ہندو پاک کے درمیان صورتحال انتہائی کشیدہ ہوتی جارہی ہے
۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جو وزارتِ عظمی پر فائز ہونے کے بعد سے
ہندوستان کے ساتھ دوستانہ ماحول کی بات کررہے تھے لیکن انہوں نے جموں و
کشمیر میں نریندرمودی کی ہندوستانی حکومت کی جانب سے دفعہ 370اور A-35کی
برخواستگی کے بعد اپنے ارادے بدل دیئے ہیں۔ عمران خان کشمیر کے مسئلہ کو
عالمی سطح تک اٹھانے کی یقین دہانی کراچکے ہیں اورانہوں نے پاکستان کی جانب
سے اس مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ تک لے جاچکے ہیں اور آگے اسے عالمی عدالت
تک لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزراءِ اعظم کے تعلق سے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہیکہ ہندو پاک کے وزرائے اعظم اس وقت ایک
گھمبیر مسئلے سے دوچار ہیں ، انہوں نے نریندر مودی اور عمران خان کے تعلق
سے کہاکہ یہ دونوں انکے دوست ہیں اور دونوں بہت زبردست انسان ہیں، دونوں
اپنے اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں لیکن وہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں،
کشمیر ایک گھمبیر معاملہ ہے جو کہ بہت لمبے عرصے سے جاری ہے۔ امریکی صدر کا
کہنا ہیکہ وہ اس معاملہ کے حل کیلئے اپنی پوری کوشش کررہے ہیں اور وہ اپنی
جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے۔انہوں نے کہا کہ
انکے دونوں سے اچھے تعلقات ہیں لیکن ان دونوں یعنی نریندر مودی اور عمران
خان کی آپس میں دوستی نہیں ہے، انہوں نے اسے پیچیدہ معاملہ بتایا ہے اور
اسے مذہب سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پیچھے مذہب ہے اور مذہب پیچیدہ
معاملہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہندوستان نے مسئلہ کشمیر میں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے کردار ادا کرنے کو ماننے سے انکار کردیا
تھا جبکہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکہ کے موقع پر
امریکی صدر کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی حیثیت سے کردار ادا کرنے
راضی کیا تھا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ نے اس موقع پر کہاتھا کہ
ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے انہیں
ثالثی کی حیثیت سے کردار کی انجام دہی کیلئے کہا تھا اور وہ (ٹرمپ )اس
سلسلہ میں پہل کرنے کا ارادہ ظاہرکرچکے تھے لیکن ہندوستان نے ٹرمپ کی اس
بات سے انکار کیا کہ نریندر مودی نے اس سلسلہ میں ایسا کچھ کہا تھا۔ اب
دیکھنا ہیکہ امریکی صدر ہندو پاک کے درمیان کس قسم کا ثالثی کردار ادا
کرسکتے ہیں ، کیونکہ عمران خان نے بھی اب ہندوستان سے بات چیت کرنے کے اپنے
ارادے کو تبدیل کردچکے ہیں انکا کہنا ہیکہ انڈیا سے بات چیت کرنے کا کوئی
فائدہ نہیں۔
افغانستان مقتل کب تک۰۰۰؟
جی ہاں یہ اسلامی ممالک ہیں ، جہاں گذشتہ کئی برسوں سے مسلمانوں کو ہلاک و
زخمی کیا جارہا ہے ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمان گذشتہ چند برسوں کے
درمیان فائرنگ، خودکش حملے اور بم دھماکوں وغیرہ کے ذریعہ نام نہاد جہادی
تنظیموں کی ظالمانہ و وحشیانہ کارروائیوں کا حصہ بن چکے ہیں اور نہیں معلوم
آئندہ کب تک ان ممالک میں یہ کارروائیاں دشمنانِ اسلام انجام دیتے رہے گے
کیونکہ جو نام نہاد جہادی تنظیمیں ہیں اگر وہ واقعی اسلامی تنظیمیں ہوتیں
تو کبھی اپنے مسلم بھائیوں و بہنوں اور بچوں کو ہی نہیں بلکہ کسی بے قصور
انسان کو اس طرح کی کارروائیوں کے ذریعہ ہلاک نہ کرتیں۔ اسلام نے انسانیت
کے تقدس کا درس دیا ہے ۔ کسی بے قصور کو مذہب و عقائد کی بنیاد پر ہلاک
کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، لیکن آج پاکستان، افغانستان، یمن، شام،
عراق،مصر،فلسطین، نائجریا، لبنان اور دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی
املاک کو دشمنانِ اسلام نے کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر لوٹا اور برباد کیا ہے
اور پھر انکی معیشت کو بُری طرح برباد کرنے کے ساتھ ساتھ انکی قیمتی جانوں
کو عصری ٹکنالوجی سے لیس ہتھیاروں سے جلابھناکر سپردِ خاک کردیا۔ کھیلتے
