یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسبان اس کے

تحریر: راحیلہ چودھری
14 اگست جیسے موقعوں پر ٹی وی پہ چلنے والے ایسے بہت سے ملی نغمے کچھ وقت کے لیے اپنے وطن اور قائد سے قریب کر دیتے ہے۔ یہ ملی نغمے سن کر اندر کوئی چنگاری سلگتی ہے جو ایسے دنوں میں کچھ جذبے بیدار کر دیتی ہے۔ اگست کے آغاز سے ہی روزانہ آنکھوں کے سامنے سے قائد کی جدو جہد اور ذہن کے دریچوں پر مسلمانوں کی قربانیوں کی داستانیں بار بار دستک دیتی ہیں اور ایک فلم کی طرح وہ سارے واقعات ذہین کے سامنے سے گزرتے ہیں جو قیام پاکستان کے وقت پیش آئے۔

قائداعظمؒ نے فرما یا تھا، ’’ہم نے صرف پاکستان کا مطالبہ نہیں کیا جو کہ زمین کا ایک ٹکڑا ہے بلکہ ہم نے ایسی ریاست کو چاہا ہے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔ پاکستان بنانے کے بعد اﷲ کی رضا سے وہ اتنا عرصہ زندہ نہ رہ سکے کہ اس ملک کو ایک اسلامی ریاست بنا سکتے۔ ان کے بعد بحثیت مسلمان اور بحثیت پاکستانی قوم کے یہ ہمارا فرض تھاکہ اس ملک پاکستان کو ہم سب مل کر حقیقی معنوں میں اپنے عمل سے ایک اسلامی ریاست بناتے مگر افسوس پاکستان میں جس طرف نظر دوڑائیں دل خون کے آنسو روتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے جس مقصد کے لیے اس ملک کو حاصل کیا تھا۔ اس مقصد اور قائد کے اصولوں کو تو ہم کب کے بھول چکے ہیں۔ ملکی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اتحاد ہم میں باقی نہیں رہا۔ یقین ہم کب کا کھو چکے ہیں۔ ایمان کب کا بک چکا ہے۔ رشوت، سود، بے ایمانی، کرپشن یہاں تک کے محافظ ادارے خود سب سے بڑے ڈاکووں کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔

ذرا ایک لمحے کو قیام پاکستان کے وقت کا تصور کیجیے۔ جب پاکستان آتے ہوئے مسلمانوں کے قافلے لوٹ لیے گئے تھے۔ جب ہمارے مسلمانوں کو اپنے خونی رشتوں کی لاشوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا۔ مائیں اپنے بھوکے بچے کھیتوں میں چھوڑ کر آگئیں۔ ماؤں، بہنوں کی عصمتوں کو سر عام لوٹا گیا۔14 اگست 1947کے سنگِ میل پر جدوجہد ختم ہونے کا یہ طویل باب اپنے دامن میں بے شمار روح فرسا داستانیں لیے ہوئے ہے۔ جس سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو۔ یہ سب داستانیں کہنی، لکھنی، سسننی، پڑھنی بہت آسان ہیں مگر ایک لمحے کے لیے سوچیں جو لوگ قیام پاکستان کے وقت مر گئے ان سے جڑے لوگوں کی زندگیاں ان کے بعد کیسے گزری ہوں گی۔ آج ہمارے پاکستان کے جو حالات ہیں یہ سب دیکھ کر قائد اور ان تمام مسلمانوں کی روحیں روتی ہوں گی جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنی جانیں دیں۔
کیا ایسا تھا وہ ملک پاکستان جس کے لیے ہمارے قائدؒ نے اتنی جدوجہدکی؟ کیا ایسے تھے وہ نوجوان جن کا اقبالؒ نے خواب دیکھا تھا؟ کیا اس نوجوان کے لیے قائدؒ نے یہ پاکستان حاصل کیا جو گھر سے تو پڑھنے کے لیے نکلتا ہے اور علمی اداروں میں اپنی ہی مسلمان بہنوں کی عزیتیں لوٹتا پھر رہا ہے۔ دوسری طرف قائدؒ کی نوجوان بیٹیاں جو گھر سے بن سنو ر کر سینما گھروں کے باہر لمبی قطاروں میں بھارت سے آنے والی ہر نئی فلم کو بزنس دینے کے لیے صف ِ اول میں کھڑی ہیں۔ اسی بھارت کو جو اس وقت ہمارے مسلمان کشمیری بہن بھائیوں پر ظلم اور تشدد کی انتہا کیے ہوئے ہے۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو بری طرح مغرب کے بچھائے ہوئے ’’ٹرینڈ‘‘ کے جال میں پھس چکے ہیں جنہوں نے مستقبل میں نبیﷺ کی امت کے بچوں کے والدین بننا ہے یہ نوجوان اقبالؒ اور قائدؒ کے پاکستان کوتربیت یافتہ غیرت مند مسلمان کیسے دیں گے؟

