مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری شناخت،
میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان بھی، اس لفظ ''پاکستانی'' سے میرا
وہ رشتہ ہے جو کسی تتلی کا پروں سے، پنچھی کا اڑان سے اور کسی شخص کا اپنے
نام سے ہوتا ہے، آباء اجداد نے بڑی تگ و دو، جدوجہد اور قربانیوں کے بعد
حاصل کیا ہے اور اب اسے برقرار رکھنا اور اس پر فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی
اہم ہے جتنا اپنے آباء اجداد کے چھوڑے ہوئے ترکے مال اور وراثت پر اپنا حق
سمجھنا اور صرف میرا ہی کیوں، یہ تو ہر اس شخص کا حق ھے جو اس مملکتِ
خداداد میں پیدا ہوا ہے اور اپنے ساتھ یہ پہچان رکھتا ہے،پاکستان کا قیام
سب قدر، جمعۃ الوداع ماہ ''رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 آگست 1947عمل میں
آیا''، ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب
قدر جو ہزارمہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات
کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے، ''13 اپریل 1948'' کو اسلامیہ کالج پشاور
میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین
کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے
جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں'' اور میں مزید بتاتا
چلوں کے بابائے قوم نے کیا خوب فرمایا کے یہ پاکستان اسی دن یہاں قائم
ہوگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا، حقیقت یہ ہے کہ
برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا
تھا، انگریزوں اور اُن کے نظام سے نفرت اور بغاوت کے واقعات وقفے وقفے سے
بار بار سامنے آتے رہے تھے، برطانوی اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے
مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور جو بے مثال جدوجہد کی ہے، یہ ان
کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے،
انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل
میں آیا ہے۔جب ہم تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس تاریخی
جدوجہد میں یہ بات سب سے زیادہ نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے کہ مسلمان
اپنے جداگانہ اسلامی تشخص پر منحصر تھے، یہی نظریہ پاکستان اور علیحدہ وطن
کے قیام کی دلیل تھی، ہر قسم کے جابرانہ و غلامانہ نظام سے بغاوت کرکے خالص
اسلامی خطوط پر مبنی نظام حیات کی تشکیل ان کا مدعا اور مقصود تھا، جس کا
اظہار و اعلان قائد اعظم محمد علی جناح نے بار بار اپنی تقاریر اور خطابات
میں کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران
برصغیر کے کونے کونے میں ''لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کر رہیگا ہندوستان''
اور پاکستان کا مطلب کیا؟''لا الہ الا اﷲ ''یہ نعرے برصغیر کے مسلمانوں کے
دلی جذبات کے حقیقی ترجمان ہیں اسی طرح ہم آج آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں
تو اُن شہیدوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کے لئے قربان کیا،
پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے ایک آزاد مملکت کے لئے
مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں، تاریخ گواہ ہے بھارت سے آنے والی ٹرینیں
مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی جب ''لاہور اور سندھ کے باڈر میں داخل ہوئی
تو ان ٹرینوں میں بے تہاشہ کٹی پٹی لاشیں موجود تھی مگر پھر بھی پاکستان
میں رہنے والے ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو ملک ِ پاکستان میں مکمل
تحفظ آج 73 سال بعد تک فراہم کیا جا رہا ہے مگر آج بھی ہندوستان میں
مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیرمیں ہندوستان کے مظالم کی
داستانوں میں سے ایک داستان ہے،
آج جب ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے
کہ آزادی ایک نعمت ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے ہم پر جو احسان کیا ہے
ہم وہ احسان کبھی نہیں اتار سکتے مگر ہم پاکستان کو جناح کا پاکستان بنا کر
قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو تسکین پہنچا سکتے ہیں، بابائے قوم قائد
اعظم محمد علی جناح نے ''11آگست 1947'' کی تقریر میں واضع کر دیا تھا کہ
''لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست
کو کوئی سروکار نہیں ہوگا، آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں، مساجد اور چرچز میں
جانے کے لیے '' آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ نوجوان نسل قائد اعظم کی
اساسی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیلِ نو، جدوجہد اور
شہیدوں کی قربانیوں سمیت ملکِ پاکستان کو مزید ترقی پر پہچانے کے لیے تعلیم
پر توجہ دے، اسکول اور کالج میں تاریخِ بر صغیر سے متعلق طلبا و طالبات
کومضامین پڑھائے جائیں تاکہ و ہ ملکِ پاکستان کی بنیادوں کو مزید مستحکم
بنائیں ''پاکستان زندہ آباد ''
اختتام ان اشعار پر کرنا چاہوں گا۔ ملاحظہ فرمائیں
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنوں، اٹھو اہل وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر، نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
ملک ہیں اتفاق سے آزاد، شہر ہیں اتفاق سے آزاد
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی، اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
|