کودتے، لکھتے پڑھتے معصوم بچوں کواسکولوں اور مدارس میں درندگی کا شکار
بنایا گیا تو کہیں شادی بیاہ اور ماتم کدہ کی محفلوں پر حملے کرکے بے قصور
مردو خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان ظالموں میں کئی اسلامی و
دشمنان اسلام ممالک کے فوجی بھی ہیں اور کہیں نام نہاد جہادی تنظیموں کے
افراد بھی۔ کہیں پر مذہب اسلام کو نشانہ بنایا گیا تو کہیں پر عقائد کی
بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور کیا جارہا ہے جس کی ایک مثال
گذشتہ دنوں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دیکھنے میں آئی ۔ اس خبر نے
انسانیت کو شرمسار کردیا۔ ایک ہنستے کھیلتے خوشیوں سے سرشار شادی کی تقریب
کو چند منٹوں میں وحشیانہ کارروائی کے ذریعہ غمگین بنادیا ۔ مرنے والے تو
چند منٹوں یا سکنڈوں کے اندر اپنے خالق حقیقی سے جاملے لیکن زندہ رہنے
والوں کے دل و دماغ کس اذیت اور تکلیف کا باعث ہوئے ہونگے اس کا ادراک شاید
ممکن نہیں۔
ابھی دلہا ، دلہن ، مہمان اور میزبان خوشیوں سے سرشارایک دوسرے کو مبارکباد
دے ہی رہے تھے کہ اسی اثناء خودکش حملہ آور نے افغانستان کے دارالحکومت
کابل میں شادی کی خوشیوں کو غم میں تبدیل کردیا۔ دلہا میر واعظ اور انکی
دلہن تو اس خودکش حملہ میں بال بال بچ گئے لیکن خوشی کے موقع پر انہیں جو
غم پہنچا شاید زندگی بھر اسے بھلا نہ سکیں گے۔ یہ کیسے ظالم اور سفاک لوگ
ہیں جنہوں نے ایک خوشی کی محفل کو جو سنت رسول ﷺ کی اتباع میں سجائی گئی
تھی غمگینماحول میں تبدیل کردیا۔ جنہوں نے اس تقریب شادی کو ماتم کدہ میں
تبدیل کردیا شاید انکا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگاکیونکہ اسلام
امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسکے ماننے والے کبھی اس طرح کی وحشیانہ
کارروائی انجام نہیں دے سکتے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نام نہاد جہادی تنظیم
دولت اسلامیہ نے اس خودکش حملے اور بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔عالمی
سطح پر ہر مسلمان اور انسانیت کا درد رکھنے والے اس ظالمانہ کارروائی کے
خلاف سخت مذمت کئے ۔ افغان صدر اشرف غنی نے اسے وحشیانہ حملہ قرار دیتے
ہوئے طالبان پر شدت پسندوں کو پلیٹ فارم دینے کا الزام عائد کیاہے جبکہ
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداﷲ عبداﷲ نے اس حملے کو انسانیت کے خلاف جرم
قرار دیا اور امریکی سفیر جان باس نے اسے انتہائی بدکاری کا عمل قرار
دیا۔افغان طالبان نے بھی اس حملہ کی مذمت کی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
طالبان کی جانب سے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اس ظالمانہ حملہ کی شدید
مذمتکرتے ہوئے کہا کہ دانستہ طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانے والے
وحشیانہ حملے کی کوئی توجیہ نہیں ہوسکتی۔ دولہا میر واعظ علمی نے اس
وحشیانہ حملہ کے بعد کہاکہ اس جان لیوا حملے کے بعد ان کی ساری امیدیں دم
توڑ گئی ہیں وہ مرنے والوں کے جنازے اٹھانے کے بھی قابل نہیں رہے۔ اس حملے
میں وہ اور انکی دلہن تو بال بال بچ گئیں لیکن حملے میں انکے بھائی اور
متعدد دوسرے عزیز و اقاریب یعنی 63افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 180افراد زخمی
بتائے گئے ہیں۔ میر واعظ علمی اس حملہ سے متعلق بتاتے ہیں کہ حملے سے قبل
وہ مہمانوں اور عزیز و اقاریب کا مسکراتے ہوئے استقبال کررہے تھے اورتقریب
میں شریک ہنستے مسکراتے چہرے چند ہی گھنٹے بعد غموں میں تبدیل ہوگئے اور ان
میں سے بعض کی لاشیں بکھری پڑی تھیں تو کوئی درد و کربناک حالت میں زخمی
پڑے تھے۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ کی لگاتار کوششیں جاری ہیں،طالبان سے
مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود امن کی راہیں بہت کم نظر
آتی ہیں۔ویسے امریکہ کو بہت پہلے احساس ہوچکا تھا کہ وہ افغان جنگ کبھی
نہیں جیت سکتا۔اسی لئے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو جس طرح جلد ممکن
ہوسکتا ہے الگ کرلیں کیونکہ افغانستان کی جنگ امریکہ کیلئے ناکام ہی ثابت