کیا 14اگست اور اگست کا مہینہ ہر سال اس لیے آتا ہے کہ اسے ٹی وی چینلز پر ایک برتھ ڈے کی طرح منا کر گزار دیا جائے؟ آج یہ سوچنے کا دن ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم نے کیا کرنا ہے۔ جس ملک کو اﷲ نے جناحؒ اور اقبالؒ جیسی عظیم شخصیات سے نوازا ہو۔ اس ملک میں مسائل کیسے کم نہیں ہو سکتے۔ اس ملک میں باکردار لوگ کیسے نہیں پیدا ہو سکتے؟ کمی کس چیزکی ہے۔ کمی ہمارے علم اور عمل کی ہے۔ قا ئد اعظمؒ نے ایک موقع پر فرما یا تھا، ’’ہر مسلمان کو دیانت داری خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے‘‘۔ ہماری سب سے بڑی غلطی ہی یہ ہے کہ ہم نے قائدؒ اور اقبالؒ کی زندگی کو نہ پڑھا اور نہ ان سے کچھ سیکھا۔

قائد اعظمؒ ایک عظیم انسان تھے ان کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے سخت ڈسپلن اپنی شخصیت پر نافذ کیا تھا۔ عیش و آرام اور آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری۔ وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لیے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ جن سخت ضوابط کی توقع وہ دوسروں سے کرتے تھے ان کی پابندی سب سے پہلے خود کرتے تھے۔ کام، کام اور صرف کام کا اصول دوسروں کے لیے بعد میں اور اپنے لیے پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سی زندگی میں تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تا ریخ قاصر ہے۔ ان کے قول و فعل میں تاثیر کی وجہ بھی ان کی عملی سچائی تھی۔ ان کی دیانت دارانہ زندگی نے ان کی قیادت کو کرشماتی بنا دیا تھا۔ پاکستان میں لوگ اپنے مسا ئل حل کرنے کے لیے دوسروں کے لیے مسائل پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی تو سکون سے گزر رہی ہے جب کے حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا مکافات عمل ضرور ہوتا ہے۔ کسی بھی عہدے پر کام کرنے والا انسان غلط طریقے سے پیسہ کمانے کے لیے صرف اپنے کام سے خیانت نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہوتا ہے اور اپنے ملک کے ساتھ غداری بھی کرتا ہے۔ جو انسان بھی اپنے اندر عقیدہ آخرت، احساس جواب دہی، حلال حرام کا فرق ان تین چیزوں کو اپنے اندر بیدار رکھے تو سارے معاملات درست رہیں۔ اگر ہر انسان اپنے ساتھ یہ وعدہ کرے کہ میں نے برائی کو ختم کرنا ہے اور اچھائی کو نافذکرنا ہے تووہ کر سکتا ہے۔ یاد رکھیے اچھائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ وہ اپنا آپ منوا کر رہتی ہے۔ اچھائی کا سفر تنہا اور طویل ضرور ہوتا ہے لیکن وہی انسان کا اصل سرمایہ ہوتا ہے۔

عقیدہ آخرت اور حلال حرام کا فرق اگر یہ دو چیزیں پاکستانی قوم میں بیدار ہو جائیں تو ہمارے سارے معاملات، ہمارے سب ادارے سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں۔ آخر میں، قائد اعظمؒ نے فرمایا، ’’امید، ہمت اور خود اعتمادی میرے ہم وطنوں کے لیے یہی میرا پیغام ہے‘‘۔ قائدؒ کا بہت خوبصورت پیغام جسے ہم بالکل بھول چکے ہیں۔ پاکستانی قوم میں اس وقت ان تینوں چیزوں کی شدید کمی ہے۔ امید، ہمت او ر خود اعتمادی یہ تینوں چیزیں ایک مسلمان ایک مومن کے کردارمیں اس وقت پیدا اور مضبوط ہوتی ہیں جب اس کا تعلق اﷲ، رسولﷺ (مطالعہ سیرت و حدیث) اور قرآن سے مضبوط ہوتا ہے۔ آج افسوس کے ساتھ ملکی مسائل، نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسا ئل کی اصل وجہ ہی قرآن، حدیث اور کلام اقبال سے دوری ہے۔ جب تک ہر انسان ذاتی طور پر ان سب چیزوں سے اپنا تعلق مضبوط نہیں کرے گا وہ اپنے مقصد حیات کو تلاش نہیں کر سکتا۔ مقصد حیات کے بغیر اس ملک کو ایک اسلامی ریاست تو کیا ہم کچھ بھی نہیں بنا سکتے۔جب تک پاکستان کا نوجوان بے مقصد زندگی نہیں چھوڑے گا اس وقت تک ہم اس پاکستان کو اقبال اور قائدکاپاکستان نہیں بناسکتے۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.