بھارتی یوم آزادی کے موقع پر بھی مقبوضہ کشمیرکے ایک کروڑ
سے زیادہ عوام5اگست سے گھروں میں نظر بند ہیں۔مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ اعلان دفعہ
144کا کیا گیا۔ مگر عملاً کرفیو نافذ ہے۔ لازمی سروسز کے لئے کرفیو پاس
جاری کئے گئے ہیں۔ بھارتی فورسز ان پاسز کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت نے
جب سے آرٹیکل 370اور35اے کو صدارتی حکم نامے سے ختم کیا ہے، تب سے کشمیریوں
کو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے تا کہ وہ وہ احتجاج کا اپنا حق استعمال نہ کر
سکیں۔ بھارت نے مقبوضہ ریاست پر صدر راج نافذ کیا ہوا ہے۔ دہلی کا نظام
گورنر چلا رہا ہے۔ گورنرآئین ساز اسمبلی کی سفارشات پر ہی بھارت کا کوئی
آئین نافذ کرنے یا اسے مسترد کرنے یا اس میں کوئی ترمیم کرنے کا اختیار
رکھتا ہے۔تا ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی 1957میں تحلیل کر
دی گئی۔یہ آئین ساز اسمبلی مہاراجہ کے ایک حکم نامے سے تشکیل دی گئی تھی۔اس
وقت کوئی دستور ساز اسمبلی نہیں۔دستور ساز اسمبلی کی جگہ قانون ساز اسمبلی
کام کر رہی ہے ۔ ریاستی قانون ساز اسمبلی بھی نومبر 2018سے معطل ہے۔ ریاست
پر پہلے گورنر راج ، پھر صدر راج نافذ کیا گیا۔ آرٹیکل 370کے بارے میں جموں
وکشمیر ہائی کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ کی رولنگز ہیں کہ اس آرٹیکل کو
بھارتی صدر بھی ختم نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود قانون اور آئین شکنی کرتے
ہوئے مودی حکومت صدارتی راج میں گورنر کو اسمبلی اور کونسل آف منسٹرز یا
مکمل حکومت کا درجہ دیتی ہے۔ جو کہ بالکل گمراہ کن ہے۔ گو کہ گورنر اسمبلی
کا بدل نہیں ، بھارتی پارلیمنٹ سے بھی آئین میں ترمیم کو عجلت میں منظور
کروایا گیا۔ مسلسل گیارہ روز سے کرفیو، پابندیاں، محاصرے، ناکہ بندیاں،
گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ مقبوضہ ریاست دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ کی تمام
سروسز بند ہیں۔ موبائل کے تمام نیٹ ورک بند ہیں۔ٹیلیفون بند ہیں۔ سٹیلائٹ،
کیبل ٹی وی بند ہے۔مقامی اخبارات کی اشاعت معطل ہے۔ مقامی ٹی وی اور ریڈیو
یہاں تک کہ ایف ایم نشریات بند ہیں۔ کشمیریوں کو دنیا اور دنیا کو کشمیریوں
کی کوئی خبر نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ شہید ہونے والوں کی تعداد اور زخمیوں
کی تعدادکیا ہے۔ بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی گئی۔آزادی پسندوں، دیگر
سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، تاجر کمیونٹی، وکلاء اور مظاہرے کرنے
میں متحرک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ زیادہ تر زیر حراست کشمیریوں کو
بھارتی ریاستوں کے تعذیب خانوں میں منتقل کیا گیا ہے۔مگر لوگ نہیں جانتے کہ
ان کے عزیز و اقارب میں سے کون کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ ان کا کہنا ہے
کہ عید کے دن بھی پابندیاں تھیں۔ جامع مساجد اور عیدگاہیں مقفل رہیں۔
سرینگر سے جو لوگ کسی طرح دہلی پہنچ رہے ہیں۔ وہ یہ باتیں دنیا کو بتا رہے
ہیں۔بھارتی سول سوسائٹی کے چند لوگ سرینگر، سوپور، بانڈی پورہ، پامپور،
شوپیاں، پٹن جیسے علاقوں میں جانے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پر انہوں نے نئی
دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں حالات پر دستاویزی فلم، ویڈیوز اور تصاویر
کی نمائش کرنے کی کوشش کی مگر پریس کلب انتظامیہ نے انہیں ایسا کرنے سے روک
دیا۔پریس کانفرس شروع ہوتے ہی انہیں کہا گیا کہ وہ یہ سب کچھ دکھانے کے لئے
پروجیکٹر کا استعمال نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ پریس کلب آف انڈیا پر دباؤ
ہے۔ دہلی کا پریس کلب کشمیر پر سچائی دیکھنا اور سننا نہیں چاہتا۔ اس پر
سخت پابندیاں ہیں۔ مودی حکومت نے میڈیا پر کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت میں
