گزشتہ دنوں محکمہ صحت کی منظوری کے بعد محکمہ پرائمری
اینڈ سکینڈری ہیلتھ کئیر نے مختلف تشخیصی ٹیسٹوں پر اضافہ کا نوٹیفکیشن
جاری کردیا جس کے مطابق تحصیل و ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں ہونے والے ٹیسٹ کی
قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے ڈینٹل آوٹ ڈور پرچی فیس مفت سے بڑھا کر 50
روپے مقرر کی گئی ہے نوٹیفکیشن کے مطابق سی ٹی اسکین 2500 ،ہیپاٹائٹس بی
اور سی کی سکریننگ 75 روپے،ای سی جی 100،الٹراساؤنڈ 150، سی بی سی 200 روپے،
ای ایس آر 60 روپے، جگر کے ٹیسٹ 300 روپے، ایمرجنسی کے ٹیسٹ ٹروپ ٹی 600
روپے ، تھائی رائڈ ٹیسٹ 900 روپے میں کئے جائیں گے جبکہ پتھالوجی کے45سے
زائد مختلف ٹیسٹوں کے بھی ریٹ بڑھا دیئے گئے ہیں ،جبکہ پنجاب گورنمنٹ
ہسپتالوں میں 70 فیصد ٹیسٹوں کو اپنے اختیار میں رکھے گی زرائع کا کہنا ہے
کہ ٹیسٹ کی فیسوں میں اضافہ فنڈز اکٹھا کرنے کے لئے کیا گیاہے جبکہ
ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو ٹیسٹ کی مفت سہولت دستیاب رہے گی،سانچ کے
قارئین کرام !پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جہاں غریب عوام کو مفت علاج کی
فراہمی کے لیے انصاف صحت کارڈ کا اجرا کر رہی ہے وہیں پنجاب کے تمام سرکاری
ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹوں پر فیس عائد کر دی گئی ہے،پی ٹی آئی حکومت نے
اقتدار میں آنے سے پہلے غریبوں کو سستے اور معیاری علاج کی سہولیات فراہم
کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے تاہم اب صورتحال یکسر بدلتی جارہی ہے کہا
جارہا ہے کہ اب صرف غریب ومستحق افراد ہی زکوۃ فنڈ سے مفت ٹیسٹ کروا سکیں
گے مختلف ٹیسٹوں کی فیسوں میں اضافہ کرنے سے ان افراد سے پیسہ وصول کیا
جائے گا جو علاج کروانے کی استطاعت تو رکھتے ہیں لیکن مفت میں سرکاری
ہسپتالوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ لاہور کی آبادی سوا
کروڑ سے زائد ہے یہاں سات بڑے سرکاری ہسپتال مریضوں کی تعداد کے مقابلہ میں
اب بھی کم ہیں سینکڑوں چھوٹے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں صاحب حثیت اور
مستحق غریب افراد علاج معالجہ کے لئے پنجاب بھر سے آتے ہیں جبکہ سینٹرل
پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہزاروں غریب مریض لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں
پہنچتے ہیں،علاج معالجے کے لیے پیسے نہ ہونے پر بعض خیراتی ادارے مفت طبی
سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں جو کہ یقیناََ قابل تعریف عمل ہے ،سانچ کے
قارئین کرام ! بخوبی جانتے ہیں کہ چند ماہ پہلے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ
کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان میں ہر طبقے کا فرد متاثر ہواہے، فارماسیوٹیکل
کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کیا اور عام استعمال کی بعض
ادویات کی قیمتیں دو سے تین گنا سے بھی زیادہ بڑھادی گئی تھیں ،لاہور ہائی
کورٹ نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف درخواست پرسماعت کرتے ہوئے
حکومت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو نوٹس جاری کیئے تھے ، درخواست گزار کا
موقف تھا کہ ڈریپ نے ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافہ کی منظوری دی،
دوا ساز کمپنیوں نے قیمتیں سو فیصد تک بڑھا دیں،درخواست گزار نے عدالت
عالیہ سے استدعا کی کہ دوائیں مہنگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی
جائے،جبکہ اگر دیکھا جائے تو مارکیٹ میں گلے کی دوائیں ،بچوں کے بخار کے
سیرپ ،معروف اینٹی بائیوٹک ادویات ،بلڈ پریشر اور شوگر کی گولیوں سمیت
