سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پولیس نظام کو درست کرنا میرے
خیال میں کسی کے بھی بس کی بات ہی نہیں ہے پولیس نے شروع سے اپنا ایک طریقہ
کار طے کر لیا ہے اور وہ اسی پر چل رہی ہے باقی ممالک کا تو مجھے کچھ خاص
پتہ نہیں ہے مگرہمارے ملک کا یہ خطرناک المیہ ہے کہ ہمارا کوئی کام
بغیرسفارش کے ہونا ممکن نہیں اگربغیرسفارش کے ہوبھی جائے تواس میں کافی وقت
لگ جاتا ہے اسی لیے ہم لوگ شارٹ کٹ راستہ استعمال کے یعنی سفارش کراکے اپنے
کام کرالیتے ہیں۔الیکشن 2018میں پاکستان تحریک انصاف حکومت نے کہا تھا کہ
ہم سفارشی نظام کوختم کریں گے اورتھانوں کو غیرسیاسی بنائیں گے مگرایسا
ہونا دورکی بات اس میں کئی اور پیچیدگیاں رونما ہو چکی ہیں اور حالات پہلے
کی نسبت مزید گھمبیر ہو گئے ہیں پولیس اب اور زیادہ ہٹھ چڑھ ہو چکی ہے
پچھلے ہفتے تھانہ گوجر خان میں پیش آنے والا واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں
ایک شخص کو دوران حراست بد ترین تشدد سے مار دیا گیا ہے جو کہ حکومت کیلیئے
ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے اگر حکومت اس واقع پر ایکشن لیتی تو شاید عوام
کو تھوڑا یقین ہوتا کہ ان کی حکومت پولیس نطام کو درست کرنے پر توجہ دے رہی
ہے لیکن اس حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی بھی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا
ہے اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پاس
پولیس نظام کو درست کرنے کی کوئی پالیسیز ہی نہیں ہیں پاکستان تحریک انصاف
حکومت میں آنے سے پہلے بہت بلند و بانگ دعوے کیا کرتی تھی کہ پولیس کو عوام
کا خدمت گار بنا دیں گئے لیکن سب کچھ نعرے ہی ثابت ہوا ہے عملی طور پر کوئی
بھی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے پنجاب بھرمیں مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دی
جارہی ہیں۔جیساکہ سب جانتے ہیں کہ مصالحتی کمیٹیاں غیرسیاسی ہوتی ہیں مگرپی
ٹی آئی کی حکومت کوبدنام کرنے کیلئے ایم این ایز اورایم پی ایز میں سیاسی
جنگ کی وجہ اورمداخلت کی وجہ سے اب مصالحتی کمیٹیاں سیاسی اورٹاؤٹ مافیا کی
نذرہوگئی ہیں ایک ہی حلقے کا ایم این اے پولیس کو اور حکم دے رہا ہوتا ہے
جبکہ اسی سلسلے میں ایم پی اے کچھ اور حکام سنا رہا ہوتا ہے اور ایک بات جو
تھانوں کے حوالے سے مزید مسائل پیدا کر رہی ہے وہ ہے پی ٹی آئی کی لوکل
قیادت ہے جو مقامی تھانوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے پی ٹی آئی کی
طرف سے لوکل سطح پر بہت زیادہ عہدے دار بنا دیئے ہیں جو مقامی سطح پر بہت
زیادہ مداخلت کر رہے ہیں اور اس وجہ سے بھی بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہو رہی
ہیں اور سب سے بڑھ کر لوکل قیادت میں گروپ بندیاں بھی سرکاری اداروں کیلیئے
پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں بہت سارے پولیس افسران کو اس بات پر پریشان
دیکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت بہت زیادہ مداخلت کرتی ہے جس وجہ
سے ہمارے معاملات ٹھیک طرح سے نہیں چل سکتے ہیں کمیٹیوں میں ایسے چیئرمین
