ماضی کے آئینے میں صاحبِ بصیرت اپنے مستقبل کا عکس
دیکھتے ہیں لیکن افسوس کہ اقتدار کا نشہ بصارت چھین لیتا ہے۔ ۲۰۱۱ میں جب
کرناٹک کے بی جے پی وزیر اعلیٰ یدورپاّ کو بدعنوانی کے الزام میں استعفیٰ
دینا پڑا تو ا س وقت پی چدمبرم مرکز ی سرکارمیں وزیرداخلہ تھے ۔ وہ اگر
یدورپاّ کے انجام بد سے عبرت پکڑ کر اپنے آپ کو بدعنوانی سے دور رکھتے تو
انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا لیکن انسان اقتدار کی عارضی کرسی پر بیٹھ کر بے
فکر ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ ہمیشہ اس پر براجمان رہے گا ۔ موجودہ
حکومت چدمبرم کی گرفتاری کو بدعنوانی کے خلاف جہاد بتارہی ہے لیکن اگر یہ
لوگ کرپشن کی بابت واقعی سنجیدہ ہوتے تو مرکز میں اقتدار سنبھالتے ہی ۲۰۱۶
کے اندر یدورپاّ باعزت بری کیوں کروادیتے ؟یہ کیسا دھرم یدھ ہے جو اپنے اور
پرائے میں فرق کرتا ہے؟ بدنامِ زمانہ ریڈی برادران کے یارِ غار یدورپاّ کی
ڈائری میں تو اڈوانی تک کو دیئے جانے والے روپیوں کا اندراج ملتا ہے۔لوٹ
کےکالے دھن کی مدد سے کانگریسی ارکان اسمبلی کو خرید کر وہ دوبارہ وزیر
اعلیٰ بن گئے ہیں ۔ وقت کے پہیے نے ایک چکر مکمل کرلیا۔
بی جے پی آج کل ملک بھر میں ارکان اسمبلی اور پارلیمان کو خرید رہی ہے۔
کرناٹک ، مہاراشٹر ، دہلی اور گوا سے لے کر سکمّ تک بازار لگا ہوا ہے جہاں
بے ضمیر سیاستداں اپنی وفاداری فروخت کرکے بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں ۔
جوسیاسی جماعت کی بدعنوانی کے خلاف برسرِ جنگ ہو وہ بھلا بدعنوان
سیاستدانوں کو رشوت دے کر اپنی پارٹی میں کیونکر شامل کرسکتی ہے؟ اس
کارروائی کا تعلق اگر کرپشن سے نہیں تو کس سے ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہا
جارہا ہے کہ یہ انتقامی عمل ہے۔ ۲۰۱۰ میں مرکز ی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے
گجرات کے سابق وزیرداخلہ امیت شاہ کو فرضی انکاونٹر اور بھتہ خوری کے الزام
میں گرفتارکر وایا تھا ۔ ۲۰۱۹ میں امیت شاہ نے وزیر داخلہ بن کر سابق
مرکزی وزیر داخلہ کو بیٹے کارتک چدمبرم کے ذریعہ کی گئی رشوت خوری کے الزام
میں جیل بھجوا دیا ۔ بعید نہیں کہ آگے چل کر کارتک یا کوئی اور امیت شاہ
کے بیٹے جئے شاہ کو بدعنوانی ملوث پاکر باپ بیٹے کو جیل بھجوا دے۔ فرمانِ
خداوندی ہے ‘‘۰۰۰ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان
گردش دیتے رہتے ہیں۰۰۰’’۔
کشمیر کے معاملہ میں ایوان کے اندرچدمبرم نے جس جرأتمندی کا مظاہرہ کیا وہ
بے مثال ہے ۔پارلیمانی تقریر کے بعد انہوں نے حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ
رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگرجموں کشمیر مسلم اکثریتی صوبہ نہ ہوتا تو
اس کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاتا ۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ اسی
کے ساتھ یہ بات بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ کشمیر کی اس دگرگوں حالت کے لیے
کانگریس پارٹی نے ہی ماحول تیار کیا تھا۔ دفع ۳۷۰ کو وضع کرنے کے بعد یکے