ادویات میں پچاس سے سو فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ،جبکہ دوسری جانب موقف
یہ سامنے آیا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی
قیمت بڑھنے پر ہوا کیونکہ بیشتر غیر ملکی ادویات کی ادائیگی ڈالروں میں کی
جاتی ہے، جو مقامی کمپنیاں ہیں انہیں بیرون ملک سے ادویات کے فارمولے
خریدنا پڑتے ہیں، اگرچہ اب بھی ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس یا
کم تو نہیں ہوا ہاں البتہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی قیمتوں
میں اضافے کو ہسپتالوں کا نظام چلانے کے لئے اور اخراجات پورے کرنے کے لیے
ناگزیر قرار دیا جارہا ہے ، پنجاب میں دوائیوں کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں
علاج ، ٹیسٹ اور آپریشن کی فیسوں میں 25 سے 100 فیصد تک اضافہ کرنے کے
فیصلہ سے مڈل کلاس اور غریب افراد کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرانا
یقیناََ مشکل ہو جائیگا،ایک اخباری خبر کے مطابق وزیر اعلی پنجاب کو ٹیسوں
میں اضافے کے لئے جورپورٹ منظوری کے لئے بھجوائی گئی تھی اس میں کہا گیا
تھا ہیلتھ کئیر سہولیات کی جو فیس 1985 سے پہلے مقرر کی گئی تھی اس میں
اضافہ نہیں ہوا جبکہ بے شمار نئی ٹیکنالوجی ہسپتالوں میں استعمال ہو رہی ہے
جن کی فیسوں کا تعین نہیں کیا گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے ٹیکنالوجی کی
تبدیلی سے ٹیسٹ کی کاسٹ میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ پنجاب میڈیکل اینڈ ہیلتھ
انسٹی ٹیوٹ ایکٹ کے تحت حکومت نے متعدد ہسپتالوں کو خود مختاری دیدی ہے اور
وہ اپنے ریٹ ریوائز کر سکتے ہیں تاہم حکومت کی اجازت ضروری ہوتی ہے محکمہ
صحت کے مطابق کمیٹی شہباز شریف دور میں بنائی گئی تھی جس کی رپورٹ اب آئی
ہے،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سرکاری ہسپتال میں اوپن بائی پاس سرجری کا ریٹ
پہلے 1 لاکھ 5 ہزار روپے تھا جس کو 2 لاکھ 50 ہزار کر دیا جائے گا ،جبکہ
اسی طرح یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ وی ایس ڈی ، اے ایس ڈی اور کوریکشن
سرجری، دل کے بند والو کی سرجی کی فیس بھی 2 لاکھ 50 ہزار کی جائے ،کلو ز
ہارٹ سرجری ، کی فیس 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ،کمرے کے چارجز ہارٹ سرجری
کے 1200 سے بڑھا کر 3500،سی سی یو کے چارجز 800 سے بڑھا کر 2 ہزار،‘ وارڈ
چارجز 800 سے بڑھا کر 2 ہزار کئے جارہے ہیں کیا ایسا کرنے سے غریب اور
مستحق مریض بُری طرح متاثر نہ ہونگے ؟ یقیناََ ایک بہت بڑی تعداد مریضوں کی
لاھور کے ہسپتالوں کا رُخ کرتی ہے جوکہ مالی طور پر زیادہ مستحکم بھی نہیں
ہوتے اُنکا فوری علاج کیسے ممکن ہو گا؟ جب وہ یہ فیس ادا نہ کر سکیں گے
جواب مقرر کی گئی ہے اس بارے حکومتی نمائندے کا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ
غریب اور مستحق مریضوں کا علاج مفت جاری رہے گااب سوچنے کی بات یہ ہے کہ
فوری علاج کے لئے یہ کون طے کرے گا کہ کون کتنا مستحق ہے جیسا کہ سب جانتے
ہیں کہ وہ ادویات جو کہ ہسپتالوں میں موجود نہیں ہوتیں اُنکے لئے ہسپتال
انتظامیہ لوکل پرچیز کا طریقہ اختیار کرتی ہے جس کا طریقہ کار انتہائی آسان
بیان تو کیا جاتاہے لیکن لوکل پرچیز سے ادویات حاصل کرنے والے کی عزت نفس
اور وقت کتنا ضائع ہوتا ہے اس کااندازہ شاید کسی اور کو نہ ہوتا ہو گا لہذا
حکومت وقت کو ادویات اور ٹیسٹوں کی فیس بڑھانے سے پہلے ہیلتھ کارڈ کے وعدے
کو پورا کرنا چاہیے تھا پنجاب بھر میں ہیلتھ کارڈ کا اجرا مکمل ہوجانے کے
بعد مریضوں اور عام افراد کو اِن فیسوں کے اضافے کا اتنا اثر نہ ہوتا جتنا
کہ اب ہوا ہے ٭ |