سینٹرل گورنمنٹ کو دفاع، خارجہ پالیسی اور مواصلات کے معاملات پر اختیار ہو گا۔ باقی تمام محکموں کے اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہوں گے ۔اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا طریقہ کار یہ واضع کیا گیا ہے کہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی سفارش پر ہی یہ شق اختتام پذیر ہو گی ۔کشمیر کی دستور ساز اسمبلی1957ء میں ریاست کا دستور وضع کر کے تحلیل ہو گئی اور ان لوگوں نے آرٹیکل کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کی ۔وہ بھارت کی وعدہ خلافیوں سے خوب آشنا تھے ۔اس آرٹیکل کا خاتمہ بی جے پی کے منشور میں شامل ہے ۔اس امر کا اعادہ اسی سال ہونے والے الیکشن میں بی جے پی کے رہنماؤں نے انتخابی مہم کے دوران بار بار کیا۔

آرٹیکل 35اے کا آرٹیکل 370سے گہرا تعلق ہے،گو کہ بادی النظر میں دونوں آرٹیکل علیحدہ نظر آتے ہیں ۔آرٹیکل 35 اے ایک انڈین صدارتی حکم کے ذریعے دستور میں شامل کیا گیااور یہ کام آرٹیکل 370 کی شق نمبر ایک کے حوالے سے کیا گیا۔آرٹیکل 35اے میں لکھا گیا ہے کہ غیر کشمیری ریاست میں جائیداد کی خریدنے کا حق نہیں رکھتے اور نہ ہی وہاں مستقل سکونت اختیار کر سکتے ہیں ۔مستقل شہری کی تعریف کا حق صرف ریاستی اسمبلی کے پاس ہے ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ آرٹیکل 370کشمیر کی خود مختاری کا قلعہ ہے اور آرٹیکل 35 اے اسی قلعے کی دیوار ہے اور مودی سرکار یہ قلعے کی دیوار گرانے کے در پر ہے تاکہ قلعے کو با آسانی فتح کیا جا سکے ۔

کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے ۔یہ جنت نظیر وادی میں ہر کوئی رہنا پسند کرتا ہے ،مگر جہاں بدنیتی شامل ہو جائے تو کشمیری اپنی سر زمین کو گندی نظروں سے بچانے کے لئے ہی تو لاکھوں شہادتیں قبول کر چکے ہیں ۔1947ء میں جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 88فیصد تھی ۔جموں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جو آج اقلیت میں تبدیل ہو چکی ہے ۔جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 67فیصد رہ چکی ہے ۔مودی سرکار آرٹیکل 35اے کو ختم کر کے چند برسوں میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔تاکہ اقوام متحدہ کو رائے شماری کے ذریعے بتا دیا جائے کہ کشمیر کی اکثریت بھارت کے ساتھ الحاق چاہتی ہے ۔اس کے لئے کشمیر میں بھارت نے سات لاکھ فوج کئی سالوں سے تعینات کر رکھی ہے ۔دنیا کے کسی خطے میں سکیورٹی فورسز کا اتنا بڑا وجود نہیں ہے ۔

کشمیر کی موجودہ صورت حال پر پاکستان کو اپنی داخلی اور خارجی مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔کشمیر میں مزاحمت زور پکڑنے کے قوی امکانات ہیں ۔بھارت نے اپنی اس ناپاک پلاننگ میں پاکستان کو اندرونی طور پر انتشار میں الجھانے کی سازش شامل کر رکھی ہو گی ۔باڈر پر بھارتی جارحیت جاری ہے جو مزید بڑھ سکتی ہے ۔دنیا بھارت کو کشمیر پر ظلم کرنے سے پہلے روکے۔اس کے لئے پاکستان اپنا کردار تو ادا کر رہا ہے ،مگر خطے میں امن و استحکام کے لئے مودی سرکار کے غلط رویوں کو درست کرنے کے لئے بین القوامی دباؤ کی ضرورت ہے ۔جس کے لئے پاکستان کے وزارت خارجہ کو اپنا بھر پور اور سنجیدہ کردار ادا کرنا پڑے گا۔کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔کشمیر میں لاکھوں شہید ہونے والوں کا خون ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم بیداری اور بصیرت کے ساتھ ان کے خون کا تحفظ کریں اور ان کی جدوجہد آزادی کو کامیاب کریں ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.