بعد دیگرے سازش کرکرکے اندر ہی اندر اسے اتنا کھوکھلا اور کمزور کردیا گیا
کہ بی جے پی بہ آسانی اس کو توڑ کر سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیا ب ہوگئی
۔ چدمبرم کی پہچان ایک ماہر معاشیات کی ہے ۔ ہندوستان میں ڈریم بجٹ پیش
کرنے کا اعزاز ان کو حاصل ہے ۔ منموہن سنگھ جیسے کامیاب وزیر خزانہ نے
انہیں پہلے یہی ذمہ داری سونپی مگر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ کے ممبئی حملے نے مرکزی
وزیر داخلہ شیوراج پاٹل سے ان کا عہدہ چھین لیا اور پی چدمبرم کو اس پر
فائز کردیا۔ اس طرح وہ وزیر داخلہ بن گئے لیکن جولائی ۲۰۱۲ میں کانگریس نے
جب مرکزی وزیر خزانہ پرنب مکرجی کو صدر مملکت بنا نے کا فیصلہ کیا تو اسے
پرنب دا کا متبادل نہیں ملا اور چدمبرم کو مجبوراً دوبارہ وزارت خزانہ میں
لوٹنا پڑا۔
ہندوتوا کی سیاست کرنے والی بی جے پی کے لیے چدمبرم کا وزیر داخلہ بن جانا
ایک بہت بڑی آزمائش ثابت ہوا۔ ممبئی حملے کے بعد پی چدمبرم نے قومی تفتیشی
ایجنسی (این آئی اے) تشکیل دی اور جولائی ۲۰۱۰ میں سمجھوتہ ایکسپریس دھما
کے کی تفتیش اس کو سونپ دی ۔اسی کے ساتھ سنگھ پریوار کے ستارے گردش میں
آگئے۔ سمجھوتہ ایکسپریس معاملے میں این آئی اے نے پہلی چارج شیٹ جون
۲۰۱۱ میں جب داخل کی تو اس وقت چدمبرم وزیر داخلہ تھے ۔ اگست ۲۰۱۲ اور
جون ۲۰۱۳ میں جو اضافی چارج شیٹ جمع کی گئی اس کی تیاری بھی انہیں کے مدت
کار میں ہوگئی تھی ۔ این آئی اے نے اپنی تحقیق میں یہ تسلیم کیا کہ اس
دہشت گردی کامقصدملک کے اتحاد ، سالمیت، تحفظ اور خود مختاری کو خطرے میں
ڈالناتھا۔ ایک مجرمانہ سازش کے تحت کیے جانے والے ان دھماکوں میں ۴۳
پاکستانی ،۱۰ ہندوستانی اور ۱۵ نامعلوم افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ اس دہشت
گردی میں ۸ لوگوں کو ملوث پایا گیا تھا جن میں اسیمانند کو اہم ترین ملزم
بتایا گیا تھا ۔ مودی سرکار نے ۲۰۱۵ میں اسے ضمانت دلوا دی ۔ اس کے علاوہ
کمل چوہان ، راکیش چودھری اور لوکیش شرما امبالہ جیل میں بند ہیں۔ امیت
چوہان ، رامچندر کالسنگارے اور سندیپ ڈانگے فرار ہیں۔درمیان میں یہ خبر بھی
آئی تھی ممبئی حملے کے بعد میں نامعلوم لاشوں کے تحت ان میں سے دو کا انتم
سنسکار کیا جاچکا ہے ۔
اس سازش کے ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کا مدھیہ پردیش کے دیواس میں دسمبر ۲۰۰۷
کو قتل کردیا گیا ۔یہ خبر بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے کہ بھوپال کی
موجودہ رکن پارلیمان اور باتھو رام گوڈسے کی بھکت نام نہاد سادھوی پرگیہ
ٹھاکر نے قتل کے بعد جوشی کے گھر جاکر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے
مالیگاوں دھماکوں کی ملزم پرگیہ کی جانب شک کی سوئی مڑ جاتی ہے۔ چدمبرم کے
زیر نگرانی ہونے والی اس تفتیش نے ناتھو رام گوڈسے کے بعد پہلی مرتبہ
سرزمینِ ہند پر قتل و غارتگری اور دہشت گردی میں آر ایس ایس سے وابستہ
لوگوں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ۔اس کے علاوہ مالیگاوں سے لے کر اجمیر
اور مکہ مسجد تک کے دھماکوں میں یہی لوگ چھائے رہے ۔ اسیمانند کی حیثیت اس
