سلامتی کونسل اجلاس اور مسئلہ کشمیر

کشمیر کے معاملے میں ہونے والی تمام پیش رفت کے اہم نکات:
گزشتہ پانچ دہائیوں میں کشمیر کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کے ڈاکٹ تک نہ پہنچنے دینا بھارتیوں کی کامیاب ترین حکمتِ عملی تھی اور اس کا سہرا گزشتہ تمام بہترین بھارتی سفارت کاروں کے سر ہے۔ ایسی بہترین بھارتی حکمتِ عملی کو چائنہ کے ذریعے سے ناکام بنا دینا موجودہ حکومت کی بہترین پیش رفت تھی۔

بعد ازاں چھے اگست کو بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں صورتِ حال یہ رہی کہ روس نے کشمیر کے معاملے میں بھارت کے فیصلے کی حمایت کی اور 370 اور 35A کی تبدیلی کو بھارت کا اندرونی مسئلہ گردانا۔ جبکہ چین نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو باہمی بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی تلقین کی۔

سلامتی کونسل کے اجلاس ختم ہونے کے بعد چینی سفیر نے کشمیر کے حالات کو خطے کے امن کے لئے خطرہ گردانتے ہوئے دونوں ممالک کو باہمی گفتگو سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا مشورہ دیا۔

روسی سفیر نے کہا کہ ہمارے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت سے اچھے تعلقات ہیں۔ ہم ان تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔ہمارا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں۔ ہم اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں سے بدستور تعلقات قائم رکھیں گے۔

جب کہ پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی ان کی آواز کو پوری دنیا سنے گے۔ ہم آخری سانس تک کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کے اجلاس نے بھارت کا دعوی، کہ جموں کشمیر کا مسئلہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے، کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

پاکستانی اور چینی سفیروں نے صحافیوں کے سوالات سنے بغیر وہاں سے چلے گئے

جب کہ بھارت کی جانب سے بھیجے گئے مسلمان بھارتی سفیر سید اکبر الدین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل نے کشمیر مسئلے کو بھارت کا اندرونی مسئلہ تسلیم کیا ۔

بھارتی سفیر سید اکبر الدین نے صحافیوں کے چھے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ بھارت کشمیر کے معاملے کو بین الاقوامی مسئلہ تسلیم نہیں کرتا۔ ان چھے میں سے چار سوالات کرنے کا موقع پاکستانی صحافیوں کو دیا گیا۔ پاکستانیوں کے سوالات کے جوابات میں اکبر الدین نے کہا کہ ہر نیا معاہدہ پرانے معاہدے کی جگہ لے لیتا ہے ہے۔اگر پاکستان دہشت گردانہ سرگرمیاں روک دے تو ہم آج بھی شملہ معاہدے کے مطابق بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ اکبر الدین نے کہا کہ ایک ملک جہاد جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے بھارت پر جنگ مسلط کر رہا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی بات چیت کے ذریعے سے تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔

اس تمام تر پیش رفت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کشمیر کے معاملے کو چین کی مدد سے بین القوامی فورم تک لے جانے میں تو کامیاب رہا لیکن بین القوامی برادری کو کشمیر کے معاملے میں بھارت کے برے عزائم سے اور کشمیریوں کی پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش سے آگاہ کرنے میں ناکام رہا۔ مزید برآں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا میڈیا سے بات کرتے وقت 370 یا 35A کا تذکرہ نہ کرنا اور صحافیوں کو سوالات کا موقع نہ دینا بھی تشویشناک ہے۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ سلامتی کونسل نے بھارت کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا تو بھی کیا کشمیریوں پر ظلم و ستم ختم ہوا یا کم ہوا۔ مان بھی لیا جائے کہ سلامتی کونسل نے مسئلہِ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرار داد کے مطابق حل کرنے کا حکم دیا ہے تو کیا پچھلے 70 سال میں اس قرارداد پر عمل ہوا یا آنے والے 70 سالوں میں اس قرارداد پر عمل ہو پائے گا۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِا الصَّوَابْ
 

Muhammad Talha Farid Chishti
About the Author: Muhammad Talha Farid Chishti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.