بابا بلھے شاہ ؒ

تا ریخ تصوف کے اورا ق بے شمار ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب کسی طالب حق کے دل میں عشق الہی کی چنگا ری سلگ اٹھی چنگاری آگ کا بھانبھڑ بن گئی آتش عشق نے جسمانی کثافتوں کو راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا پھر طالب حق معرفت الہی عشق الہی کے پر کٹھن سفر پر نکل پڑا پھر قرب الہی پانے کے لیے عبا دت ریاضت تزکیہ نفس مراقبہ اور کڑے مجا ہدوں کے پل صراط سے خو د کو گزار کر کثافت کو لطا فت میں بدل ڈالا جسم و روح کی گندگی کو صاف کیا جسم و روح سراپا نور بن گئے اورپھر ایسے سالک سے کرامات کا ظہور ہو تا ہے اِن کرامات سے اہل دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ بندہ خاص ہے جس پر خالق کا ئنات کا کرم خاص ہو چکا ہے ایسا بندہ سیف زبان بھی ہو تا ہے وہ کن فیکون کے مقام پر ہو تا ہے ایسے بندے پر یہ انعام سخت کڑے مجاہدوں اور عبادات کے بعد ہو تا ہے لیکن کو چہ تصوف میں کچھ ایسے بھی خو ش نصیب ہمیں ملتے ہیں جو عبا دت ریا ضت کڑے مجا ہدوں کے بنا ہی اﷲ کے ولی ہو تے ہیں یہ پیدائشی ولی ہو تے ہیں اِن کے اندر پیدا ئش کے وقت سے ہی لطا فت کی مقدار زیا دہ ہو تی ہے یہ سراپا نور ہو تے ہیں یہ جذب وسکر کی دولت سے مالا مال ہو تے ہیں بچپن سے ہی اِن سے کرا مات سر زد ہو تی ہیں ایسا ہی ایک پیدا ئشی ولی آج ہما را مو ضو ع سخن ہے جو پیدا ئشی ولی تھا اور بچپن میں ہی آپ سے کرامات سر زد ہو نی شروع ہو گئی تھیں 1675 میں ایسا ہی پیدا ئشی ولی اچ گیلانیاں شہر میں پیدا ہوا 6سال کی عمر میں با پ کے کہنے پر یہ بچہ ایک دن کھیتوں میں اپنے مویشی چرا رہاتھا تیز گرمی میں بچہ آرام کی نیت سے ایک شجر سایہ دار کے نیچے لیٹ گیا اور سو گیا مویشیوں کو کو ئی دیکھنے والا نہ تھا اِس لیے وہ بے لگا م ہو گئے وہ جنگل کی گھا س چرتے چرتے قریبی فصل میں گھس گئے اور بری طرح فصلوں کو اجا ڑنے لگے کھیتوں کے مالک جیون خان کو پتہ چلا تو ڈنڈا لے کر مویشیوں کومار پیٹ کر کھیتوں سے با ہر نکالنے لگا لیکن اِس دوران مویشی کھیتوں کو نقصان پہنچا چکے تھے جیون خان غصے کی آگ میں جھلسنے لگا اور چرواہے کو تلاش کر نے لگا تھو ڑی دو ر ہی ایک معصوم 6سالہ بچہ درخت کے نیچے سویا نظر آیا جیون خان آگ برساتا بچے کی طرف بڑھا کہ بچے کو کھا ہی جا ئے گا جس کی کو تا ہی سے اس کی فصلیں بر باد ہو گئیں تھی لیکن جیسے ہیں جیون خان بچے کے قریب پہنچا تو منظر دیکھ کر پتھر کا مجسمہ بن گیا سانسیں رک گئیں اور بچے کو پہچان بھی لیا منظر یہ دیکھا کہ بچہ دنیا ومافیا سے