صدر ضیاءالحق کی بیٹی کا نکاح

صدر ضیاءالحق کی بیٹی کا نکاح
(از مفتی تقی عثمانی مدظلھم)

صدارت کے زمانے میں جب مرحوم کی پہلی صاحبزادی کا نکاح ہوا تو جناب مولانا ظفر احمد صاحب انصاری کے ذریعے حضرت رحمۃ اللہ علیہ (مفتی صاحب کے شیخ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ
’’میرا نکاح حضرت مفتی محمد حسن صاحب نے پڑھایا تھا۔
میرے بھائی کا نکاح حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے پڑھایا، اور اب میری خواہش ہے کہ میری لڑکی کا نکاح بھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے کوئی خلیفہ پڑھائیں،
اس لیے اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو حضرت نکاح پڑھانے کو منظور فرما لیں۔‘‘ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’اتنی ساری نسبتوں کے بعد میں کیسے انکار کر دوں؟‘‘
چنانچہ حضرت نے نکاح پڑھانا منظور فرما لیا۔
اس سفر میں برادر محترم حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم اور احقر کو بھی حضرت کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔
جب طیارہ راولپنڈی پہنچا تو صدر محترم خود پروٹوکول اور سیکیورٹی کے انتظامات سے بےنیاز جہاز کی سیڑھیوں پر حضرت کے استقبال کے لیے موجود تھے اور حضرت کی تشریف آوری پر احسان مندی کے جذبات سے بچھے جاتے تھے۔
جہاز ہی سے حضرت کو گاڑی میں بٹھا کر روانہ ہوئے۔
راستے میں مختلف باتوں کے دوران عرض کیا کہ ’’حضرت میرا دل تو یہ چاہتا تھا کہ آپ میرے گھر پر قیام فرمائیں،
( مرحوم صدارت کے زمانے میں بھی ایوان صدر کے بجائے اپنے آرمی ہاؤس میں آخر تک قیام پذیر رہے) لیکن پھر میں نے آپ کے قیام کے لیے ایوان صدر کو اس لیے ترجیح دی کہ اس کو برکت حاصل ہو۔‘‘
یہ کہہ کر حضرت کو ایوان صدر میں ٹھہرایا، اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ ’’سفر میں تعب ہوگیا ہوگا،
آپ کچھ دیر آرام فرما لیں،
عشاء کے بعد میں آکر نکاح کے لیے آپ کو لے جاؤں گا۔‘‘
عشاء کے بعد پھر آئے اور حضرت کو اپنے مکان پر لے گئے، جہاں نکاح ہونا تھا۔ نکاح کی مجلس ان کے ڈرائنگ روم میں منعقد ہوئی۔
وہاں صوفے ہٹا کر فرشی نشست کا انتظام کیا گیا۔
نکاح کی مجلس انتہائی سادہ اور مختصر تھی، مشکل سے بیس پچیس آدمی ہوں گے جن میں گھر کے افراد کے علاوہ ملتان میں حضرت تھانوی قدس سرہ کے خلیفہ حضرت حاجی محمد شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا ظفر احمد انصاری، دو تین علماء، دو تین وزراء اور فوج کے چند اعلی افسران شامل تھے۔
دو گاؤ تکیوں پر حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما تھے اور سامنے باقی لوگ بیٹھے تھے۔
صدر مرحوم انہی لوگوں کے درمیان ایک عام آدمی کی طرح با ادب بیٹھے رہے۔

نکاح کے بعد ڈاکٹر صاحب قدس سرہ نے اپنی عادت کے مطابق نصیحتیں شروع فرما دیں، اور تقریباً گھنٹہ بھر تک یہ محفل حضرت کی مجلس ارشاد میں تبدیل ہوگئی۔
اسی دوران اسی کمرے میں فرش پر کھانے کے لیے دسترخوان بچھائے گئے،
وہیں پر کھانا ہوا، کھانے کے بعد پھر حضرت کے مواعظ کا سلسلہ جاری رہا۔
( نقوش رفتگاں 280، 281 )
 

Kamran Buneri
About the Author: Kamran Buneri Read More Articles by Kamran Buneri: 28 Articles with 440132 views Professional Martial Arts Instructor ,
Wing Chun Master, writing
Fitness Trainer
.. View More