طلاق ثلاثہ کا قانون، اناو عصمت دری اور معلق خواتین

انفرادی سطح پر ذہین ترین لوگ بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں ۔ بڑی بڑی تحریکیں بہت غور و خوض کرکے منصوبہ بندی کرتی ہیں لیکن مشیت ایک چٹکی میں سب ملیا میٹ کردیتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال طلاق ثلاثہ کا قانون ہے۔ اس کو بنا کر اسلام کو بدنام کرنے کے لیے وزیر قانون روی شنکر پرشاد اور ان کے ساتھیوں نےنہ جانے کیا کیا جتن کیے ؟سنگھ پریوار نے اس کے ذریعہ امت کو بدنا م کرنے کے لیے کیسی کیسی سازش نہیں کہ لیکن قدرت کا کرنا دیکھیے کہ ۲۰۱۷؁ میں جب بی جے پی یہ سب کررہی تھی اس کے کا رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر پر ایک نابالغ ہندو دوشیزہ اجتماعی عصمت دری کا الزام لگا رہی تھی ۔مسلمان خواتین کی نام نہاد ہمدرد یوگی حکومت اپنے رکن اسمبلی کا دفاع کررہی تھی ۔ حزب اختلاف نے اس بل کو راجیہ سبھا میں ناکام کردیا تو سینگر نے لڑکی کے والد کو جیل قتل کروادیا اور اس کے بھائی کو جیل بھجوا دیا۔ اس کے باوجود بی جے پی اپنے رکن کو تحفظ جاری رکھا ۔لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں سے ہمدردی کا ڈھونگ رچانے والے آخر خود اپنی قوم کے خلاف اس قدر سفاک کیوں ہیں؟

مودی جی نے دوبارہ انتخاب جیت کر امیت شاہ کو وزیرداخلہ بنایا اور انہوں پھر سے طلاق ثلاثہ کا بل لوک سبھا میں پیش کرکے منظور کروالیا ۔ اِ دھر یہ ہوا اُدھر کلدیپ نے متاثرہ کی کار پر ٹرک چڑھوا دیا ۔ اس حملےمیں لڑکی تو بچ گئی مگر اس کی خالہ اور چچی ہلاک ہوگئیں ۔ ان میں ایک لڑکی کے باپ کے قتل کی گواہ بھی تھی ۔ اتر پردیش انتطامیہ نے سینگر کو بچانے کے لیے اس حملے کو حادثہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی۔ اس لڑکی کے تحفظ کی خاطر حکومت نے ۹ محافظ فراہم کررکھے ہیں ان میں سے تین کو ساتھ میں سفر کرنا ہوتا تھا مگر حملے کے وقت سب غائب تھے ۔ ٹرک کی نمبر پلیٹ کو چھپانے کے لیے کالک پوتی گئی تھی ۔ امیت شاہ اس بار دھوکہ، دھمکی اور لالچ سے راجیہ سبھا میں بھی طلاق بل منظور کروالیا مگر قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ جس دن اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا جشن منایا جانا تھا اس روز سپریم کورٹ نے ازخود اناو معاملے میں دلچسپی لے کر بی جے پی کے ہوش اڑا دیئے اور اسے اپنے رکن اسمبلی پارٹی سے نکالنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ذرائع ابلاغ سے طلاق ثلاثہ کو ہٹا کر کلدیپ سنگھ سینگر کا زعفرانی پنجہ چھا گیا ۔ یہ مشیت کا بھیانک انتقام تھا جس نے زعفرانی خیمے کےمنہ سے نوالا چھین کر کتوں کے آگے ڈال دیا ۔

