چھ ماہ کا عرصہ گُزر گیا۔۔ لیکن بابا وقاص
کے اچانک جانے کی وجہ عمران کو معلوم نہ ہُوسکی۔ اور اِس عرصہ میں کبھی
کوثر نے بھی عمران کی پلٹ کر خبر نہ لی۔
عمران کی صحت پر اس واقعہ کی وجہ سے کافی منفی اثرات مُرتب ہوئے تھے اور اب
ہر وقت چہکنے والا عمران اکثر خاموش رہنے لگا تھا۔
نہ ہی کسی سے مذاق نہ کسی سے دلگی کی باتیں۔۔۔ بس ہر وقت آنکھوں میں ایسی
اُداسی چھائی رہتی جیسے کوئی اپنا۔۔ جو بُہت خاص ہُو خفا ہوگیا ہو۔
وقت پر لگا کر اُڑتا گیا پھر اچانک ایک دِن عمران کی نگاہ خادم حُسین پر
پڑی وہ کسی سبزی فروش سے بھاؤ تاؤ پر اُلجھ رَہا تھا ۔۔
عِمران کی آنکھوں میں خادم حُسین کو دیکھ کر اُمید کی ایک کرن چمکی وہ فوراً
خادم حُسین کی جانب بڑھا ۔ خَادم حُسین سُودا اُٹھا کر پلٹ رہا تھا کہ
عمران سے ٹکرا گیا۔ تمام سودا خادم حُسین کے ہاتھوں سے نیچے گِر گیا۔
ایک لمحے کیلئے خَادم حُسین کے چہرے پر غُصہ کے تاثرات اُبھرے لیکن عِمران
کے چہرے پہ نِگاہ پڑتے ہی فوراً تمام غُصہ خادم حُسین کے چہرے سے رَفو
ہوگیا اور خادِم حُسین کے مُنہ سے نِکلا ،، عمران بابا آپ ،، کہاں تھے
عِمران بابا میں کب سے آپکو تلاش کر رہا تھا؟
خادم حُسین تُم نہیں جانتے مجھے تُمہارے مِلنے سے جو اطمینان آج مجھے حاصِل
ہوا ہے یہ چھ مہینے سے میری زِندگی سے مفقود تھا،، تُم سامان اُٹھاؤ اور
میری بائیک پر بیٹھ جاؤ مجھے تُم سے ڈھیروں باتیں کرنی ہیں۔ خادم حُسین نے
سامان کا شاپر اُٹھایا اور عِمران کی بائیک پر سَوار ہوگیا۔
عِمران نے خادم حُسین سے معلوم کیا کہ وہ کہاں جارہا تھا ۔ جواب میں خادم
حُسین نے عمران کو اپنے گھر کا پتہ بتا دِیا۔ عِمران نے مُناسب سمجھا کہ
بجائے کسی ہوٹل پر بیٹھ کر بات کرنے کہ خادم حُسین کے گھر ہی چلنا چاہیئے
ورنہ خادم حُسین کے گھر والے اُسکا انتظار ہی کرتے رہیں گے۔
گھر پُہنچنے کے بعد خادم حُسین نے چند لمحوں کے انتظار کے بعد اپنی بیٹھک
کا دروازہ کُھول دیا تمام بیٹھک خالی پڑی تھی سوائے ایک چارپائی کے کوئی
اور شے عِمران کو اِس بیٹھک میں نظر نہیں آئی خادم حُسین نے ننگی چارپائی
پر ایک رَلّی بِچھا دِی۔
خادم حُسین عمران کیلئے چائے بنوانا چاہتا تھا لیکن عمران کو اُسکی چائے سے
زیادہ اِس بات کو جاننے میں زیادہ دلچسپی تھی کہ آخر کیوں اُس دِن بابا
وقاص اچانک واپس چلے گئے تھے۔ اور اب بابا صاحب کہاں ہیں۔ عمران کی ضد پر
خادِم حُسین چارپائی کے دوسرے کِنارے پر بیٹھ گیا۔
خادم حُسین بابا وقاص کہاں ہیں اور اُس دِن اچانک واپس کیوں چلے گئے تھے
آخر ایسی کیا مجبوری آ پڑی تھی کہ بابا صاحب کو مُجھے بھی اطلاع دینے کا
مُوقع مُیسر نہیں آیا ؟
یہ تُو مجھے بھی نہیں پتہ کہ اُس دن ایسی کیا بات ہُوئی تھی۔ مجھے تُو بس
اتنا معلوم ہے کہ اُس دِن آپ کے جانے کے بعد جب بابا صاحب محفل سے واپس
تشریف لائے تو بُہت رنجیدہ تھے آستانے میں داخل ہونے کے بعد مسلسل اپنا سر
پکڑے بیٹھے رہے میں نے بابا صاحب سے بُہت معلوم کیا کہ وہ اتنے دِل گرفتہ
کیوں ہیں مگر بابا صاحب نے مجھے کوئی جواب نہیں دِیا سوائے اِسکے کہ ایک