نہیں ہوئی بلکہ مستقبل میں بھی اسے کامیابی کی امید نظر نہیں آتی ۔
افغانستان میں نیٹو مشن کے تحت تقریباً 14000امریکی فوجی تعنیات بتائے جاتے
ہیں ، امریکی صدر ٹرمپ مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج
واپس بلانا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان پر اسامہ بن لادن کو حوالہ کرنے
کیلئے جس طرح ملاعمر کی قیادت والی طالبان حکومت کو 2001ء میں اقتدار سے بے
دخل کردیا تھا اس کے بعد سے افغانستان میں خووکش حملے ، بم دھماکے، فائرنگ
وغیرہ کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آج
افغانستان میں شادی بیاہ کی محفلیں بھی کب غم کدہ میں تبدیل ہوتی ہے اس کا
کسی کو علم نہیں بلکہ خوشی کی محفل کے موقع پر بھی عوام کے ذہنوں میں خوف و
ہراس پایا جاتا ہے۔ ملک میں معصوم افراد بشمول کمسن بچے اور خواتین و ضعیف
افراد وحشیانہ کارروائیوں میں ہلاک و زخمی ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ کب تک
جاری رہے گا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ امریکہ صدر نے گذشتہ دنوں
نیو جرسی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت
اچھی طرح سے چل رہی ہے اور افغان حکومت کے ساتھ بھی انکی گفتگو مثبت رہی
ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ افغان طالبان ، افغان صدراشرف غنی حکومت کے
ساتھ مذاکرات کو نظرانداز کرتے رہے ہیں اور اشرف غنی کی حکومت کو کتھ پتلی
حکومت قرار دیتے ہیں۔ 2001کے بعد سے طالبان نے امریکہ اور نیٹو افواج کے
سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنی لڑائی جاری رکھی اور ذرائع ابلاغ کے
مطابق بتایا جاتا ہیکہ طالبان اب افغانستان میں پہلے کی نسبت زیادہ علاقوں
پر قابض ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں پھر سے ایک مرتبہ
طالبان اقتدار میں آجائیں گے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب افغانستان
سے نیٹو افواج خصوصاً امریکی فوج کا تخلیہ ہوجائے گا۔ ہندو پاک کے درمیان
جموں و کشمیر کے مسئلہ پر ان دنوں جو کشیدہ حالات ہیں اس کا اثر افغانستان
پر بھی پڑے گا اور نہیں معلوم دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر خطے میں مزید
کس قسم کی کارروائیاں ہونگی۔ خیرافغانستان کے دارالحکومت کابل میں شادی کی
تقریب جو خطرناک وحشیانہ کارروائی کے ذریعہ غمگین ماحول میں تبدیل ہوگئی اس
کے خاطیوں کو سخت سے سخت دینے کے لئے افغان حکومت پوری مستعدی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے ظالموں کو منظر عام پر لائیں اور انہیں سخت سے سخت سزا دیں تاکہ
مستقبل میں پھر کسی میں ایسی وحشیانہ کارروائی کی انجام دہی کیلئے ہمت نہ
ہوں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا افغانستان میں ظالموں کو پکڑکر سزا دینے
کے بعد ایسی وحشیانہ کارروائیاں کرنے والے خاموش ہوجائیں گے ؟ کیونکہ اس سے
قبل شادی بیاہ کی محفلوں کے علاوہ مرنے والوں کو سپرد لحد کرنے سے قبل اور
جنازے لے جانے والوں ، ہاسپتلوں میں موت و زیست کے درمیان تڑپنے والوں ،
زخمیوں کو امداد پہنچانے والوں، اسکولوں اور مدارس کے طلباو طالبان اور
عمارتوں، عوامی مقامات، تفریح گاہوں، سڑکوں پر ظالم درندہ صفت انسانوں نے
ایسی کئی کارروائیاں ان اسلامی ممالک میں انجام دے چکے ہیں ۔ انسانیت کے
علمبردار کہلانے والے ،بے دریغ طاقت کے دعویدارحکمراں ان اسلامی ممالک میں
ہونے والی کارروائیوں کے اصل ذمہ دار ہیں جنہوں نے مسلم حکمرانوں اور ان
ممالک پر الزام عائد کرکے خطرناک ہتھیاروں کے ذریعہ حملے کئے جس کے بعد سے
آج تک ان اسلامی ممالک میں امن و آمان بحال نہ ہوسکا ۔ آج افغانستان میں
امریکہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ان ہی طالبان سے مذاکرات کررہا ہے جن
کے خلاف اس نے 2001میں ظالمانہ کارروائی کی تھی۔اس کے باوجود مسلم حکمراں
امریکہ اور دیگر دشمنانِ اسلام کی مسلم دشمنی کو یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں
یا پھر اپنے مفاد اور حکمرانی کیلئے ان معصوم ، بے قصور مسلمانوں کو قربانی
کے لئے پیش کررہے ہیں۔
***
|