تین ہفتے گزرنے کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات
کیا ہیں اور کشمیری کس حال میں ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ مودی حکومت کیا
چھپانا چاہتی ہے۔ بھارت کی12 اپوزیشن پارٹیوں کا ایک وفد ہفتہ کو کانگریس
کے سربراہ راہول گاندھی کی قیادت میں دہلی سے سرینگر روانہ ہوا، اس وفد میں
کمیونسٹ پارٹی ، لاک تانترک جنتا دل، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے، نیشنلسٹ
کانگریس پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، جنتا دل جیسی سیاسی پارٹیوں کے سینئر
لیڈرز شامل تھے۔ اس وفدکے ارکان کو سرینگر ائر پورٹ پر روک لیا گیا۔ ائر
پورٹ سے باہر نہ آنے دیا گیا۔ انہیں کئی گھنٹے بعد ائر پورٹ سے ہی دہلی
واپس روانہ کیا گیا۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ کشمیر کے حالات کا دنیا کو پتہ
نہ چلے۔ بعض بھارتی صحافی سرینگر کے بعض علاقوں میں پہنچے میں کامیاب ہو
جاتے ہیں۔ ان کی رپورٹیں سنسرشپ سے گزرتی ہیں، اس کے باوجود تشو یشناک ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے دیگر درجنوں شہروں اور ہزاروں دیہات میں لوگوں پر کیا
قیامت ٹوٹ پڑی ہے، سب اس سے بے خبر ہیں۔ دنیا بھر میں موجود کشمیریوں اور
ان کے ہمدردوں کی بے چینی کا بڑھنا قدرتی بات ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ
مقبوضہ کشمیر کے فورسز کیمپ، پولیس سٹیشنز قیدیوں سے بھر چکے ہیں۔ یہاں تک
کے 400قیدی جھیل ڈل پر واقع ایک فائیو سٹار ہوٹل’’ سنتور ‘‘میں پابند سلاسل
ہیں۔ ایک طرف مودی حکومت دنیا کو بتا رہی ہے کہ کشمیر کے حالات پر امن ہیں۔
دوسری طرف اس نے 21دنوں سے مسلسل لاک ڈاؤن، موبائل، انٹرنیٹ، ٹیلیفون ،کیبل
بند رکھا ہوا ہے۔ میڈیا پر سخت پابندیاں ہیں۔ سخت کرفیو ہے۔ مگر اعلان دفعہ
144کا کیا جا رہا ہے۔ بعض بھارتی صحافیوں کو بھی کرفیو پاس جاری کرنے کے
بجائے ’’مومنٹ پاس‘‘ جاری کئے جا رہے ہیں۔ اگر سب ٹھیک ہوتا۔ قتل عام اور
مظالم نہیں ہو رہیہوتے تو بھارتی اپوزیشن قائدین کو سرینگر ائر پورٹ سے
باہر نکلنے اور حالات کو دیکھنے کی اجازت دی جاتی۔ایسا کیا تھا کہ جو راہول
گاندھی سے خفیہ رکھا گیا۔ اس سے پہلے 8اگست کوکانگریس لیڈر اور مقبوضہ
کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی سرینگر ائر پورٹ سے ہی واپس
دہلی روانہ کیا گیا تھا۔ اس وفد میں بھی آزاد شامل تھے۔کمیونسٹ پارٹی
لیڈران کو بھی اس سے پہلے سرینگر ائر پورٹ پر گرفتار کیا گیا تھا۔12اگست کو
مقبوضہ کشمیر کے گورنر نے راہول گاندھی کو پیشکش کی تھی کہ وہ انہیں طیارہ
بھیج کر کشمیر کے دورے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ دیکھیں حالات کیا ہیں۔ مگر
اس پیشکش کو گاندھی کے مسترد کر دیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں سفر پر پابندی نہ
ہو اور عوام سے ملاقات کرنے دی جائے۔ مگر بھارتی سیاستدانوں کو ہوائی اڈے
پر ہی روک لینا مودی حکومت کا اپنے مظالم پر پردہ ڈالنا ہے ، گو کہ بھارتی
حکمران اور سیاستدان ایک ہی سکے کے رخ ہیں۔ کسی سے خیر کی توقع کشمیری نہیں
رکھ سکتے، سبھی نے کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لی
ہے۔
آج زمینی صورتحال مخدوش بیان کی جا رہی ہے۔ 5اگست سے دنیا کا رابطہ کشمیر
سے منقطع ہے۔ ہمارے سرینگر یونیورسٹی کے دوستوں نے باہمی رابطوں اور خیر
وعافیت شیئرنگ کے لئے سوشل میڈیا گروپ قائم کیا تھا۔ جس میں ایک سو سے
زیادہ دوست شامل تھے۔ ان میں سول سروسز، ایڈمنسٹریشن، پولیس، یونیورسٹیوں
اور دیگر سرکاری و نجی اداروں میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران بھی تھے۔ جن
میں سے کئی کو سٹیلائٹ ٹیلیفون الاٹ کئے گئے ہیں۔ مگر تمام کے رابطے کٹے