پابندیاں لگا دی ہیں کہ وہ حقائق بیان نہ کرے ورنہ اسے خمیازہ بھگتنے کو
کہا جا رہا ہے۔ دہلی میں میڈیا کے لوگ ڈرے ہوئے ہیں تو سرینگر کے میڈیا کا
کیا حال ہو سکتا ہے، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر بھارتی
میڈیا نے سنسر لگایا ہوا ہے۔ ہر بات راز میں رکھی جا رہی ہے۔ حقائق سامنے
آنے سے چھپائے جا رہے ہیں۔ سچ پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ مودی حکومت دنیا اور
اپنے عوام کو سب اچھا ہے، دکھا رہی ہے۔ ایسا باور کرایا جا رہا ہے کہ
کشمیری مودی کے اس فیصلے سے خوش ہیں۔ یہ سرینگر سے جو لوگ کسی طرح دہلی
پہنچ رہے ہیں۔یہ ظاہر کیا جا رہا کہ کشمیر کی تقسیم اور کشمیریوں کی شناخت
ختم کرنے سے تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی پولیس کو غیر مسلح
کر دیا ہے۔ اب بھارتی فورسز کے ساتھ غیر مسلح کشمیر پولیس اہلکار بھی گشت
کر رہے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ ان کی بے عزتی کی گئی ہے۔ اخبار نے سرینگر کے
بٹہ مالو علاقہ میں چیک پوسٹ پر کھڑے کشمیر پولیس کے اہلکار سے یہ کہتے
سنا، ’’ہم بھارت کے لئے خون دے رہے تھے ، مگر انہوں نے ہم سب سے ہمارا
اسلحہ چھین لیا ہے ‘‘۔ یاد رہے فاروق عبد اﷲ ، عمر عبد اﷲ، مفتی سعید،
محبوبہ مفتی کے ا دوار حکومت میں کشمیر پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ یا
پولیس ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جس نے بھارتی فورسز سے بھی آگے بڑھ کر شاہ سے
زیادہ شاہ کا وفادار بن کر کشمیریوں کا قتل عام کیا۔ بھارت کی معاونت کی۔
کشمیریوں کو ٹارچر سنٹرز پر قتل کیا اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔ مگر آج
یہ پولیس بھی بھارتی دھوکہ بازی کا رونا رونے پر مجبور ہو رہی ہے۔ جیسا کہ
بھارت نواز عبد اﷲ اور مفتی فیملی بھارتی دھوکہ بازی پر آنسو بہا رہی ہے ۔
مگر وقت گزر چکا ہے۔ انہوں نے ہی بھارت کو بیساکھیاں فراہم کیں۔ دہلی کو
کشمیر پر مسلط کیا۔ مل کر اقتدار کے مزے لوٹے۔ کشمیریوں کا قتل عام کرایا۔
اب یہ پچھتاوا کسی کام کا نہیں۔ جب وقت تھا تب کرسی کے لئے یہ اندھے بن
گئے۔ آنکھیں کھلیں تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ عمران خان حکومت بھی انتظار کر
رہی ہے کہ مودی آزاد کشمیر پر حملہ کرے گا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔
مودی نے مقبوضہ کشمیر میں قتل عام تیز کر دیا ہے۔ مزید ایک لاکھ 80ہار فوج
داخل کر دی ہے۔ جو دہشتگرد اور فرقہ پرست ہے۔ مودی نے کشمیریوں کے خلاف
اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ تمام شہری آزادیاں چھین لی ہیں۔ جموں ، اودھم پور،
کٹھوعہ میں ہندو اکثریتی آبادی، لداخ کے ضلع لیہہ میں بدھسٹ اکثریتی آبادی
کو بعض آزادیا دی گئی ہیں۔ جو کہ فرقہ بندی اور امتیازی سلوک کی کڑی ہے۔
وادی کشمیر، لداخ میں کرگل کی آبادی، پونچھ ، راجوری، وادی چناب، پیر پنچال
کی مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں کے عوام گھروں میں گزشتہ گیارہ دنوں سے
قید ہیں۔ وہ بھوکے پیاسے ہیں۔ ادویات اور دودھ تک کی شدید قلت ہے۔ سرینگر
سے دہلی آنے والے لوگ یہی داستانیں سنا رہے ہیں۔ سچ کیا ہے ، کشمیری کس حال
میں ہیں، شہادتوں کی تعداد کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ سچ چھپانے کے لئے ہی
مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ سارک، او آئی سی، سلامتی کونسل، ریڈ کراس،
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت دنیا کے آزاد میڈیا کو کشمیر تک
کوئی رسائی نہیں ہے۔ عمران خان حکومت آزاد کشمیر پر حملے کا انتظار نہ کرے۔
مقبوضہ کشمیر پر بھارتی جارحیت کو پوری ریاست پر جارحیت اور حملہ تصور کرے۔
اقوام متحدہ نے اگر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے میں مزید دیر کی
تو مودی کی جارحیت سے شاید ہی کوئی بچ سکے۔
|