مرتبہ اُنہوں نے اِتنا ضرور کہا تھا کہ،، مجھ سے بڑی غلطی سرزد ہوگئی جو
بِنا جانے کسی بادشاہ کی رِیاست میں مُداخلت کر بیٹھا،، اسکے بعد اُنہوں نے
میرے کسی سوال کا جواب نہیں دِیا اور اپنا سامان پیک کرنا شروع کردِیا میں
بھی بادل نِخواستہ اُنکا ہاتھ بٹاتا رہا۔
کیا ایک مرتبہ بھی بابا صاحب نے جانے سے قبل میرا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
عِمران نے خادم حُسین کی بات کو درمیان سے کاٹتے ہوئے سوال کیا۔
نہیں عمران بابا اُنہوں نے تو کوئی تذکرہ نہیں فرمایا تھا لیکن جب بابا
صاحب گاڑی میں سُوار ہو رہے تھے تُو میں نے بابا صاحب کو یاد دِلایا تھا کہ
آپ تو عمران بابا کے ساتھ لاہور جانے والے تھے اور میں اُنہیں کیا جواب
دُونگا جب وہ مُجھ سے آپکے متعلق سوال کریں گے۔ میرے سوال کے جواب میں بابا
صاحب نے فقط اتنا فرمایا تھا کہ عمران کی پروا تُم نہ کرو بُہت بڑی بڑی
ہستیوں کی اُس پر نظر ہے وہی اُسکا خیال رکھیں گے۔
لیکن بابا صاحب اب ہیں کہاں؟ عمران نے اپنے سوال کو دوبارہ دُہرایا۔
کیا آپکو معلوم نہیں کہ بابا وقاص صاحب کو دُنیا سے پردہ فرمائے ہوئے تُو
چار ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ خادم حُسین نے حیرت سے عمران سے استفسار
کیا۔
خادِم حُسین کی اِس اطلاع سے عِمران کو یُوں محسوس ہُوا گویا جیسے کِسی نے
عمران کے دِل کو اپنی مُٹھی میں پکڑ کر دَبوچ ڈالا ہُو۔
کیا بابا وقاص اب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ عِمران کے مُنہ سے بھنچی بھیچی
سی آواز نکلی۔
نہیں عِمران بابا میں تو سمجھا آپکو معلوم ہوگا۔ یہاں سے جانے کے بعد بابا
صاحب نے بستر پکڑ لیا تھا کراچی کے بڑے بڑے اسپتالوں میں بابا صاحب کو
دِکھایا گیا لیکن کوئی اِفاقہ نہیں ہُوا۔
مزید دو مہینے کا عرصہ گُزر گیا پہلے دِل کے کسی کونے میں جو بابا وقاص سے
مُلاقات کی ایک اُمید قائم تھی اب وہ بھی نہ رہنے سے عمران کی صحت مزید
گِرتی چلی گئی۔
ایک شام عمران کو اچانک کھانسی کا دورہ پڑ گیا ۔ حالانکہ ایسی کھانسی عمران
کو کبھی زندگی میں لاحق نہیں ہُوئی تھی۔ جب کھانسی کی تکلیف عمران کی
برداشت سے باہر ہونے لگی تو ناچار عمران بائیک پر سوار ہوکر ڈاکٹر کی جانب
روانہ ہوگیا شہر جاتے ہوئے آج پھر طبیعت نے چاہا کہ اُنہی گلیوں سے گُزرا
جائے جو کبھی زندگی کا مِحور ہُوا کرتی تھیں بابا وقاص کے مکان آنے سے قبل
ہی حیرت انگیز طور پر موٹر بائیک کا پٹرول ختم ہوگیا اور کھانسی بھی اچانک
ختم ہوگئی عمران نے بائیک اسٹارٹ کرنے کی حَتی الامکان کوشش کی لیکن کوئی
کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
عمران بائیک سے اُتر کر موٹر بائیک کو گھسیٹنے لگا چند قدم چلنے کے بعد ایک
مانوس سی خُوشبو عمران کے مسام دِماغ کو مُعطر کرنے لگی۔
عمران اِس خُوشبو کو بھلا کیسے بھول سکتا تھا۔ یہ خُوشبو تُو اسکے محبوب کی
خُوشبو تھی۔ بے ساختہ عمران کے لبوں سے نِکلا،، کوثر، کوثر۔۔ کہاں ہُو تُم؟
اور پھر عمران نے ایک سائے کو درختوں پر رینگتے دِیکھا۔