بے خبر پڑا تھا ایک شیش ناگ پھن پھیلائے بچے کے سر پر کھڑا تھا جیون خان خو فناک انداز میں الٹے پا ں واپس بھا گا اور جا کر بچے کے با پ کو اطلاع دی کہ اس کا بچہ اب زندہ نہیں سانپ نے اس کو ڈس لیا با پ پر یہ خبر قیامت بن کر ٹو ٹی وہ بھا گتا ہوا اس جگہ آیا جہاں جیون خان نے اشارہ کیا تھا با پ کو دیکھ کر سانپ خاموشی سے رینگتا ہوا جھاڑیوں میں چلا گیا سانپ کا اندازبتارہا تھا جیسے وہ بچے کا پہرا دے رہاتھا باپ نے جلدی سے بیٹے کو بلایا آوازیں دیں تو بچہ اٹھ کر بیٹھ گیا اورمعصومیت سے باپ کی طرف دیکھا اور بو لا جی بابا جان کیا بات ہے باپ نے اچھی طرح بیٹے کو دیکھا کہ کہیں سانپ کے کا ٹے کا نشان تو نہیں ہے لیکن بچہ تو بلکل ٹھیک تھا بچے کو صحیح سالم دیکھ کر جیون خان غصے میں بو لا تمہا را بیٹا تو ٹھیک ہے لیکن میری فصل تو برباد ہو گئی میرا نقصان کو ن پو را کر ے گا تمہارا بیٹا ٹھنڈی چھاں میں نیند کے مزے لو ٹ رہا تھا ادھر تمہا رے مو یشی میری فصلیں اجا ڑ رہے تھے اب بچہ بو لا ابا جان چاچا جیون غلط کہہ رہا ہے میرے جانور کسی کی فصل نہیں اجا ڑتے وہ تو گھاس ہی چرتے ہیں جیون خان غصے سے بو لا یہ بچہ ہو کر مجھے جھو ٹا کہہ رہا ہے تو باپ بو لا جیون خان میں تمہارا نقصان بھر دونگا چلو دکھا تمہا ری فصل کدھر خراب ہوئی ہے اور پھر جب جیون خان کے کھیت پر پہنچے تو حیران کن منظر تھا فصل بلکل ٹھیک تھی فصل پر بر بادی کے ہلکے سے آثار بھی نہیں تھے نقصان تو دور کی بات یہاں تو کو ئی جانور تک داخل نہیں ہوا تھا جیون خان آنکھیں پھا ڑ کر صحیح سالم فصل کو دیکھ رہا تھا اور شرمندہ بھی ہو رہا تھا اب باپ بو لا میں نے کہا تھا نا کہ میرا بیٹا جھوٹ نہیں بو لتا جیون خان بچے کی کرامت دیکھ چکا تھا باپ بھی بچے سے متا ثر ہو چکا تھا اب جیون خان اِس معصوم بچے کا بہت زیا دہ احترام کر نے لگ گیا تھا یہ بچہ جب کسی راستے سے گزرتا تو جیون خان اِس کے احترام میں کھڑا ہو جاتا اور ادب سے معصوم بچے کو سلام کر تا دعا کی درخواست کر تا پھر جب یہ معصوم بچہ گزر جاتا تو لوگوں کو بتا تا میں اِس بچے کی کرامت دیکھ چکا ہوں یہ اِس دور کا ولی ہے مویشی چرانے والا یہ بچہ شہر قصور کا مشہور بے باک صوفی حضرت بلھے شاہ تھا با پ عبداﷲ المعروف بلھے شاہ سے متا ثر ہو چکا تھا اب اس کی تعلیم کی فکر کی اور قصور میں حافظ غلام مر تضے کے مدرسے میں تحصیل علم کے لیے بھیج دیا یہاں پر آپ نے عربی فارسی زبان پر دسترس حاصل کی پھر تحصیل علم کے بعد جب سند ملی تو باکمال استاد نے اپنے ہو نہا ر شاگرد کو مبا رک باد دی بلھے شاہ نے سر