حیدر کرار حضرت علی ؓ

تحریر: ملک صداقت فرحان
بے حب علی قلب میں ایماں نہیں ہوتا
کلمے کے بغیر جیسے مسلماں نہیں ہوتا
دنیا نے بہت سے خوش نصیبوں، بہادروں، عظیم حکمرانوں اور وفاداروں کو دیکھا مگر حضرت علی رضی اﷲ عنہ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ خوش نصیبی بہادری عظمت اور وفاداری جیسی نعمتیں بہت کم لوگ لے کر پیدا ہوتے ہیں انہیں کم لوگوں میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے 8 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کہ بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ رسول اﷲﷺ کے جانثاروں کی صف میں شامل ہوئے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا لقب اسد اﷲ یعنی اﷲ کا شیر اور کنیت ابو تراب تھی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ تقریبا ہر وقت رسول اﷲﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو کئی غزوات اور جنگوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ حضرت علی رضی اﷲ نے تقریبا تمام غزوات اور جنگوں میں کامیابی حاصل کی اور فاتح کہلائے۔ ان تمام غزوات میں سے سب سے اہم غزوہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لیے غزوہ خیبر رہا جس میں رسول اﷲﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو جھنڈا پکڑایا۔ جھنڈا پکڑنے کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ لشکر کے ساتھ میدان جنگ میں اترے تو اتنے میں کفار کے لشکر میں سے ایک شخص جو کہ پہلوان تھا جس کا نام مرحب تھا آگے بڑھا اور لشکر جرار کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ ’’سارا خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں پوری طرح ہتھیار بند، بہادر آزمودہ کار جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آتی ہیں‘‘ مقابلے میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ تھے حضرت علی رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے اور مرحب کو للکار کر کہنے لگے کہ ’’کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے، کچھار کے شیر کی طرح ہوں، جسے دیکھنے سے لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ میں انہیں (اپنے دشمنوں کو) ایک صاع (برابر حملے) کے بدلے میں تیروں کا پورا درخت ماپ کر دیتا ہوں (یعنی میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہوں)‘‘۔ یہ کہہ کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے تلوار مرحب کے سر پر ماری۔ مرحب زمین پر گرا اور واصل جہنم ہوگیا۔ آخر کار اس طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو للکارنے والا ابو جہل کا پیروکار اپنے انجام کو پہنچا۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ وہ ہستی ہیں کہ جن پر خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فارق رضی اﷲ عنہ بھی رشک کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کہا کرتے تھے کہ ’’اگر میرے پاس یہ تین چیزیں ہوتیں جو حضرت علی رضی اﷲ کے پاس ہیں تو میرے لیے یہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہوتیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے رسول اﷲﷺ کی بیٹی کی شادی اور پھر ان سے اولاد کا ہونا۔ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اﷲﷺ کا جھنڈا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو پکڑانا۔ ان کے دروازے کے علاوہ مسجد کی طرف کھلنے والے باقی سب دروازوں کو بند کردینا‘‘۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ بہت سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ عید کا دن تھا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے ایک صحابی رسولﷺ نے پوچھا کہ ’’اے خلیفہ وقت یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ اور پھر کہا کہ عید کے دن سوکھی روٹی کھا رہے ہیں‘‘۔ تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ ’’عید کا دن اس کے لیے ہے جس کی عبادتیں قبول ہوئیں۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ تمام صحابہ سے زیادہ علم رکھتے تھے اور ان سے کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ علم کے لحاظ سے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اتنے اونچے مقام پر فائز تھے کہ سعید بن مسیب رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں: ’’سیدنا علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جو کہتا ہو کہ مجھ سے سوال کرو‘‘۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ چوتھے خلیفہ بنے اور جب وہ خلیفہ بنے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد انصاف کیا۔ سیدنا علی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو 40 ہجری 24 رمضان المبارک جمعہ کے دن صبح کے وقت کوفہ میں عبدالرحمن بن ملجم نے شہید کردیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بیٹے سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہ نے ان کا جنازہ پڑھایا۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143742 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.