یہ سایہ بھی کسی غیر کا نہیں تھا بُلکہ اُسی کا تھا کہ جسکی وجہ سے عِمران
کی آج یہ حالت تھی۔ عمران چِلانے لگا ۔۔ کوثر کہاں ہُو تُم سامنے کیوں نہیں
آتی ہو ۔۔۔ دیکھو تو سہی تُمہاری جُدائی نے مُجھے کِس حال کو پُہنچا دِیا
ہے۔
اچانک ایک درخت کے عقب سے کوثر کی مترنم آواز گُونجی۔۔ عمران آج تُم مجھے
دِیکھ نہیں پاؤ گے اور خُدا کیلئے مجھ سے زیادہ سوال بھی نہیں کرنا صرف
میری باتوں کو غور سے سُننا۔ کہ میرے پاس زیاد وقت نہیں ہے۔
کہو کوثر میں تُو کب سے تُمہاری پُکار کا منتظر ہُوں۔
دیکھو عمران میں نے تُم سے حقیقت میں مُحبت کی تھی لیکن مجھے جِس راستہ سے
تُمہاری جانب بڑھنا چاہیے تھا ۔ میں اُس راستے سے تُمہاری زِندگی میں داخل
نہیں ہوئی کیونکہ مجھے خَدشہ تھا کہ تُمہیں مجھ سے جُدا کردِیا جائے گا
لیکن میں پھر بھی یہ اقرار کرتی ہُوں کہ میں غلط تھی۔ اور آج اپنی غلطی کی
سَزا بھی بھگت رہی ہُوں اور ابھی مزید ساڑھے نو سال مجھے یہ سزا مزید
بھگتنی ہے میں ہر گز آج بھی تُمہاری زندگی میں مُداخلت نہیں کرتی۔
لیکن مجھے آج موقع دِیا گیا ہے کہ میں اپنی مُحبت کا ثبوت دیتے ہُوئے
تُمہیں سمجھاؤں کہ۔۔ میری مُحبت کو اپنی زندگی کا رُوگ نہ بناؤ۔۔۔ میں پہلے
بھی تُمہاری تھی اور آج بھی تُمہاری ہُوں لیکن ہمارا مِلن فی الحال ممکن
نہیں ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے میری سزا ختم ہونے کے بعد مجھے تُمہاری قربت کی نعمت
مُیسر آجائے۔۔ لیکن تُم نہیں جانتے کہ جو طُلم تُم اپنے وجود پر کررہے ہُو۔۔
جس طرح تُم نے اپنی زندگی کی تمام خُوشیوں کو خُود سے دور کردیا ہے۔۔۔ اسکا
ذمہ دار بھی میں خُود کو سمجھنے لگی ہُوں۔۔
اسلئے اگر تُمہیں مجھ سے واقعی مُحبت ہے تُو یُوں اپنی زندگی کے چراغ کو
بجھنے نہ دُو اور واپس اپنی زندگی کی جانب لُوٹ جاؤ۔ اگر تُم خوش رَہو گے
تُو یقین جانو میری سزا کے دِن بھی اطمینان سے گُزر جائیں گے ورنہ مجھے اِس
سزا کے ساتھ ایک اور بھی سزا بھی برداشت کرنی ہوگی اور وہ اِحساسِ جُرم و
ندامت کی سزا ہوگی جو اِس سزا سے کہیں بڑھ کر سزا ہوگی۔
اور سُنو جب یہ سزا کی مُدت پوری ہوجائے تو تُم وادیِ ناران ضرور آنا۔۔ میں
زیادہ کُچھ نہیں کہہ سکتی لیکن اِتنا ضرور کہوں گی کہ تُمہار یہ سفر
رائیگاں نہیں جائے گا۔
لیکن کوثر میں یہ ساڑھے نو برس تُمہارے بغیر گُزارونگا کسطرح؟ عمران نے ایک
فریادی کی طرح التجا کی۔۔
لیکن کوئی جواب صدا کی صورت پلٹ کر نہیں آیا۔۔۔۔ دھیرے دھیرے وہ خُوشبو وہ
اِحساس جو ابھی اِس ویرانے میں عِمران کو طمانیت کا احساس دِلا رہا تھا
فضاء میں بکھرنے لگا۔
عِمران جان چُکا تھا کہ کوثر واپس جاچُکی ہے لیکن اب عِمران کی طبیعت میں
بے چینی نہیں تھی ایک اُمید کا دِیا تھا جُو کوثر پھر سے جَلا گئی تھی وہ
اِس راز کو سمجھ چُکا تھا کہ مُحبت صرف پانے کا نام نہیں بلکہ ایک جذبے کا
نام ہے جسکا ایک نام قُربانی بھی ہے۔
عِمران نے بے خیالی میں بائیک پر بیٹھ کر جونہی کِک لگائی تو بائیک کا انجن
بھی انگڑائی لے کر جاگ اُٹھا۔ |