جھکا کر کہا جناب استاد محترم آپ کی درس گاہ نے مجھے علم و شعور دیا دما غ تو مطمئن ہو گیا لیکن دل ابھی بھی پیا سا ہے یہاں تعلیم کے بعد میری روح کا اضطراب مزید بڑھ گیا ہے پیاس اور بڑھ گئی ہے بے چینی جستجو مزید بڑھ گئی ہے استاد مسکرایا اور بو لا بیٹا میں ان استادوں میں سے نہیں ہو ں جو بیک وقت انسان کے دل و دما غ کو مطمئن کر سکیں میرے پاس علم کا جو نو ر تھا و ہ تمہیں دے چکا دل اور روح کی تشنگی اب کسی روحا نی مر شد کے پاس ہی بجھے گی استاد محترم آپ ہی رہنما ئی فرمائیں اب میں کس در پر جا ں استاد محترم شفیق لہجے میں بو لے صدق دل سے تلاش کرو اور اﷲ تمہا ری مدد کر ے گا اِسطرح بلھے شاہ دنیا وی علم حاصل کر نے کے بعد استاد کی دعاں کے ساتھ وہاں سے روحا نی مرشد کی تلاش میں نکل پڑے اِس کے بعد بلھے شاہ ایک جگہ سے دوسری جگہ مرشد کی تلاش میں بھٹکتے رہے لیکن سکون کہیں نہ ملا آخر تھک ہا ر کر روحانی مرشد کی تلاش کی آگ سینے میں سلگا ئے گاں آگئے ایک رات والدہ محترمہ کے پاں دبا رہے تھے چہرے سے اداسی چھلک رہی تھی والد ہ نے اداسی کی وجہ پو چھی تو بلھے شاہ گلو گیر آواز میں بو لے میری روح کی بے چینی اضطراب جستجو تشنگی ختم ہی نہیں ہو رہی میں گیلی لکڑی کی طرح مسلسل سلگ رہا ہو ں بے قراری مجھے کھا ئے جا رہی ہے میرا مرشد نہیں مل رہا میرے لیے دعا کریں ماں نے بیٹے کو گلے سے لگا یا اور کہا اﷲ جلدی تمہیں مر شدسے ملا ئے گا بلھے شاہ اسی اضطراب میں سو گئے تو اس رات عجیب خواب دیکھا آسمان سے ایک نو رانی تخت زمین پر آیا ہے جس پر ایک پر جلال نو رانی بزرگ بیٹھے تھے بلھے شاہ نے تیزی سے قریب جا کر سلام کیا اور ادب سے کھڑے ہو گئے نورانی بزرگ نے پو چھا تمہا را نام کیا ہے تو بلھے شاہ بو لے شاہا میں سید عبداﷲ بن سید درویش محمد قادری ہوں بزرگ مسکرائے اور بو لے تم مجھے پہچانتے ہو بلھے شاہ نے لا علمی کا اظہا ر کیا تو بزرگ بو لے میں پا نچویں پشت میں تمہارا جد امجد ہوں سید عبدالحکیم مجھے پیاس لگی ہے جا پا نی لے کر آ بلھے شاہ دوڑ کر گاں گئے اور مٹی کا پیا لا دودھ سے بھر لا ئے بزرگ نے دودھ کا پیا لہ پکڑا ور دودھ پی لیا تھوڑا دودھ چھو ڑ کر پیا لے کو بلھے شاہ کی طرف بڑھا یا اور کہا یہ دودھ پی لو بزرگ نے دعا دی کہ اﷲ تعالی تمہیں آتش عشق سے نوا زے تمہارے سینے کو نور سے بھر دے اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب کسی کامل مرشد کی صحبت اختیار کر و اب عشق حقیقی کی پل صراط سے تمہیں مرشد کا مل ہی گزار سکتا ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.