اورممبران بنائے جارہے ہیں جنہوں نے پچھلے کئی ادوارمیں تھانوں کی آڑ میں
عوام کوخوب لوٹاسیاسی نمائندگان تھانوں کوغیرسیاسی کرنے میں فْل رکاوٹ بنے
ہوئے ہیں حالانکہ مصالحتی کمیٹیوں کی وجہ سے عوام کو انصاف کے حصول کیلئے
آسانی مل جاتی تھی جواب ناممکن لگ رہا ہے کیونکہ اب مصالحتی کمیٹیاں
غیرسرکاری نہیں رہیں پنجاب بھرمیں مصالحتی کمیٹیاں اندرونی اختلافات
کاشکارہوگئیں اور99%ایسے ممبران ہیں جوجن کی شہرت اتنی زیادہ اچھی نہیں
سمجھی جاتی ہے اس سیاست کیوجہ سے متعلقہ پولیس بھی پریشان ہوکررہ گئی ہے
عوام باربار وزیراعظم خان سے اپیل کررہی ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق تھانہ
کلچرتبدیل کرکے کرپشن اورتھانے میں ایم این ایزاورایم پی ایز کی مداخلت کو
روکیں ورنہ یہ مصالحتی کمیٹیاں عوام کوریلیف نہیں دے پائیں گی اسی لیے
پنجاب بھر کے تھانوں کی مصالحتی کمیٹیوں کے ممبران کی حتمی لسٹ بنانے سے
پہلے مقامی ایم این ایز اورایم پی ایز کواس بات کا پابند بنانا ہو گا کہ وہ
کسی بھی صورت تھانوں کے معاملات میں مداخلت نہ کریں بصورت دیگر وہ اپنے من
پسند افراد کو ان کمیٹیوں میں رکھوا لیں گئے اور آئندہ کیلیئے وہ ان سے
اپنی مرضی کے کام لیے سکیں گئے اور ان کے زریعے تھانوں پر اپنا کنٹرول جما
لیں گئے اور پھر سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہو گا حکومت کو تھانوں کے نطام
کو بہتر کرنے کیلیئے خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور پولیس افسران کو اپنا
رویہ بہتر کرنے کا پابند بنانا ہو گا اگر کبھی کسی مجبوری کے باعث کسی
تھانے میں جانے کا اتفاق ہو جائے تو ایک اے ایس آئی کے سامنے بیٹھ کر یہ
اور اس کی ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ ہم کسی سی پی او یا ڈی
ایس پی کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ایک رپورٹ لکھانے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں
صاحب کبھی ادھر مصروف ہو جاتے ہیں اور کبھی ادھر کسی کام میں لگ جاتے ہیں
تو یہ سب کچھ عوام کے ساتھ زیادتی کے زمرے میں ہی آتا ہے مزہ تو تب ہے کہ
پاکستان تحریک انساف کی حکومت تھانون کے نظام کو اس سطح پر لے آئے کہ تھانے
میں جانے والے عوام پولیس سے خوف نہ کھائیں بلکہ پولیس اس بات سے خائف ہو
کہ اگر اس شخص کا کام ٹھیک طریقے سے نہ کیا تو یہ ہماری شکایت کر دے گا اور
ہم کو کسی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا جو کہ ہمارے لیئے مسائل پیدا کر دے
گا تب ہی کہیں جا کر شاید کوئی تھوڑی بہت بہتری ممکن ہو سکے ورنہ اس حوالے
پچھتاوا ہی ہمارا مقدر بنا رہے گا اور عوام کو حسرت ہی رہے گی اور پولیس
ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ثابت کرنے میں اپنا پرانا طریقہ کار
استمعال کرتی ہی رہے گی پولیس کے اعلی حکام کو بھی اس ھوالے سے اپنا کردار
ادا کرنا چاہیئے کہ وہ تھانوں کو عوام کیلیئے خوف کی علامت بنانے والے
افسران اور اہلکاروں کع نشان عبرت بنائیں تا کہ عوام بلا کسی خوف و خطر
تھانوں میں میں اپنی دادرسی کیلیئے جا سکیں
|