سازش میں سرپرست کی تھی ۔ فکری رہنمائی کے علاوہ اس پر ان لوگوں کو اپنے
آشرم میں پناہ دینے کا بھی الزام ہے۔ بی جے پی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد
اسیمانند کو اجمیر دھماکے اور مکہ مسجد دھماکے سے بری کروالیا ہے۔ این آئی
اےاپنی تفتیش کے خلاف نچلی عدالتوں کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کر
پا رہی ہے۔ سنگھ کی نقاب کشائی میں سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کی حوصلہ
مندی نے انہیں دیگر رہنماوں سے ممتاز مقام پر فائز کردیا تھا ۔
اگست ۲۰۰۸ میں دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس گیتا متلّ نے ایس آئی ایم پر
پابندی سے متعلق اپنے فیصلے میں یہ لکھ دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے
فراہم کردہ ناکافی مواد کے سبب اسے جاری رکھنا ممکن نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت
نے دوسرے ہی دن عدالت عظمیٰ سے رجوع کرکے اس پر روک لگوا دی۔ اس کے بعد یو
اے پی اے کے تحت ایک خصوصی ٹریبونل نے پابندی میں توسیع کردی ۔ سابق وزیر
داخلہ چدمبرم کے زمانے میں ۲۰۱۱ کے اندر ممبئی میں تین بم دھماکے ہوئے جس
میں ۲۶ افراد ہلاک اور ۱۳۰ لوگ زخمی ہوگئے۔ اس کا بہانہ بناکر فروری ۲۰۱۲
کے کابینی اجلاس میں ایس آئی ایم پر لگی پابندی میں توسیع کا فیصلہ کیا
گیا۔ اس دوران مسلم رہنماوں کے ایک وفد نے چدمبرم سے ملاقات کی ۔ اس موقع
پر ڈبلیو پی آئی کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے وزیر داخلہ کے سامنے ایس
آئی ایم سے متعلق حقائق و شواہد رکھ کر پوچھا کہ آئین کسی تنظیم پر مستقل
پابندی کی اجازت نہیں دیتا مگر آپ کی حکومت توسیع درتوسیع کرکےکیا دستور
کی خلاف ورزی نہیں کررہی ہے؟ مسلمانوں کی دشمن بی جے پی کا ایس آئی ایم
پابندی لگانے والا رویہ تو قابلِ فہم ہے لیکن مسلمانوں سے ہمدردی کا دعویٰ
کرنے والی کانگریس کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت ؟
اس اہم سوال کو نظر انداز کرکے سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے پاپولر فرنٹ کا
ذکر چھیڑ دیا اور یہاں تک کہا کہ ہم لوگ پابندی کے معاملے کو مزید سخت کرکے
۵ سالوں کے لیے کرنے والے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یو اے پی اے میں استبدادی
شقوں کو شامل کرنے کا کام چدمبرم نے اپنے دور اقتدار میں بڑے زور و شور سے
کیا اورغالباً ان کو اس رعونت کی سزا مل رہی ہے اس لیے کہ موجودہ سیاسی
تالاب میں کون سا ایسا سیاستداں ہےجس کا دامن بدعنوانی کے داغ دھبوں سے پاک
ہو( الا ماشاء اللہ ) ۔ ارشادِ خداوندی ہے ‘‘۰۰۰اور اگر اللہ لوگوں میں بعض
سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے۰۰۰’’۔ کانگریس کے میٹھے زہر
کا علاج مشیت نے بی جے پی کی کڑوی کسیلی دوائی سے کیا لیکن ہمارا ایمان ہے
کہ جس مالک الملک نے چدمبرم کو کیفرِ کردار تک پہنچایا ہے وہ امیت شاہ کو
بھی ٹھکانے لگانے پر قادر ہے کیونکہ بقول راحت اندوری ؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
|