یوگی کے بجائے کوئی حیا دار وزیراعلیٰ ہوتا تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرتا یا کم ازکم استعفیٰ دے دیتا لیکن بی جے پی والوں ایسی توقع ان کے بھکت بھی نہیں کرتے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک خاص وقت پر بی جے پی کا کریہہ چہرہ سینگر اور عدالت عظمیٰ نے بے نقاب کردیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کلدیپ سنگھ سینگر کے پاپ کا گھڑا بھر چکا ہے ۔ بی جے پی نے جب محسوس کیا کہ سینگر اسے بھی لے ڈوبے گا تو اس نے اپنے رکن اسمبلی کو گہرے پانی میں ڈھکیل دیا ہے۔ اسی کے ساتھ صدر مملکت کی دستخط سے طلاق ثلاثہ کابل اب قانون بن چکاہے۔یہ اسلام کے عائلی قوانین میں مداخلت ہونے کے سبب غیرآئینی ہے۔ اس کے تحت ایک نشست میں تین طلاق دینےوالےمردپرتین سال کی ظالمانہ سزا کا اطلا۱ق ہوگا ۔مسلمان مرداگراپنےآپ کو اس بدعت سےدوررکھیں توسزاسےبچ جائیں گے۔ان سےاگرغصہ میں یہ غلطی سرزدہوجائےاوربیوی اس پرمشتعل ہونےکےبجائےدارالقضاءسےرجوع کرےتب بھی ایک خاندان ٹوٹنےسےبچ جائےگااوردنیاکی کوئی عدالت سزانہیں دےسکےگی۔دونوں فریق اگریکےبعددیگرےغلطی کریں توشوہرجیل میں پہنچ جائےگا۔بیوی بچےبےیارومددگارہوجائیں گےاورطلاق بھی نہیں ہوگی۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ جیل سےباہر آنے کے بعد شوہراپنی بیوی کوطلاق دئیےبغیرمعلق چھوڑدے۔وطن عزیزمیں شادی شدہ معلق خواتین کی تعداد 24 لاکھ ہے جوایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ ابھی تک تو اس کا شکار ہندو خواتین ہیں مگر ممکن ہے آگے چل کر اس قانون کی طفیل اس مصیبت میں مسلم عورتیں بھی گرفتار ہوجائیں ۔طلاق ثلاثہ قانون پر راجیہ سبھا کے اندر بحث کے دوران غلام نبی آزاد نے ان معلق خواتین کاتذکرہ کیا جن کے شوہروں نے انہیں بغیر طلاق کے چھوڑ رکھا ہے۔ اس پر بھلا کوئی کیوں کان دھرتا کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی پربھی اس کی زد اس کی زد پڑتی ہے لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمان سی پی ٹھاکر نے آگے بڑھ کر ہندو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنےکی خاطر قانون سازی کا مطالبہ کر کے سب کو چونکا دیا ۔ انہوں نے طلاق کو مشکل بنانے کے بجائے آسان بنا نے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہندو خواتین کو شادی ختم کرنے میں بیس سال لگ جاتے ہیں۔ اس عرصے میں دوبارہ شادی کرنے کی عمر کےختم ہوجانے کے سبب ازدواجی زندگی پوری طرح تباہ ہوجاتی ہے۔ اس ایک اعتراف نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے سارے پروپگنڈے کی ہوا نکال دی اور مسلمان خواتین کے بجائے ہندوعورتوں کی دگرگوں صورتحال کو بے نقاب کشائی کردیا۔ ذرائع ابلاغ میں شادی کے بعد معلق خواتین کا مسئلہ زیر بحث آجانے سے سنگھ کا داوں خود اسی پر الٹ گیا۔

مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر سی پی ٹھاکر کے مطالہ پر قانون بنانے کی اخلاقی جرأت نہیں ہے۔ ویسے بی جے پی کو نہ تو مسلم خواتین کی فلاح و بہبود میں کوئی دلچسپی ہےاور نہ وہ ہندو خواتین کا بھلا چاہتی ہے۔ بی جے پی اس طرح کے غیر ضروری معاملات میں قوم کو الجھا کر اپنی نااہلی چھپانے اور ناکامیوں کی پردہ پوشی میں لگی رہتی ہے۔ اپنے بھکتوں کے جذباتی استحصال بی جے پی کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اسے گاہے بہ گاہے یہ پیغام دیتے رہنا پڑتا ہے کہ اچھے دن نہیں آئے تو کوئی بات نہیں ہم نے مسلمانوں کو اذیت تو پہنچادی ہے۔ اپنی بلا سے ہم اپنے وعدے پورے نہیں کرسکےمگر تمہیں خوش ہو نا چاہیے کہ ہم نے ان کو سبق سکھا دیا ہے۔ حزب اختلاف کے خیمے میں سیندھ لگا کر بل پاس کروا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کسی صورت بی جے پی کی حمایت نہیں کرسکتے۔

بی جے پی نے اپنے بھکتوں کے قلب و ذہن میں مسلمانوں کو ظالم و جابر بناکر پیش کیا ہے ۔ مسلمانوں کو جس طرح سیکولر جماعتیں سنگھ پریوار سے ڈراتی ہیں اسی طرح بی جے پی ہندووں کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرتی ہے۔ وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کی خاطر ہندووں کو متحد کرنے کی سعی کرتے ہوئے ان سے حمایت طلب کرتی ہے۔ ایسے میں اگر وہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت چھوڑ دے تو یہ گورکھ دھندا بے بنیاد ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اسلامی شریعت کی مخالفت کرکے اور مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرکے وہ نفرت و عناد کی آگ بھڑکاتی رہتی ہے تاکہ اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک سکے ۔ امت کی مخالفت گویا اس کی ایک انتخابی ضرورت ہے۔ ایک طرف حزب اختلاف پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگانا اور اس کی آڑ میں ہندووں کی خوشنودی حاصل کرنا اس کی حکمت عملی ہے۔ ا ایسی صورتحال میں ملت اسلامیہ کا اس کی حمایت کرنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟

ایوان بالا میں اقلیت کے باوجود طلاق ثلاثہ بل کی منظوری سے کئی آئینی اور اخلاقی کمزوریاں بھی اجاگر ہوگئی ہیں ۔ صدر مملکت کی دستخط کے بعد طلاق ثلاثہ کا بل قانون بن کرہندوستان کے آئین میں شامل ہوجائے گا ۔ اس بات کا امکان تو ہے کہ سپریم کورٹ اس کو مسترد کردے یا اس میں ترمیم کی سفارش کرے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے وہ ایسا کرنے سے گریز کرجائے ۔ ایسے میں صبح و شام آئین کے تقدس کی دہائی دینے والوں کے لیے مشکل کھڑی ہوجائے گی کہ جب وہ دستور کے تحفظ کی بات کریں گے تو اس کا اطلاق اس قانون کے پر بھی ہوجائے گا ۔ اس لیے اب دستور میں تبدیلی والا نعرہ تجویز کرنا ہوگا۔ اراکین پارلیمان کی اخلاقی سطح کو اس بل نے پوری طرح طشت ازبام کردیا ہے۔ کئی ایسی جماعتوں نے جو اس بل کی بظاہر مخالفت کررہی تھیں انہوں نے اس کے خلاف ووٹ دینے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرنےکا فیصلہ کیا ۔ اس فہرست کے اندراین ڈی اے میں شامل جے ڈی یو بھی ہے ۔ کئی لوگ غیر حاضر رہے جن میں مسلمان ارکان بھی تھے۔ اس کی وجہ غالباًدھونس دھمکی میں آکر بلیک میل ہوجانا یا دولت کی لالچ میں اپنے ضمیر کی آواز کو کچل دینا تھا ۔ ایوان پارلیمان میں بھی اگر ارکان کا اخلاقی معیار اس قدر پست ہو تو ملک کے عوام ان سے کیا توقع کرسکتے ہیں؟ یہ نہایت بنیادی قسم کا سوال ہے اس لیے کہ اخلاق سے عاری سیاست کا زہر کسی ایک فرقہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ پورے سماج کو لے ڈوبے گا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451239 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.