ہوئے ہیں۔ کوئی دوسرے کے بارے میں نہیں جانتا۔ گلی محلوں میں نوجوانوں کو
جب بھی موقع ملتا ہے ، وہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ فورسز پر پتھراؤ کرتے ہیں۔
کئی علاقوں میں صورہ سرینگر جیسے نو گو ایریاز بھی بنے ہیں۔ مگر کب تک
کشمیری بھوکے پیاسے لڑیں گے، مختلف ویڈیوز میں کشمیریوں کا جذبہ دیکھ کر
محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے آخری دم تک لڑنے اور بھارتی حاکمیت کو چیلنج
کرنے کی قسم کھائی ہے۔ انہوں نے بھارتی غلامی سے چھٹکارا پانے کی ٹھان لی
ہے۔ ہم آزاد فضاؤں مین رہنے والے اس جزبے کو دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کر
سکتے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان اور آزاد کشمیر بھر سے آئے صحافیوں کے ہمراہ
مظفر آباد سے چکوٹھی تک مارچ کرنے کا موقع ملا۔ احتجاج کیا ، نعرہ بازی کی۔
مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کی گئی۔ حکام نے سیکڑوں
صحافیوں کو چناری سے آگے نہ جانے دیا۔ چناری سے چکوٹھی سیز فائر لائن
تقریباً 9کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ چکوٹھی میں جنرل پرویز مشرف دور میں
قائم کیا گیا آر پار تجارت اور سفر کے لئے ٹریڈ اینڈ ٹریول سنٹر بھیموجود
ہے۔ جو پلوامہ واقعہ کے بعد سے بند ہے۔تب سے سیز فائر لائن کے لال پل سے
بھارت نے مظفر آباد سرینگر بس سروس اور تجارت پر پابندی لگا دی ہے۔ ان دنوں
مشرف فارمولے کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
مشرف فارمولہ کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا آرمی چیف اور آئی ایس آئی
سربراہ کے ہمراہ دورہ امریکہ، صدر ٹرمپ سے مشترکہ اور الگ الگ ملاقاتیں،
امریکی ثالثی کی مسلسل پیشکشیں، اس کے بعد آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا دورہ
امریکہ وغیرہ، عمران خان کے ٹرمپ سے ملاقات کے دوسرے ہی دن مودی کا کشمیر
کی خود مختاری کا خاتمہ اور تقسیم کشمیر کی ابتداء سے لوگ پریشان بھی ہیں
اور کسی ممکنہ امریکی سازش سے بھی تذبذب کے شکار ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ سب
ڈکسن پلان یا چناب فارمولے کی کڑی ہو۔ وزیراعظم عمران خان اور ڈی جی آئی
ایس پی آرنے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ اس دورہ سے پاکستان اور اس کے
مفادات کے لئے کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے یا اس کے امکانات ہیں۔ اگر امریکی
پاک فوج سے الگ اور سول حکومت سے الگ ملاقاتیں اور بات چیت کرتے ہیں تو ہو
سکتا ہے کہ وہ کوئی ڈبل گیم بھی کھیلنا چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان ماضی میں
امریکی پالیسی سے بہتزخم خوردہ ہے۔ اس لئے محتاط بھی رہ سکتا ہے۔ اس موقع
پر عرب دنیا کا عدم تعاون بھی تشویش کا باعث ہے۔ عرب امارات، بحرین، قطر،
سعودی عرب نے اپنے مفادات کو ہی ترجیح دی ہے۔ ترکی ہی کشمیریوں کی کھل کر
حمایت کر رہا ہے۔ مودی کو اعزازات سے نوازنے کا مطلب ہے کہ انہیں پاکستان
کے مفادات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ گلف نیوز ، خلیج ٹائمزمودی کی تصاویر سے
بھرے پڑے ہیں۔ اگر چہ عرب میڈیا پر بھارتی کنٹرول ہے تا ہم پاکستان کی
سفارتکاری کا کیا ہوا۔ اس پر شرمندگی نہ ہو تو غور ضرور ہونا چاہیئے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے فالو اپ کا بھی انتظار ہے۔ کشمیری کبھی بھی بھارت
کے سامنے سرینڈر نہیں کر سکتے، یہ بات طے ہے مگر پاکستان کی طرف سے مقبوضہ
کشمیر کی آبادی کے لیئے ریلیف اور ریسکیوکا کوئی پروگرام انٹرنیشنل ریڈ
کراس یا عالمی اداروں کی وساطت سے طے کیا گیا ہو ، اس کے بارے میں بھی کچھ
بتایا جائے۔
|